سکون کی تلاش..!

سرفراز عالم، عالم گنج، پٹنہ 

سکون کا تعلق قلب سے ہے روح سے نہیں۔قرآن کے مطابق سکینت قلب پر اترتا ہے۔جب ہم اللہ تعالیٰ سے قرب حاصل کرنے کے لئے کوئی عبادت کرتے ہیں تو انتہائی لطیف روح کے توسط سبے ہمارے قلب پر سکینت طاری ہوتی ہے جس سے ہمارے جسم کو قلبی سکون ملتا ہے نہ کہ روح کو روحانی سکون ۔روح ایک غیر مادی چیز ہے جس کی ان شاءاللہ تفصیل آگے آئے گی۔

         اللہ نے اس دنیا میں انسانوں کے لئے سکون شاید سب سے قیمتی شئے پیدا کی ہے جس کی تلاش انسان کو ہمیشہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ سکون کا تعلق دنیاوی کامیابی یا دنیوی مادی اسباب سے قطعی نہیں ہے ۔دنیا کے امیر اور مشہور ترین لوگ بھی ہمیشہ سکون کی تلاش میں شہر شہر مارے پھرتے رہے ہیں ۔آج  دنیا بھر میں دولت ہونے کے باوجود سب سے زیادہ قلت سکون و اطمینان کی ہے۔

        میرا خیال ہے کہ جیسے جیسے لوگ دنیا کے دلدادہ ہوکر قیامت سے قریب ہوتے جائیں گے ویسے ویسے انسانوں کے دلوں سے چین و سکون چھنتا چلا جائے گا ۔ قومی امید ہے کہ دنیا کے تمام فلسفہ پر ہزاروں سال ریسرچ کرنے کے بعد بھی یہی ثابت ہوگا کہ سکون صرف اللہ کی یاد میں ہی ہے ۔لوگ دنیا بھر میں اپنی عبادت گاہوں میں سکون کی  تلاش کرتے ہیں ۔امیر لوگ اپنی دولت میں سکون تلاش کرتے ہیں تو غریب لوگ اپنی جھونپڑیوں میں بیوی بچوں کے بیچ رہ کر سکون کی تلاش کرتے ہیں ۔کوئی جسم کو آرام دے کر سکون تلاش کرتا ہے تو کوئی بھوکا رہ کر سکون تلاش کرتا ہے ۔بادشاہ ہو یا غلام سبھی اللہ کی اس نعمت کے ہمیشہ متلاشی رہے ہیں ۔سکون اگر مال و جلال میں ہوتا تو دنیا کے سارے مالدار خوش ہوتے!  غرض سکون ایک ایسی قیمتی غیر مادی شئے ہے جس کی تلاش انسان کو ہر دور میں ہر لمحہ رمہی ہے ۔شاید بستر مرگ پر پڑے ہوئے شخص سے بھی پوچھا جائے کہ کیا وہ آخری لمحوں میں سکون کے ساتھ بستر پر ہے تو قوی امید ہے کہ وہ بھی نفی میں جواب دے گا ۔اگر مختصر میں کہیں کہ زندگی کی تمام تگ و دو صرف اسی لئے ہے کہ ہم اس دنیا میں جب تک زندہ رہیں سکون کے ساتھ رہیں۔صبح سے شام تک ایسے کام کریں جس کے بعد رات میں سکون سے نیند آسکے اور موت آئے تو مطمئن ہوکر اللہ کے حضور جاسکے ۔سکون کو پانے کے لئے ان تمام کوششوں کے باوجود جب انسان ہار جاتا ہے تو خود کو وقت کے دھارے پر چھوڑ دیتا ہے اور اسی حال میں اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے ۔

         سکون کی اہمیت سمجھنے کے لئے ایک فلسفیانہ منطقی مثال اس طرح ہے کہ ” اللہ نے انسان کو پیدا کرکے اس کے سامنے ایک مرتبان رکھا اور انسان سے پوچھ کر اس کی ضرورت کے مطابق باری باری سے اس میں سارا سامان رکھ دیا۔آخر میں ایک چیز دکھا کر اللہ نےکہاجانتے ہو یہ آخری چیز کیا ہے؟ انسان نے کہا اے اللہ یہ بھی رکھ دے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ سکون ہے اور یہ اسی کو ملے گا جو میری یاد سے کبھی غافل نہ ہوگا”۔بے شک اس برتن میں رکھا گیا سارا سامان سکون کے بغیر بیکار تھا اور سکون صرف اللہ کی یاد سے ملتا ہے ۔اتنا قیمتی ہے سکون جسے ہم اکثر اسباب دنیا میں ڈھونڈنے کی عبس کوشش کرتے ہیں ۔

         اب تک کے علم کے مطابق اللہ نے ہر انسان کی پیدائش کے ساتھ خاص طور پر تین چیزیں رکھی ہیں جس کو اپنے اعمال سے ظاہر میں سکون پہنچایا جا سکتا ہے ۔جسم، نفس اور قلب۔( کچھ لوگ نفس کو روح سے تعبیر کرتے ہیں، تفصیل ان شاءاللہ آگے آئے گی ) ۔ اس میں جسم مادی چیز ہے جبکہ نفس اور قلب غیر مادی ۔جسم مٹی سے بنا ہے مٹی میں مل کر فنا ہو جائے گا۔نفس جسم کو زندہ رکھتا ہے جبکہ قلب تمام طرح کے احساسات کا مرکز ہے ۔آئیے ان تینوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
       1۔سب سے پہلے انسانی جسم جس کو سکون کبھی نہیں حاصل ہوتا ہے بلکہ صرف اس کی ضرورت پوری ہوتی ہے ۔جسے ہم غلطی سے سکون حاصل کرنا سمجھ لیتے ہیں، حقیقت میں یہ عارضی جسمانی آسودگی ہے ۔یہ جسم ایک پنجڑے کی مانند ہوتا ہے جس کے اندر نفس اور قلب سکونت پذیر ہوتے ہیں ان تین چیزوں کا تعلق کہیں نہ کہیں عارضی آسودگی یا دائمی سکون سے ہوتا ہے۔جسم چونکہ مٹی سے بنا ہے اس لئے اس کی ساری ضرورتیں مٹی سے ہی حاصل ہوتی ہیں اور پھر جسم مرکر مٹی میں ہی فنا ہو جاتا ہے ۔انسان اپنے جسم کی مادی ضرورتوں کو پوری کرکےفوری طور سے یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کے نفس کو بھی سکون مل گیا ہے جو ایک غلط احساس ہے۔اس لئے کہ جسم کو زندہ رکھنے کے لئے انسان اچھی غذا کھانے پر مجبور ہوتا ہے ۔غذا ملنے کے بعد جیسے ہی کچھ دیر کے لئے بھوک مٹ جاتی ہے انسان خوش ہو کر سمجھ لیتا ہے کہ اسے سکون مل گیا۔ لیکن پھر جیسے ہی بھوک لگتی ہے تو سکون حاصل ہوجانے کا جھوٹا بھرم بھی ٹوٹ جاتا ہے ۔گویا جسم کے عارضی سکون کا دارومدار اچھی یا کمزور غذا پر ہوتا ہے جو زندگی کا مقصد بالکل نہیں ہے ۔
       2۔ آئیے اب نفس کے سکون حاصل کرنے کی طرف، جس کو کچھ حد تک خواہش سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔اکثر لوگوں نے نفس اور روح کو ایک ہی سمجھنے کی غلطی کی ہے۔نفس دراصل ایک حیوانی صفت ہے جو تمام جاندار بشمول انسان کو زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے۔ (حیوان کا مطلب جانور کی صفت نہیں بلکہ حیات یعنی زندہ رہنے کے لئے نفس ایک قدرتی طاقت ہے۔روح ایک ایسا غیر مادی عنصر ہے جس کی وجہ سے انسان کے نفس کو شعور حاصل ہوتا ہے)۔ انسان کے علاوہ دوسرے تمام جاندار کے اندر صرف زندہ رہ کر اپنی جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے نفس کی ضرورت پڑتی ہے ۔نفس یعنی جان اور خواہش نہ ہو تو انسان اپنے جسم کی نشوونما کے لئے غذا بھی نہیں کھا سکتا ہے ۔دوسرے جانداروں کو شیطان نہیں بہکاتا ہے جبکہ انسان کو بہکا کر اسے ہلاکت میں ڈالنے کی ہر وقت کوشش کرتا ہے ۔اسی لئے انسان کے اندر اللہ نے تین طرح کا نفس رکھا ہے۔نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ ۔
          اکثر ہم لوگ جسم کی ضرورت کو پوری کرتے وقت خوش ہوتے ہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے جسم کے ساتھ ساتھ نفس کو بھی سکون مل گیا۔لیکن پھر پتہ چلتا ہے کہ جسمانی ضرورتوں کی طرح نفس بھی بار بار خوش ہوتا ہے لیکن سکون کی حد تک نہیں پہنچ پاتا ہے۔قرآن کے مطابق اللہ انسان کو نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ کے ذریعے آزماتا ہے۔نفس امارہ اور لوامہ کے بیچ ہمیشہ کشمکش چلتی رہتی ہے اور شیطان نفس امارہ کے ذریعہ ہوس و خواہشات کو بڑھا کر انسان کا پیچھا کرتا رہتا ہے ۔جبکہ نفس لوامہ بار بار نفس امارہ کو ملامت کرتا رہتا ہے ۔جس کا نفس لوامہ کامیاب ہوتا ہے اس سے شیطان بار بار ہارتا رہتا ہے۔نیک لوگوں کے نفس مطمئنہ پر شیطان اپنا زورچلاتا تو ہے مگر اسے کامیابی نہیں ملتی ہے ۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جسم کی طرح نفس کو بھی دائمی سکون حاصل نہیں ہوتا ہے ۔
      3۔ تیسری چیز قلب ہے جس کو سکون حاصل ہوتا ہے۔قرآن کا اعلان ہے کہ سکون صرف اللہ کے ذکر میں ہی ہے۔ذکر کا مطلب اکثر لوگ صرف اللہ کی تسبیح کرنا سمجھتے ہیں جبکہ ذکر کے وسیع مفہوم کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ زندگی کا ہر لمحہ اگر خالص اسلام کے بتائے ہوئے طریقے سے گزارا جائے تو یہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے ۔
    خبردار! (سن لو) اللہ کے ذکر ہی سے دل سکون و اطمینان پاتے ہیں۔
                                   (سورہ رعد 28 )
       ایک مغالطہ: عام طور پر لوگوں کی زبان پر ہوتا ہےکہ میت کی روح کے سکون کے لئے دعا کریں جبکہ سکون کا روح سے کوئی تعلق نہیں لگتا ہے اور نہ قرآن سے ایسا کوئی اشارہ ملتا ہے۔روح کے معنی اردو لغت میں” توانائی یا جوہر ” کے ہوتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ روح اللہ کا” کن” ہے جس سے انسانی نفس کو حرکت ملتی ہےاور جسم زندہ رہتا ہے ۔میرا اپنا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان جسم میں اپنے حکم کو روح کی شکل میں پھونک دیا جس کے ذریعہ اس نے اپنی صفات (معلوم کی حد تک 99 ) کا بہت تھوڑا سا لطیف عنصر انسانی جسم میں منتقل کر دیا جس کی وجہ سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی معرفت نصیب ہوتی ہے۔ آج کے سائنسی نظریہ سے دیکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ روح ایک ” انرجی” ہے جو انسانی جان ( نفس) کو حرکت میں رکھتا ہے ۔روح کے نکلنے سے موت نہیں آتی ہے بلکہ نفس کے نکلنے سے انسان مرتا ہے ۔
   قرآن کے سورہ انعام آیت 93 میں کہا گیا ہے۔

ترجمہ: کاش تم ان ظالموں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں(نفس)، آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی۔

        اس آیت میں موت کے وقت روح نکلنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ نفس کے نکلنے سے موت ہونے کا اشارہ ہے ۔اکثر مفسرین نے نفس کا ترجمہ روح کیا ہے جبکہ روح ایک الگ لفظ ہے جو قرآن میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔
       سکون حاصل کرنے کا سب سے بہترین راستہ ہے کہ شکر وصبر کو سمجھ کراس پر قائم رہا جائے۔ جو چیز حاصل ہو جائے اس پر شکر کیا جائے اور جو تدبیر کے باوجود حاصل نہ ہو اس پر صبر کیا جائےجس کی تصدیق قرآن واحادیث سے ہوتا ہے۔ سکون حاصل کرنے کا واحد راستہ ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا صحیح استعمال کرکے شکر گزار بندہ بنے اور پریشانی آنے پر صبر کرکے راضی بہ رضا ہو جائے ۔
         سکون قلب بھی اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ایک بہترین عطیہ ہے۔قلب سکون تب حاصل ہوتا ہے جب انسان ہر لمحہ اللہ کی یاد سے اپنے قلب کو زندہ رکھتا ہے اور اللہ اس زندگی میں برکت پیدا کر دیتا ہے ۔سکون کا برکت سے بہت گہرا تعلق ہےجسےاللہ نیت اور اعمال کے مطابق اپنی مرضی سے بندوں کو عطا کرتا ہے۔وہ چاہتا ہے تو کم وسائل میں بھی برکت عطا کرکے آرام و راحت میسر کرتا ہے۔ اسی طرح وہ جب چاہتا ہے بے شمار وسائل کے باوجود مختلف پریشانیوں میں مبتلا رکھتا ہے اور اس کی برکتیں نصیب نہیں ہوتی ہیں ۔برکت اتنی قیمتی شئے ہے جس کا ادراک بڑی مشکل ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے برکت کے تعلق سے فرمایا یے۔
      ترجمہ : اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔(سورہ الأعراف96)
      اس طرح یہ واضح ہو گیا کہ سکون صرف قلب پر طاری ہوتا ہےاور قلب کا سکون اللہ کے احکامات کی مکمل اطاعت و پیروی پر منحصر کرتا ہے ۔
“ہم کو نہ مل سکا تو فقط ایک سکون دل
    اے زندگی و گرنہ زمانے میں کیا نہ تھا”
                                           آزاد انصاری

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *