نئی دہلی
ہندوستان میں تمام قسم کی غذائی اجناس کا ایک تہائی استعمال سے پہلے خراب ہو جاتا ہے۔ فوڈ سیفٹی اینڈ سٹینڈرڈز اتھارٹی آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں یہ بات کہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی فوڈ ویسٹ انڈیکس رپورٹ ۲۰۲۱ء کہا گیا ہے کہ ہندوستانی گھرانوں میں ہر سال تقریباً ۵۰؍ کلو گرام غذائی اجناس ضائع ہو جاتا ہے۔ اس طرح ملک میں سالانہ ۷؍ ملین ٹن غذائی اجناس ضائع ہو جاتا ہے۔
یہ ضیاع سپلائی چین میں ہر جگہ ہوتا ہے—ٹرانسپورٹیشن، اسٹوریج، اور مارکیٹنگ—کچن اور ڈائننگ ٹیبل تک۔ کھانے کا ایک بڑا حصہ بنانے کے بعد اسے پھینک دینا پڑتا ہے کیونکہ پیدا ہونے والے مواد کی مقدار اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جو خاندانی یا سماجی سطح پر استعمال کی جا سکتی ہے۔ خوراک کو محفوظ کرنے میں تاخیر اور ان کے ذرائع (کولڈ اسٹوریج وغیرہ) کافی نہ ہونے کی وجہ سے خوراک کی ایک بڑی مقدار ضائع ہو جاتی ہے۔ کلکتہ کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کی ایک تحقیق کے مطابق، صرف ۱۰؍ فیصد خراب ہونے والی اشیائے خوردونوش کولڈ سٹوریج میں محفوظ ہیں۔
عالمی سطح پر بھی، فصل کی کٹائی سے لے کر استعمال تک خوراک کی ایک بڑی مقدار ضائع ہوتی ہے۔ یو این ای پی انڈیکس کے مطابق غذائی اجناس کی کل پیداوار کا ۱۷؍فیصد ضائع ہو جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ دنیا میں سالانہ ۳ء۱؍ بلین ٹن غذائی اجناس ضائع ہو جاتا ہے۔ ہندوستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں غذائیت کی کمی کا مسئلہ ہے، ایسے میں اتنی بڑی مقدار میں غذائی اجناس کو خراب کرنا ٹھیک نہیں ہے۔
ادارے کے اندازوں کے مطابق دنیا میں تقریباً ۷۹۵؍ ملین افراد کو مناسب خوراک نہیں ملتی۔ ضائع ہونے والی خوراک کی مقدار کو بچانے سے ہر سال 1.26 بلین بھوکے لوگوں کو کھانا کھلانے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ اعداد و شمار بہت بڑے لگتے ہیں لیکن ریستورانوں، ہوٹلوں، فنکشن ہالز، نجی پارٹیوں، شادیوں اور دیگر تقریبات میں ضائع ہونے والے کھانے کی مقدار کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔
درحقیقت، سماجی اجتماع جتنا بڑا ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ کھانا ضائع ہوتا ہے۔ ان اعداد و شمار سے پیغام یہ ہے کہ خوراک کا ضیاع بہت زیادہ ہے اور اسے فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔ انہیں کسی نہ کسی شکل میں دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ خام اناج کے ضیاع کو روک کر اور خوراک کے بہتر استعمال سے بھوک اور غذائیت کی کمی کا مسئلہ کافی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔