مزدور، مشین اور منریگا

پھول دیو پٹیل
مظفر پور، بہار
منریگا کوملک کے دیہی علاقوں کے غریب مزدوروں کو ان کے گاؤں میں ہی روزگار فراہم کرنے کے لیے ایک منفرد پہل کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ درحقیقت اسے روزگار پیدا کرنے کے حوالے سے ایک طاقتورا سکیم کہا جا سکتا ہے۔ نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی اسکیم(نریگا)، جسے بعد میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کے نام پر مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی اسکیم (منریگا) کا نام دیا گیا، پہلی بار 2 فروری 2006 کو آندھرا پردیش میں شروع کیا گیاتھا۔ اسکیم کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے جلد ہی اسے ملک کی ہر ریاست میں لاگو کر دیا گیا۔ اس اسکیم کے تحت ہندوستان کے ہر مزدور (خواتین اور مرد) کو سال میں 100 دن کے روزگار کی ضمانت دی جاتی ہے۔ اس اسکیم کو شروع کرنے کا سہرا یوپی اے، ون میں اس وقت کے دیہی ترقی کے مرکزی وزیراور بہار کے ویشالی سے ممبر پارلیامنٹ مرحوم ڈاکٹررگھونش پرساد سنگھ کو جاتا ہے۔ اس اسکیم کا نفاذ اس طرح کیا گیا کہ ہر ذات اور طبقے کے غریبوں کو اجرت ملنی شروع ہوگئی۔ مزدوروں کو جاب کارڈ یعنی لیبر کارڈ ملنے لگا۔ لیکن بدقسمتی سے دیگر اسکیموں کی طرح یہ بھی کسی نہ کسی شکل میں بد عنوانی کا شکار ہونے لگی۔ مزدوروں کے نام پر بڑے اور رسوکھدار گھرانوں کے لوگوں نے اپنے گھرکے بوڑھوں، جوانوں، بچوں حتیٰ کہ خواتین کے نام پر جاب کارڈ بنالیا اور مزدوروں کے نام پر ملنے والی اجرت کو ہڑپ کرنا شروع کردیا۔ جنہوں نے کبھی اپنے کھیتوں میں کام نہیں کیا، کبھی کدال نہیں چلائی، ایسے لوگوں نے غریب مزدوروں کے حق کا پیسہ لینا شروع کردیا۔ اس کے نتیجے میں روزگار کے لیے غریب اور نادار خاندان اس سکیم کے مناسب فوائد حاصل کرنے سے محروم ہو گئے۔
اگرچہ شروع میں اس اسکیم سے مزدوروں کو کافی فائدہ ہوا۔ پھر آہستہ آہستہ اس اسکیم کے نام پر کاغذی کام ہونے لگا۔ اس کے نتیجے میں جو عورتیں اور مرد مزدور گاؤں میں کدال اور ٹوکری سے کام کرکے دو وقت کی روٹی کمایا کرتے تھے، آج وہ روزگار کے لیے دوسری ریاستوں میں بھٹک رہے ہیں۔ دوسری طرف مزدوروں کاحق مارتے ہوئے ٹھیکیدار رات کو جے سی بی مشینوں سے کام کرواتے ہیں اور دن میں صرف مزدوروں سے مٹی لیبل کرواتے ہیں۔اس وقت یہ ا سکیم روزگار سے زیادہ لوٹ مار والی اسکیم بن گئی ہے۔ جو کام مزدوروں کو دستی طور پر کرنا پڑتا ہے وہ سرکاری افسران کی ملی بھگت سے پنچایت کے نمائندے اور ٹھیکیدار مزدوروں کے پیسے ہتھیانے کے لیے مشینوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ اب زیادہ تر کام چاہے سڑکوں، پلوں، نالوں، نہروں کی کھدائی کا ہو، مزدوروں کی بجائے جے سی بی مشینوں سے ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب منریگا کو لے کر کئی طرح کے سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ جبکہ اس کے تحت شجرکاری، مٹی بھرنے، اینٹوں کی سولنگ، کھدائی، مویشی پالنے والوں کے لیے کیٹل شیڈ، بکری پالنے والوں کے لیے گوٹ شیڈ، درختوں کی دیکھ بھال، فش فارمنگ، آبپاشی، سیلاب زدہ سڑکیں وغیرہ کے لیے مزدوروں کو ملازمت دینے کا انتظام ہے۔ اس اسکیم میں مزدوروں کو ان کی رہائش گاہ سے صرف پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر کام دینے کا انتظام ہے۔
اس سلسلے میں بہار کے مظفر پور ضلع میں واقع صاحب گنج بلاک کے پرنیچاگاؤں کے باشندہ پنکج سنگھ کا کہنا ہے کہ ہماری پنچایت میں ٹھیکیدار نے مزدوروں کے بجائے جے سی بی مشین سے تالاب کھودا۔ لیکن اس کے خلاف کسی نے آواز نہیں اٹھائی کیونکہ اس بدعنوانی میں پنچایت کے نمائندے بھی اس کے ساتھ تھے۔ محبوب پورگاؤں کے سابق کونسلر مدن پرساد کہتے ہیں کہ آج یہ اسکیم مزدوروں کے مفاد کے برعکس دبنگ شخصیات یا ٹھیکیداروں کو امیر بنانے کا ایک ہتھیار بن گئی ہے۔ ان کے مطابق اس میں شفافیت کے لیے صرف حکومت ہی نہیں بلکہ عام آدمی تک کی جوابدہی ہے۔ ضلع کی مزدور تنظیم ‘منریگا واچ’ کا ماننا ہے کہ حکومت کا نظام ہی بدعنوانی کا شکار ہو گیا ہے۔ مقامی نمائندے کی طرف سے فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کام صرف جے سی بی کے ذریعے ہی کیا جائے۔ کمیشن افسران اور نمائندے طے کرتے ہیں اور مزدور کا حق مل کر مار لیا جاتا ہے۔ ضلع کے سریہ، پارو اور صاحب گنج بلاک کے کئی نو منتخب مکھیا نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت کی بے حسی کی وجہ سے مزدوروں کو منریگا سے ان کے جائز حقوق نہیں مل رہے ہیں۔ پہلے مزدوروں کو ایک ماہ کی اجرت دی جاتی تھی۔ مگر اب ہفتے کی اجرت صرف 210 روپے یومیہ کے حساب سے دی جاتی ہے۔ جبکہ وہی مزدور دوسری جگہوں پر کام کر کے 400 یومیہ کے حساب سے پوری خوراک کے ساتھ مزدوری کماتا ہے تو پھر وہ اس میں کام کیوں کرے گا؟پارو بلاک کے سابق کونسلر دیویش چندر پرجاپتی کا کہنا ہے کہ اس اسکیم میں زبردست لوٹ مار ہے۔ اگر مزدور منریگا کے تحت کام کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کام نہیں ملتا ہے۔اگر مل جائے تو بھی اتنی کم اجرت ملتی ہے کہ وہ کہیں اور کام کر کے زیادہ کمانے کو ترجیح دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت یہ سکیم دم توڑ رہی ہے۔ جب تک اس کے تحت اجرت میں اضافہ نہیں ہوگا، غریب مزدوروں کو اس کا مناسب فائدہ نہیں ملے گا۔
 دوسری جانب کچھ لوگوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مزدوروں کے نام پر جاب کارڈ جاری ہونے کے بعد بینک میں اکاؤنٹ کھولے جاتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی مزدوروں کے اکاؤنٹ میں رقم آتی ہے،ٹھیکیدار رقم نکلوانے کے واؤچر پران مزدوروں کا دستخط یا انگوٹھے کا نشان حاصل کر کے ان کے اکاؤنٹ سے رقم نکال لیتے ہیں۔ کیا اس میں بینک افسر یا ملازم قصوروار نہیں؟ اس کے خلاف آواز اٹھانے والے سماجی کارکنان اور عام لوگوں کو ڈرا دھمکا کر چپ رہنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں پارو کے جے ای ای جگت رائے قبول کرتے ہیں کہ کچھ جگہوں پر دیہی مزدوروں کے بجائے مشینوں کے ذریعے منریگا کے کام کرنے کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ اب تک 5-7 اسکیموں میں پتہ چلا کہ مزدوروں سے کام کروانے کے بجائے جے سی بی مشین کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ جہاں اعلیٰ حکام کے حکم کے مطابق ادائیگیوں پر روک لگا دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سکیم کے تحت پہلے صرف 198 روپے یومیہ اجرت ملتی تھی جسے اب بڑھا کر 210 روپے یومیہ کر دیا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں ویشالی ضلع کے پاتے پور بلاک میں راگھو پور نرسنڈا پنچایت کے مہادلت ٹولہ وارڈ نمبر 06 میں حال کا ایک معاملہ ہے، جہاں منریگا کے تحت شمشان گھاٹ کی صفائی اور مٹی بھرنے کا کام مزدوروں کے بجائے جے سی بی سے کیا گیا تھا۔ جبکہ اس ٹولہ میں مہادلت کے تقریباً 200-250 مکانات ہیں۔ اگر مزدوروں کو کام پر لگایا جائے تو یقیناً مہادلت ٹولہ کے بہت سے لوگوں کو روزگار ملتا۔ اس بارے میں پی آر ایس لکشمن کمار کا کہنا تھا کہ مہادلت ٹولہ وارڈ میں کسی نے نہر کی مٹی کاٹ کر شمشان گھیر لیا تھا۔ لوگوں کی شکایت کے بعد جے سی بی مشین سے مٹی نکال کر شمشان کی صفائی کی گئی۔
تاہم، منریگا کی اصل صورتحال اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ یہ بدعنوانی کا شکار ہو چکی ہے۔ جہاں مزدوروں اور غریبوں کے جائز حقوق مارے جا رہے ہیں۔مزدور کی جگح اب مشینیں زیادہ تر کام کی جگہ پر استعمال ہو رہی ہیں۔ کاغذی کام کے لیے مزدوروں کو بلا کر اور کچھ کام کروا کر پیسے کا ضیاع کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اس بدعنوانی کے خلاف کئی تنظیمیں سرگرم ہیں، جو وقتاً فوقتاً اس کا انکشاف کرتی رہتی ہیں۔ محکمہ اور حکومت کی بے حسی کی وجہ سے غریب مزدور پنجاب، دہلی، کلکتہ، ہریانہ، ممبئی وغیرہ جیسے میٹروپولیٹن شہروں میں پھر سے کام کی تلاش ہجرت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *