مشرقی مدنی پور ضلع گلِ داؤدی پھولوں کی کاشت کے لیے مشہور ہے۔ سال کے تقریباً تمام اوقات کے علاوہ اس موسم سرما میںگلِ داؤدی کے وسیع علاقے میں مختلف اقسام کے پھولوں کی بڑی تعداد کاشت کی جاتی ہے لیکن ان میں گلِ داؤدی زیادہ اہم ہے کیونکہ اس کی کاشتکاری منافع بخش ہے۔ لگاتار دو سال تک کورونا کی وجہ سے پھولوں کی صنعت کو معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اب اس کی تلافی ہو گئی ہے۔ دہلی ممبئی مہاراشٹر پونے احمد آباد سمیت ہندوستان کے مختلف حصوں کے بازاروں میں گلِ داؤدی کی بہت مانگ ہے۔ اس مانگ کی وجہ سے گلِ داؤدی کی قیمت جہاں دوسرے سالوں میں کسانوں کو ایک سے دو ٹکے ملتے تھے، وہیں اس سال اوسطاً پانچ ٹکے تک اضافہ ہوا ہے۔ کسانوں کے منافع میں اضافہ ہوا ہے۔
شمالی مدنی پور میں مختلف پھول کاشتکاروں نے بتایا کہ ایک پلاٹ پر گلِ داؤدی کی کاشت پر تقریبا ۵؍ہزار روپیہ خرچ آتا ہے۔ دیگر سالوں میں ایک کٹھہ زمین سے پھول کاشت کر کے ۸؍تا ۱۰؍ہزار کمایا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس سال ایک زمین پر تقریباً ۴۰؍سے ۴۵؍ہزار روپے کی آمدنی ہوئی ہے۔ کوویڈ کی وجہ سے پچھلے دو سال یہ صنعت بہت زبردست خسارہ سے گزری تھی جس کے سبب یہاں کے کسانوں کی زندگی بھی بہت متاثر رہی۔ اس سال پھولوں کی مانگ کافی بہتر ہے۔کسانوں کو ۵؍روپے تک ایک پھول کے مل رہےہیں۔ کسانوں کو امید ہے کہ ۱۴؍فروری کو ویلنٹائن ڈے سے یہ قیمت مزید بڑھ جائے گی۔ گلِ داؤدی کے ایک پھول کی قیمت لگ بھگ ۷؍روپے ہوگی۔ موسم سرما کے پھولوں کی اس کاشت منافع بخش ہونے کی وجہ سے بہت سے پسماندہ کسانوں کے پاس اپنی زمین نہیں ہے لیکن وہ پھولوں کی کاشت کے لیے زمین مالک سے لیز پر لیتے ہیں۔
جب پھولوں کی مارکیٹ قیمت اچھی ہوتی ہے تو منافع میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر پھولوں کی منڈی شروع سے ہی اچھی ہو تو کسان گھر گھر منافع لے سکتے ہیں۔
یہاں کے کسان پچھلے ۲۰؍تا ۳۰؍سالوں سے پھولوں کی کاشت کررہےہیں لیکن اس سال کی طرح گلِ داؤدی کی قیمت کبھی بھی دو روپے سے زیادہ نہیں ہوئی۔ شمالی مدنی پور کی پہچان پھولوں سے ہوتی ہے۔ چاول کسان کے گھر میں پھولوں سے گملوں میں اگتے ہیں۔ اس سال پھولوں کے سیزن کے آغاز سے ہی پھولوں کی قیمت اچھی رہی ہے توپھول کاشتکاروں کے گھروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔