کیا سستا ہوا اور کیا مہنگا؟

نئی دہلی : آنے والے دنوں میں موبائل فون خریدنا سستا ہو سکتا ہے جبکہ سونا چاندی مہنگی ہوسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے موبائل فون کے کچھ حصوں پر درآمدی ڈیوٹی کم کر دی ہے اور سونے اور چاندی پر ڈیوٹی بڑھا دی ہے۔ ایسے میں عام آدمی کی جیب پر کون سی چیزیں بوجھ بڑھنے والی ہیں اور اسے کیا ریلیف ملے گا، کیا آپ جانتے ہیں کہ کیا سستا ہوا اور کیا مہنگا؟

سستا
لیتھیم آئن بیٹریاں بنانے کے لیے استعمال ہونے والی اشیا پر درآمدی ڈیوٹی کم کر دی گئی۔
ٹی وی پینلز کے پرزہ جات پر کسٹم ڈیوٹی ۵؍فیصد سے کم کرکے ڈھائی فیصد کر دی گئی۔
موبائل فون مینوفیکچرنگ کے کچھ حصوں پر کسٹم ڈیوٹی کم کردی گئی۔
ہیٹ کوائل پر کسٹم ڈیوٹی ۲۰؍فیصد سے کم رککے ۱۵؍ فیصد کر دی گئی
لیبارٹری سے اگائے جانے والے ہیروں کی تیاری میں استعمال ہونے والے بیج پر ڈیوٹی کم کردی گئی۔
حکومت برآمدات کو بڑھانے کے لیے جھینگوں کی خوراک پر کسٹم ڈیوٹی کم کرے گی۔
خام گلیسرین پر کسٹم ڈیوٹی ۷ء۵؍فیصد سے کم کرکے ڈھائی فیصد کردی گئی
کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ کلیننگ ایجنٹ ڈینیچرڈ ایتھل الکحل

مہنگا
سگریٹ پر قدرتی آفات کی ہنگامی ڈیوٹی (NCCD) میں ۱۶؍6 فیصد اضافہ
سونے کی سلاخوں اور پلاٹینم سے بنی اشیا پر ڈیوٹی بڑھا دی گئی۔
سلور ڈیوٹی ۶؍فیصد سے ۱۰؍فیصدتک۔ اس سے بنی اشیاء پر ڈیوٹی بڑھا دی گئی۔
مرکب ربڑ پر ڈیوٹی ۱۰؍فیصد سے بڑھا کر ۲۵؍ فیصد کر دی گئی
کچن کی الیکٹرک چمنی پر کسٹم ڈیوٹی ۷ء۵؍فیصد سے بڑھا کر ۱۵؍ فیصد کر دی گئی

جی ایس ٹی
بہت کم مصنوعات ایسی ہیں جو بجٹ میں سستی یا مہنگی ہوں گی۔ اس کی وجہ گڈز اینڈ سروس ٹیکس یعنی جی ایس ٹی ہے۔ ۲۰۱۷ء کے بعد مصنوعات کی تقریباً ۹۰؍فیصد قیمتیں جی ایس ٹی پر منحصر ہیں۔ جس کا فیصلہ جی ایس ٹی کونسل کرتا ہے۔ فی الحال، جی ایس ٹی کے ٹیکس سلیب میں چار شرحیں ۔۵؍فیصد ، ۱۲؍فیصد، ۱۸؍فیصد اور ۲۸؍فیصد ۔ ضروری اشیاء اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں یا سب سے کم سلیب میں رکھی گئی ہیں۔ جی ایس ٹی کونسل جی ایس ٹی سے متعلق تمام فیصلے لیتی ہے۔گزشتہ سال آٹے کی قیمت میں ۲۳؍ فیصد اضافہ ہوا اور قرضے بھی مہنگے ہو گئے۔ گزشتہ سال جنوری میں ایک کلو آٹا ۲۶؍ روپے میں دستیاب تھا۔ دسمبر میں اس کی قیمت بڑھ کر ۳۲؍ روپے فی کلو ہو گئی۔ اسی طرح روزمرہ استعمال کی اشیاء تیل، دودھ اور چاول کی قیمتیں بھی ہر گھر میں بڑھ گئی ہیں۔ ۲۰۲۲ءمیں پہلی بار گھریلو گیس سلنڈر ۱۰۰۰؍روپے سے تجاوز کر گیا۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے آر بی آئی کی جانب سے شرح سود میں اضافے کی وجہ سے قرضے بھی مہنگے ہو گئے ہیں۔ آپ نیچے دیے گئے گراف سے پچھلے ایک سال کی مہنگائی کو سمجھ سکتے ہیں…

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *