نئی دہلی: اڈانی گروپ کی مشکلات کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ اب گروپ کی کمپنیوں کے بارے میں ایک اور خبر آ رہی ہے۔ اڈانی گروپ کی تین کمپنیوں نے اپنے حصص بینکوں کے پاس گروی رکھے ہیں۔ ان بینکوں نے اڈانی گروپ کی مرکزی کمپنی اڈانی انٹرپرائزز کو قرض دیا ہے۔ کمپنیوں نے اپنے حصص ’ایس بی آئی کیپ‘ ٹرسٹی کمپنی کے پاس گروی رکھے ہیں۔ ایس بی آئی کیپ ٹرسٹی کمپنی ملک کے سب سے بڑے بینک اسٹیٹ بینک آف انڈیا ( کی اکائی ہے۔ اس نے بامبے اسٹاک ایکس چینج ایک فائلنگ میں بتایا کہ اڈانی پورٹس اور اسپیشل اکنامک زون ، اڈانی ٹرانسمیشن لمیٹڈ اور اڈانی گرین انرجی لمیٹڈ نے اس کے پاس اپنے حصص گروی رکھے ہیں۔
ہندنبرگ ریسرچ نے ۲۴؍ جنوری کو اڈانی گروپ پر منفی رپورٹ جاری کی تھی۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اڈانی گروپ نے شیئرز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے۔ حالانکہ اڈانی گروپ نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ لیکن اس رپورٹ کے آنے کے بعد سے اڈانی گروپ کے شیئرز مسلسل گر رہے ہیں۔ دریں اثنا، ایم ایس سی آئی نے اڈانی گروپ کی چار کمپنیوں کے فری فلوٹ اسٹیٹس کو بھی کم کر دیا ہے۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، مارکیٹ ریگولیٹر ایس بی آئی اڈانی گروپ اور کچھ سرمایہ کاروں کے ساتھ اس کے روابط کی تحقیقات کر رہا ہے۔ ان سرمایہ کاروں نے حال ہی میں گروپ کی فلیگ شپ کمپنی اڈانی انٹرپرائزز کے ایف پی او میں سرمایہ کاری کی ہے۔ تاہم، اڈانی گروپ نے یہ ایف پی او واپس لے لیا تھا اور سرمایہ کاروں کی رقم واپس کر دی تھی۔
ایس بی آئی کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ ایس بی آئی نے آسٹریلیا میں اڈانی گروپ کے کارمائیکل پروجیکٹ کےلئے ۳۰۰؍ملین ڈالرکی سہولت میں توسیع کی ہے۔ اس کے تحت تین گروپ کمپنیوں کے کچھ اضافی حصص گروی رکھے گئے ہیں۔ ۱۴۰؍فیصد کی مطلوبہ کولیٹرل کوریج کا ہر مہینے کے آخر میں جائزہ لیا جاتا ہے اور کسی بھی کمی کو ٹاپ اپ کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے۔ پچھلے سال ٹاپ اپ جون اور جولائی میں کیا گیا تھا اور تیسرا ٹاپ اپ ۸؍ فروری کو کیا گیا تھا۔
ترجمان نے کہا کہ سیکورٹی ٹرسٹی ہونے کے ناطے ایس بی آئی کیپ ٹرسٹی کمپنی کو ایس بی آئی کو اس کی اطلاع دینا ضروری ہے۔ جب بھی گروی رکھے ہوئے حصص کی تعداد میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے تو اس کی اطلاع مارکیٹ ریگولیٹر کو دینی ہوگی۔ اس کے ساتھ اس پروجیکٹ میں اڈانی گرین کے گروی رکھے ہوئے حصص کی تعداد ۱ء۰۶؍فیصد ، اڈانی پورٹس کے ۱ء۰؍فیصد اور اڈانی ٹرانسمیشن کے ۰ء۵۵؍ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یہ صرف اضافی کولیٹرل سیکیورٹی ہے اور اس کے لئے ایس بی آئی کی طرف سے کوئی فنانس نہیں دیا گیا ہے۔