ثالث کا شوکت حیات نمبر ایک ادبی دستاویز: جرنلسٹ اقبال

ڈاکٹر اقبال حسن آزاد

زندہ و متحرک زبان کا ترجمان “ثالث” کا شمارہ 22-21 مشہور و معروف ادیب شوکت حیات کے نام سے منسوب ہے۔
مدیر اعزازی ڈاکٹر اقبال حسن آزاد اپنے اداریہ میں لکھتے ہیں کہ شوکت حیات کی خواہش تھی کہ “ثالث”میں ان پر گوشہ نکلے مگر افسوس کہ یہ کام ان کی زندگی میں نہ ہو سکا۔لیکن جب اس کا ارادہ کیا تو اس شمارے کی ترتیب کے دوران اتنی کثیر تعداد میں مضامین موصول ہونے لگے کہ گوشے کی جگہ پورا نمبر تیار ہو گیا۔
انہیں اعتراف ہے کہ میں نے جیسے ہی اس گوشے کا اعلان کیا میرے عزیز دوست پروفیسر صفدر امام قادری نے بہت سارا مواد مجھے ارسال کر دیا۔علاوہ ازیں شوکت حیات کے ناولٹ سرپٹ گھوڑا پر ایک پر مغز مقالہ بھی لکھا۔اس کے علاؤہ ڈاکٹر قسیم اختر اور ارشد رضا نے بھی میری مدد کی۔ڈاکٹر سید احمد قادری،ڈاکٹر منصور خوشتر،ڈاکٹر قسیم اختر،ڈاکٹر زر نگار یاسمین،ڈاکٹر گلاب سنگھ،ڈاکٹر نزہت پروین نے مضامین لکھے وہیں مشتاق احمد نوری،عبدالصمد،ڈاکٹر ابرار رحمانی،ڈاکٹر منظر اعجاز،راقم الحروف اور محترمہ نشاط پروین نے اپنی یادوں کو سمیٹا اور شوکت حیات کا خاکہ لکھا۔
واقعی 496 صفحات پر مشتمل یہ شمارہ اگر ادبی دستاویز کا حصہ بن چکا ہے تو اس میں ڈاکٹر اقبال حسن آزاد کی اپنی ادبی حیثیت کا بھی بڑا دخل ہے۔
اس شمارے میں اقبال حسن آزاد نے نہ صرف شوکت حیات سے متعلق بھر پور مضامین ،خاکے، ان کے افسانے پر تجزیہ و تبصرہ،انٹرویو،ان کے خطوط شامل کئے ہیں بلکہ موصوف کے 7 شاہکار افسانے “گنبد کے کبوتر”, “رانی باغ’, “مرشد”, “ذائقہ”, “بانگ”, “میت”, “کوبڑ” کے علاؤہ ناولٹ ” سرپٹ گھوڑا” بھی شامل کئے ہیں تاکہ میری طرح جو قاری شوکت حیات کے افسانے ناولٹ نہ پڑھ سکے ہوں وہ مطالعے میں لے آئیں اور ان پر لکھے گئے ملک کے نامور مصنفین کے مضامین،خاکے کی اہمیت،بے لاگ تبصرے کو سمجھ سکیں۔
اس شمارہ کے ملنے سے پہلے میں شوکت حیات کے صرف دو افسانے اور چند مضامین ہی پڑھے تھے لہذا شوکت حیات نمبر موصول ہوتے ہی پہلے کوائف شوکت حیات، انٹرویو، شوکت حیات کے خطوط،
شوکت حیات کے مضامین، ان کے افسانے ناولٹ کو پڑھا اور پھر مضامین اور خاکے،تجزئے ۔
اس شمارے میں پرفیسر وہاب اشرفی،
وارٹ علوی،فاروق ارگلی،ڈاکٹر ابرار رحمانی،پروفیسر صفدر امام قادری،ڈاکٹر سید احمد قادری،ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی،ڈاکٹر صغیر افراہیم،ڈاکٹر سید اشہد کریم،ڈاکٹر حامد علی خان،ڈاکٹر منصور خوشتر،ڈاکٹر صالحہ صدیقی، عرفان رشید،ڈاکٹر قسیم اختر،ایم خالد فیاض،ڈاکٹر زرنگار یاسمین،ڈاکٹر وصیہ عرفانہ،ڈاکٹر گلاب سنگھ،ڈاکٹر نزہت پروین کے مضامین پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
پروفیسر وہاب اشرفی اپنے مضمون کے آخری سطر میں لکھتے ہیں کہ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شوکت حیات کے افسانے فکری و فنی افسانے کے ارتقائ کیف کی مثالیں ہیں جن میں زندگی کی دھڑکنیں ہر جگہ محسوس کی جا سکتی ہیں۔ایک انقلابی ذہن میں کیسی تخلیقی روشن پیدا ہو سکتی ہے اس کا ایک مکمل منظر نامہ شوکت حیات کے افسانے ہیں۔۔۔اردو افسانے کی مجموعی تاریخ میں ان کی جگہ معتبر بھی ہے محفوظ بھی۔
بقول وارث علوی شوکت حیات ان جیالے لوگوں میں سے ہیں جو نہ تو کسی نقاد کی توجہ کی پروا کرتے ہیں نہ دوسروں کی بخشی ہوئی بیساکھیوں پر راہ ادب طئے کرتے ہیں۔وہ اپنا راستہ خود بناتے ہیں اور اپنے اظہار و بیان کے طریقے خود ہی ایجاد کرتے ہیں۔
دبستان اردو فاروق ارگلی اپنے مضمون میں رقمطراز ہیں کہ، ھندوستان کی مسلم اقلیت آزادی کے بعد سے اب تک جانے کتنے المیوں کا شکار ہوئے ہے۔تازہ ترین سب سے بڑا گھاؤ بابری مسجد کی شہادت ہے۔اس سانحہء عظیم پر “گنبد کے کبوتر”جیسا علامتی فلسفیانہ افسانہ لکھ کر شوکت حیات نے اردو افسانہ نگاروں کی اب تک کی سب سے اگلی صف میں وہ مقام حاصل کر لیا ہے جو ہمعصروں میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔
بقول ڈاکٹر منصور خوشتر ،لارنس
Paid Here’s Lawrence 1885-1830
نے لکھا ہے کہ فکشن جب تک فلسفہ نہ بن جائے بڑا فکشن کہلائے جانے کا مستحق نہیں ہوتا۔اس بات کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ ہر واقعہ کوئ عمدہ اور بہترین کہانی نہیں ہوتا۔البتہ فکشن نگار کا تخلیقی ذہن اور vision کسی معمولی واقعے کو بھی غیر معمولی بنا دیتا ہے۔ شوکت حیات اس معاملے میں بھی اپنے عہد کیا ما بعد عہد کے تخلیق کاروں سے دو قدم آگے ہی ہیں۔وہ آگے کی سوچتے ہیں اور پیش آمدہ واقعات کی روشنی میں ما بعد اپنے فکری تنوع کے سبب ایسا خیال پیش کرتے ہیں جو واقعی آنے والے وقت کے لئے شہادت بن جاتا ہے۔ان کی تخلیق کی گہرائی اور تہہ داری کو سمجھنے کے لئے حالات سے واقف ہونا ضروری ہے ۔جب تک قاری اپنے معاشی،سیاسی اور سماجی سروکار سے واقف نہیں ہوگا اسے شوکت حیات سمجھ میں نہیں آئیں گے۔
ڈاکٹر وسیم اختر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ شوکت حیات ایسے فن کار تھے جنھوں نے ہمیشہ اپنے نظریے کی اور اپنی فکری اور تحریکی حیثیت کی وضاحت کی۔ان کا یہ رویہ دراصل ان کی فن کاری کی صداقت بھی ہے،ساتھ ہی فن اور فن کاروں کی شایان شان بھی۔
اس شمارے میں مشتاق احمد نوری،
عبدالصمد،ڈاکٹر ابرار رحمانی،غضنفر،ڈاکٹر منظر اعجاز،اقبال حسن آزاد ،نشاط پروین بہت ہی عمدہ خاکہ لکھا ہے۔
مشتاق احمد نوری کا خاکہ افسانے کا سکندر: شوکت حیات پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔وہ لکھتے ہیں شوکت حیات اردو فکشن کا مرد تھا لیکن اندر سے بہت ٹوٹا ہوا تھا ایک ہی غم تھا کہ اس کی وہ پزیرائی نہیں ہو سکی جو اس کا مقدر تھی۔جب میں نے مجموعے کی اشاعت پر زور دے کر کہا کہ جب تک تمہارا مجموعہ نہیں آئے گا تب تک تمہارے فکشن کا مجموعی مطالعہ کیسے ہوگا تو بہت معصومیت سے بولا۔
“بھیو!! ایک بات بتا دیں،مجھ سے اپنے افسانے کا انتخاب ہی نہیں ہوتا.”
یہ سن کر اس کی معصومیت پر ترس آیا اور میں نے کہا کہ کسی سنڈے میں تمہارے گھر آتا ہوں اور میں خود انتخاب کر دوں گا ۔یہ سن کر بہت خوش ہوا میرا ہاتھ دبایا لیکن وہ دن کبھی نہیں آیا کیوں کہ اسے نہ خود پر اعتماد تھا نہ دوسروں پر بھروسہ ۔
تجزیے کالم میں “ذائقہ میں نئے ذائقے کی دریافت”(مشتاق احمد نوری)، شوکت حیات کا افسانہ “بانگ”,( غضنفر), شوکت حیات کے افسانہ میت کا تجزیہ(پروفیسر اسلم جمشید پوری) ،افسانہ “کوبڑ” اخلاقی و تہذیبی اقدار کی زوال پذیری کا اشاریہ (ڈاکٹر توصیف احمد ڈار) نے شوکت حیات کے افسانوں کا بہت ہی عمدہ تجزیہ کیا ہے۔
اس شمارے میں شامل “دیکھ لی دنیا ہم نے مبصر اقبال حسن آزاد و ثالث پر تبصرے بقلم عشرت ظہیر،سلیم انصاری،عظیم اللہ ہاشمی،اصغر شمیم،ڈاکٹر منصور خوشتر،ریحان کوثر،روندر جو گلیکر بھی خوب ہے۔
مجموعی طور پر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ شمارہ “شوکت حیات نمبر” خاص کر ریسرچ اسکالروں کے لئے ایک اہم ادبی دستاویز ہے۔
اس شمارے کی قیمت 500 روپئے ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *