Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

اقتصادی برابری کے بغیر ادھوری ہے آزادی

by | Feb 1, 2023

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
سیاست بھروسہ سے چلتی ہے، مگر جمہوریت وفاداری، یقین، اخلاقی اقدار اور عوامی سروکار کے تئیں ایماندار کوشش سے ۔ مساوات، ہم آہنگی، حب الوطنی ایسی قدریں ہیں جن سے جمہوریت مضبوط بنتی ہے ۔ پچھلی سات دہائیوں میں ہماری جمہوریت اتنی اونچ نیچ جھیل چکی ہے کہ ہر بار لگتا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے ۔ مگر جمہوریت مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے ۔ اس کی وجہ ہے ملک کی متنوع تکثیری ثقافت ۔ یہاں کسی ایک تہذیب یا طبقہ کی اجارہ داری نہیں چل سکتی ۔ یہی تکثیریت یا کثرت میں وحدت اس کی طاقت ہے ۔ لیکن جمہوریت میں یقین نہ رکھنے والوں کے لئے تنازعہ کی جڑ ۔ حالانکہ اسی کی وجہ سے ابھی تک جمہوریت زندہ ہے ۔ ہر سال یوم جمہوریت پر اسے برقرار رکھنے کا ہم عہد کرتے ہیں ۔ لیکن ہمارے سیاستدانوں کے رویہ سے اکثر یہ عہد ٹوٹتا رہتا ہے ۔
جمہوریت کا جشن گزشتہ 73 سالوں سے مسلسل منایا جا رہا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم ابھی تک اپنے آئین کی بنیادی روح پر پوری طرح عمل درآمد نہیں کر سکے ۔ آئین ہر شخص کو روٹی، روزی، لباس کی ضمانت، عزت برقرار رکھنے اور اپنی بات کہنے کی مکمل آزادی دیتا ہے ۔ ملک کے ہر باشندے کو جنس، ذات، برادری اور فرقہ وارانہ تفریق کے بغیر زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے ۔ آئین ملک کے ہر فرد کو خوف یا بھوک سے تحفظ، انصاف اور عزت کی زندگی کی ضمانت دیتا ہے ۔ لیکن ابھی تک آئین پر اعتماد کے باوجود ملک کے ہر فرد کو بے خوف زندگی گزارنے کی ضمانت نہیں ملی ۔ جبکہ آئین سازوں نے ایک ایسا آئین بنایا تھا جس میں ہر قسم کے سماجی تحفظ کی بات تھی ۔ اس میں ترامیم کرکے منتخب حکومتوں نے جگہ جگہ اس کی بنیادی روح میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں ۔ پچھلے 73 سالوں کی حکومتوں نے اسے اپنی سہولت اور ووٹ بینک کے مطابق استعمال کیا ۔ یوں تو آئین کی نظر میں ملک کا ہر شہری برابر ہے خواہ وہ اقتدار پر بیٹھا سیاست دان ہو، بیوروکریٹ ہو یا سرمایہ دار، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ کہ آج سب سے کمزور پوزیشن اس شخص کی ہے جو آئین کو اپنا محافظ سمجھتا ہے ۔

اگر حکمرانوں نے ملک کے عوام کی بنیادی ضروریات بھی آئین کی روح کے مطابق پوری نہیں کیں تو اس کا احتساب ہونا چاہئے ۔ ایک مہذب قوم کے سربراہ مملکت کو یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ آخری آدمی کو آئین کے ہر حصے پر عمل درآمد کی آزادی ملے ۔ اس کے ساتھ مقننہ اور ایگزیکٹو کو ملک کے ہر فرد کے دکھ درد کو دور کرنے کی ذمہ داری لینی ہوگی ۔ ایسا ماحول بنانا ہوگا کہ وہ بے خوف زندگی گزار سکیں ۔جس دن ملک کے ہر فرد کی آنکھوں کا ایک ایک آنسو چلا جائے گا، اس دن حقیقی معنوں میں جمہوریت اور آئین کا مقصد پورا ہوگا ۔ اور یہ وسائل کی یکساں تقسیم اور اقتصادی عدم مساوات کو دور کئے بغیر ممکن نہیں ۔
آکسفیم کی تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ بھارت میں اعب پتیوں کی تعداد میں برابر اضافہ ہو رہا ہے ۔ سال 2000 میں صرف 9 ارب پتی تھے، سال 2020 میں 102 اور اب 166 ہو گئی ہے ۔ ایک فیصد امیروں کے پاس ملک کی کل دولت کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ ہے اور صرف 5 فیصد کا ملک کے 60 فیصد سے زیادہ وسائل پر قبضہ ہے ۔ رپورٹ کے مطابق 21-2022 میں جی ایس ٹی میں 14.83 لاکھ کروڑ روپے کا لگ بھگ 64 فیصد نیچے کی 50 فیصد آبادی سے آیا ہے ۔ جبکہ ٹاپ کے 10 کی اس میں صرف تین فیصد حصہ داری ہے ۔ صنفی عدم مساوات پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خاتون کامگار کو مرد کے مقابلہ صرف 63 پیسے ملتے ہیں ۔ جب دنیا کووڈ وبا، ماحولیاتی تبدیلی، رہنے کی بڑھتی لاگت کے بحران سے گھری تھی تب بھی امیر اور امیر ہو گئے ۔ کارپوریٹ کے منافع میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایک دہائی میں ارب پتیوں کی مالیت میں لگ بھگ 10 گنا اضافہ ہوا ہے ۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ بھارت کے 20 فیصد ارب پتی نجی ہیلتھ سیکٹر اور فارماسیوٹیکل کاروبار سے جڑے ہیں ۔ کووڈ -19 کے دوران اس کو اور فروغ ملا ہے ۔ اڈانی گروپ کے چیئرمین گوتم اڈانی کی دولت میں اکیلے کووڈ وبا کے دوران آٹھ گنا کا اضافہ ہوا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق بھارت 163 ممالک میں معیاری تعلیم تک یکساں رسائی کے معاملہ میں 135 ویں اور صحت کی سہولیات تک پہنچ کے معاملے میں 145 ویں مقام پر ہے ۔ ضروری ہیلتھ سروسز تک رسائی کے لئے بھارت کی رینک 123 ویں ہے ۔ یہاں غریب زندہ رہنے کے لئے بنیادی ضروریات پورا کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں ۔ بھوکے لوگوں کی تعداد 2018 میں 190 ملین تھی جو 2022 میں بڑھ کر 350 ملین ہو گئی ہے ۔ یہ نابرابری اچانک نہیں بڑھی ہے بلکہ لبرلائزیشن اور حکومت کی پالیسیوں نے اسے تیزی سے بڑھایا ہے ۔ حکومتوں نے غریبی مٹانے کی باتیں تو کیں لیکن مٹا نہیں پائیں ۔ اسی کروڑ لوگوں کو مفت اناج دینے سے اس صورتحال کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ ملک کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے ۔ کل ساڑھے چھ لاکھ گاؤں اور ڈھائی لاکھ پنچائیت ہیں ۔ پھر بھی کچھ مٹھی بھر لوگوں کے پاس ملک کی دولت ہے ۔ ترقی کی گنگا بھی انہیں کے لئے بہہ رہی ہے ۔ شہر اسمارٹ بنائے جا رہے ہیں لیکن گاؤں اور پنچائیت کچھ بنیادی سہولیات کے لئے لڑ رہے ہیں ۔
ملک میں کروڑ پتیوں کی تعداد بڑھنے سے کام نہیں بنے گا ۔ وسائل کی یکساں تقسیم اور اقتصادی نابرابری کو دور کرنے کے لئے ٹھوس قدم اٹھانے ہوں گے ۔ کیوں کہ عدم مساوات حد سے زیادہ بڑھ جانے سے سماج میں فتنہ، فساد اور تناؤ بڑھتا ہے ۔ جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے اور ترقی کے کاموں پر منفی اثر پڑتا ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ بھارت آمدنی میں نابرابری کی بیڑیوں سے خود کو آزاد کرے ۔ تاکہ سبھی طبقات تک معاشی خوشحالی پہنچ سکے ۔ اس کو یقینی بنانے کے لئے امیروں اور کارپوریٹ پر اضافی ٹیکس لگایا جائے ۔ فلاحی اسکیموں، تعلیم اور صحت کے لئے زیادہ رقم مختص کرنی ہوگی ۔ صحت کے لئے جی ڈی پی کا 2.5 اور تعلیم کے لئے 6 فیصد خرچ کرنا ہوگا ۔ جیسا کہ قومی صحت اور تعلیمی پالیسی میں عہد کیا گیا ہے ۔ امیر اور غریب کے بیچ کی اقتصادی کھائی کو پاٹے بغیر ہماری آزادی ادھوری ہے ۔ آزادی کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے حکومت کے ساتھ عام آدمی کو بھی پہل کرنی ہوگی ۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...