Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سالک لکھنوی-ایک بے باک صحافی

by | Jan 25, 2023

محمد واجد (مدیر۔ وقار عالم)

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہمیشہ ایسا ہوتا آیا ہے کہ جب کوئی عظیم سیاسی، مذہبی، سماجی، باوقار ہستی، کہنہ مشق شاعر و ادیب اس دنیا سے گزرجاتا ہے تو لوگ اس کی خدمات کو یاد کرتے ہیں اور علامہ اقبال کا مذکورہ شعر پیش کرتے ہیں لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ میں کسی ایسی شخصیت کے گزرنے پر نہیں بلکہ اس کی حیات میں اس کی بے مثال ادبی، سیاسی، سماجی اور صحافتی خدمات کے اعتراف میں مذکورہ شعر کے ذریعہ انہیں مبارک باد پیش کر رہا ہوں۔ جس کے بارے میں مذکورہ شعر پیش کرنا میں سمجھتا ہوں کہ قطعی ناگوار نہ ہوگا ۔ جس کی گونہ گوں حیثیت، باوقار شخصیت اور نابغۂ روزگار ہستی کی دعا نرگس نے اپنی نمناک آنکھوں سے خدائے پاک سے کی ہوگی اور اس وقت اس کی تاریک نظروں میں اس وقت چمک پیدا ہوئی ہوگی کہ اب اس کے حسن کی صحیح عکاسی کرنے والا کوئی اس دھرتی پر جنم لے چکا ہے اور وہ ہستی ہے روزنامہ آبشار کے مدیر سالک لکھنوی کی ہے جو 16 دسمبر 2012ء کو اپنی عمر کے 100؍سال پورے کر چکے۔
میں یہاں ان کے ادبی، سیاسی، سماجی یا دیگر کسی پہلو کو ضبطِ تحریر میں نہیں لاؤں گا کیونکہ ان کی خدمات اظہر امن الشمس ہیں۔ دنیا واقف ہے کہ وہ ایک بلند پایہ شاعر، بہترین شارح، اعلیٰ ترجمہ نگار، تنقید نگار اور درجنوں کتابوں کے مصنف اور ایک با اصول صحافی ہیں بلکہ ہم یہاں صرف ایک واقعہ کا ذکر کروں گا جو ان کی بے باک صحافت کا ضامن ہے۔ انہوں نے جب کبھی لکھا خواہ وہ اداریہ ہو یا کوئی فکشن یا غیر فکشن تحریر وہ تحریر بے لاگ لکھا۔ عام طور پر زرد صحافت کی بات کی جاتی ہے مگر یقین جانئے سالک لکھنوی نے صحافتی دنیا میں کبھی بھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا۔ عام آدمی کا دکھ درد ہمیشہ ان کی تحریروں کا موضوع رہا ہے۔ انھوں نے اپنے اداریوں کے موضوعات ’’روز مرہ کی استعمال میں آنے والی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ، سماجی نابرابری، سماجی برائی اور سیاسی نا ہمواری کو بنایا ۔ انہوں نے اداریہ لکھتے وقت کبھی بھی کوتاہ نظری سے کام نہیں لیا نہ ہی کسی سے مرعوب ہوئے بلکہ بے باکانہ انداز میں وہ سب کچھ لکھا جو ایک آزاد صحافی کا وطیرہ ہوتا ہے۔
یہ واقعہ 6؍دسمبر 1992ء کے بعد کا ہے۔ 6؍دسمبر 1992ء کو بی جے پی، شیو سینا، بجرنگ دل اور دیگر ہندو فرقہ پرست تنظیموں کے لاکھوں رضاکار پورے ہندوستان سے یوپی کے فیض آباد میں جمع ہوئے اور چند گھنٹوں میں بابری مسجد کو مسمار کر دیا۔جس کے سبب ملک کی فضا بے حد مسموم ہوگئی۔ جگہ جگہ بلوے، ہندومسلم فسادات کے واقعات پے در پے رونما ہونے لگے۔ آزادی کے بعد 1948ء،1950ء اور 1964ء میں جس طرح کے بلوے پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے قتل عام کی صورت میں برپا ہوئے تھے ، ٹھیک اسی طرح کی فضا بابری مسجد کی مسماری کے بعد قائم ہوگئی اور مسجد مسمار کرنے والوں نے مسلمانوں کیلئے عرصۂ حیات تنگ کر دی۔ اس خوفناک فضا سے مغربی بنگال بھی محفوظ نہ رہ سکا اور اس کا نمونہ ٹینگرا میں دیکھنے کو ملا۔ اگر محاذی حکومت چوکس نہ ہوتی تو مسلمانوں کے قتلِ عام کی ایک بے حد خوفناک تاریخ رقم ہونے سے کوئی نہیں روک پاتااور تقریباً 15 ہزار سے زائد مسلمان ٹنگرا میں آباد تھے، ان بے گناہ اور بے قصور مسلمانوں کی زندگیاں تہہِ تیغ کر دی جاتی۔ بعد ازاں ممبئی کے شیئر مارکٹ میں بم دھماکے کا واقعہ جنوری 1993ء کے آغاز میں رونما ہوا۔ اس کے بعد کولکاتا کے بؤبازار میں 16 مارچ 1993ء میں جو واقعہ پیش آیا اسے بؤ بازار بم دھماکے کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس کی سازش کی پاداش میں رشید خان کئی برسوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ر ہے۔ اس بم دھماکے میں سرکاری رپورٹ کے مطابق 86 افراد ہلاک اور سینکڑوں افراد شدید زخمی ہوئے تھے۔
دوسرے دن آبشار کے مدیر اعلیٰ سالک لکھنوی نے اپنے گھر سے اداریہ لکھ کر بھیجا جس میں تحریر تھا 256 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ آ بشار کے مدیرِ معاون رئیس احمد جعفری نے 256 افراد کی ہلاکت کو نشان زد کر کے اداریہ آفس کے پیون کے ہاتھوں سالک لکھنوی کے گھر بھیجوایا تاکہ اس پر نظر ثانی کر سکیں کیونکہ تعدادِ اموات کی سرکاری رپورٹ 86 تھی اور سالک صاحب نے 256 تحریر کیا تھا۔ رئیس صاحب کے مطابق کہیں ایسا نہ ہو کہ غلط رپورٹنگ کی بنیاد پر اخبار کسی آئینی زد میں آجائے۔ سالک صاحب نے اسی پیون کے ہاتھوں ذرا سی ترمیم کے ساتھ یہ لکھ کر بھیجا کہ میں نے جو لکھا ہے بالکل ویسے ہی شائع ہونا چاہئے۔ ’’ناچیز جب تک جائے حادثہ پر موجود تھا تب تک 276 لاشیں ملبے سے نکالی جاچکی تھی‘‘۔ مجبوراً رئیس صاحب کو من و عن اسے شائع کرنا پڑا ۔ یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ سالک صاحب نے سرکاری اعداد و شمار سے تجاوز کیا بلکہ یہاں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ سالک صاحب ایک پکے اور سچے کمیونسٹ تھے اس پاداش میں کئی مرتبہ انہیں روپوش بھی ہونا پڑا اور جیل بھی گئے۔ خاص امر یہ ہے کہ بؤ بازار بم دھماکے کا واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب مغربی بنگال میں بایاں محاذ کی حکومت تھی جس کی قائد ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی (CPIM ) تھی لیکن انہوں نے اس کی قطعی پروا نہیں کی جو سچ تھا وہ لکھا بلکہ یہ بھی بتایا کہ وہ بذات خود جائے وقوع پر موجود تھے اور یہ بھی ثابت کیا کہ جب صحافی سچا ہو تو وہ کسی سے مرعوب نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے اس مختصر سے مضمون کو شروع کرنے سے قبل علامہ اقبال کے مذکورہ بالا شعر کے ذریعہ انھیں مبارکباد پیش کیا۔ آج وہ ہمارے درمیاں نہیں ہیں لیکن انکی بیباک صحافت آج بھی ہمیں سچائی کی درس دیتی ہے۔کسی نے یہ سچ کہا ہے کہ بے باک صحافی کبھی نہیں مرتا وہ اپنی تحریروں میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ موصوف محمد واجد روز نامہ ” آبشار ” میں بحیثیت سینئر جرنلسٹ (نمائندہ خصوصی) رہ چکے ہیں۔
منتخب۔*( محمد شمیم حسین)

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...