Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

قیادت کا بحران

by | Mar 6, 2023

ممتاز میر

جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو زوال اپنے عروج پر پہونچ کر ہمہ گیر ہو جاتا ہے۔ایس کبھی نہیں ہوا کہ بٹن دباتے ہی زوال واقع ہو گیا ہو۔سب سے پہلے قوموں کی اخلاقیات بگڑتی ہے۔پھر تہذیب وتمدن جاتا ہے۔زبان جاتی ہے۔زوال یافتہ قوم اپنی زبان سے نفرت کرتی ہے اور غالب قوم کی زبان سے محبت۔اسے اپنی پوشاک اور خوراک بھی بری معلوم ہوتی ہے۔وہ اپنے ہیروز سے بھی ہاتھ دھو لیتی ہے اور غیروں کے بنائے لوگوں کو اپنا قائدمان لیتی ہے۔یہاں تک کہ وطن عزیز میں مسلمان عوام کیا خواص نے بھی نماز کے ساتھ ساتھ پوجا پاٹ کو بھی گوارہ کرنا شروع کردیا ہے۔جب اتنا سب کچھ ہو جائے تو فراست مومنانہ کہاں مسلمانوں کے قریب پھٹک سکتی ہے۔
یہ ہماری بد قسمتی رہی کہ تقسیم وطن کے بعد ہمیں حقیقی قائد ملے ہی نہیں۔گذشتہ ۵۷ سالوں میں ہمیں جو بھی قائد ملے وہ بس کام چلاؤقائد تھے۔اور وقتا فوقتا جو بھی اچھے قائد ین ابھرے انھیں سازشا قوم سے دور کردیا گیا یا قوم کے سامنے انھیں رسوا کیا گیا۔آج خود برادران وطن کے درمیان سے ایسے لوگ اٹھ رہے ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ کانگریس ہی آر ایس ایس کی ماں ہے۔مگر ہمارے امام الہند اور شیخ الاسلام کی سطح کے لوگ اس وقت جب کانگریس ان کی آنکھوں کے سامنے آر ایس ایس کو جنم دے رہی تھی،یہ سب دیکھنے سے قاصر تھے۔امام الہند ہو یا شیخ الاسلام،یہ کوئی الہامی خطابات یا القابات نہیں ہیں۔یہ تو عوامی مخاطبت ہے۔اور بڑی مشہور بات ہے،جیسا راجہ ویسی پرجا۔۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم من حیث القوم دعوت کا کام کرتے مگر پھر ہمارے نام ونہاد لیڈروں کو وزارت یا پارلیمنٹ کی ممبری کیسے ملتی۔انھوں نے اپنے سیاسی عہدوں کی خاطر پوری قوم کو داؤں پر لگا دیا۔شاید ہی کوئی باپ ہو جسے اپنی اولاد کے مستقبل کا خیال نہ رہتا ہو اور وہ اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر اپنا آج قربان نا کرتا ہو۔مگر ہمارے لیڈروں نے قوم کے مستقبل کے ساتھ ساتھ خود اپنے بچوں کے مستقبل کو بھی بیچ کھایا۔اب حالت یہ ہے کہ پورے ملک میں مسلمانوں کا سیاسی مستقبل تاریک ہو چکا ہے۔اور جب قوم ہی مرچکی ہو تو لیڈروں کی اولادوں کا کیاہونا تھا؟وہ بھی بلا معاوضہ فروخت ہو رہی ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اتنے تلخ تجربات کے باوجود بھی یہ اولادیں اپنے آباء کے راستے پر ہی گامزن ہیں اور کسی قیمت مسلمانوں کی حقیقی لیڈر شپ کو ابھرنے نہیں دینا چاہتی۔وہی کھیل جو ان کے آباء نے کانگریس کے لئے کھیلا تھا اب یہ نئے حکمرانوں کے لئے کھیل رہے ہیں۔یہ بیان تو ان کے تعلق سے ہے جو آزادی کے بعد ہی سے کانگریس کے دم چھلے بنے سیاسی فوائد ہی نہیں سمیٹ رہے تھے بلکہ کانگریس کی چھتر چھایا میں انھوں نے اداروں پر قبضے کا بھی کھیل کھیلا۔مگر اب تو جماعت اسلامی جیسی دودھ کی دھلی جماعت بھی انہی کی لائن میں لگ گئی ہے۔
حیرت ہے جماعت نے اپنے بانی کی ہدایات کو طاق پر رکھ کر قریب ڈیڑھ دہائی پہلے ایک سیاسی جماعت قائم کی مگر اویسی دشمنی میں ان کے لوگ خود اپنی پارٹی کو بھلا کر کانگریس کے لئے ووٹ مانگتے نظر آتے ہیں۔
برسوں پہلے ہم نے بی بی سی کے ایک صحافی کا اسدالدین اویسی پر ایک مضمون پڑھا تھاجس میں انھوں نے لکھا تھا کہ اسد الدین اویسی بولتے بہت اچھا ہیں۔ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ کسی بھی موضوع پر اویسی کی طرح بولنے والا ٹی وی کے صحافیوں سے اپنے موقف کے لئے لڑنے والایا اپنا موقف میڈیا کے سامنے رکھنے والا کہیں اور تو کیا اب جماعت اسلامی میں بھی نہیں ہے۔اسد الدین اویسی پر جماعت والوں کا بھی اور دوسرے گدھوں کا بھی سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ وہ ووٹ کٹوا ہے مگر گزشتہ کئی الکشن یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ایم آئی ایم سے زیادہ ووٹ کٹوا تو کئی دوسری علاقائی پارٹیاں اور خود کانگریس ہے جس کے عشق میں جماعت والے دیوانے ہورہے ہیں۔بی بی سی کے مذکورہ صحافی نے یہ بھی لکھا ہے کہ انھوں نے مذہب کے علی الرغم حیدرآباد کے عوام کے درمیان ان کی مقبولیت کو محسوس کیا ہے۔ان کی پارٹی اسپتال چلاتی ہے تعلیمی ادارے چلاتی ہے اور سماجی خدمات کے کاموں میں سرگرم رہتی ہے جیسے کے مہاراشٹر میں شیو سینا۔مگر یہ بھی درست ہے کہ انگلینڈ سے وکالت کی ڈگری لینے والے بیرسٹر اسد الدین اویسی عوامی اعتبار سے ایک شعلہ بیان مقرر ہیں مگر فرقہ پرست نہیں۔اگر ان کی ایک بھی تقریر فرقہ وارانہ منافرت والی ہوتی تو اب تک انھیں جیل بھیج دیا جاتا۔تو پھر مسلمانوں کا مسئلہ کیاہے؟ایک زمانہ تھا جب کہیں بھی دھماکہ ہوتا تھا توسب سے پہلے اور سب سے زیادہsophisticated مسلمان لرزتا تھا اور خود ہی مسلمانوں کو گالیاں دینے لگتا تھا۔بھلا ہو کرکرے کاکہ اس نےsophisticated مسلمانوں کو اس ذہنی کیفیت سے باہر نکالا۔اب وہی بم دھماکوں والی کیفیت اسد الدین اویسی کی تقاریر اور ٹی وی انٹرویوزسے سیاسی مسلمانوں کی ہو رہی ہے،وہ نہیں چاہتے کہ اویسی یا اس کی پارٹی کو مسلمانوں کے درمیان عروج حاصل ہو۔اگر ایسا ہو گیا تو ان کے مفادات زبردست ضرب پہونچے گی۔گزشتہ۵۷سالوں سے ہماری اس نام ونہاد قیادت نے اصلی قیادت کو کبھی ابھرنے نہ دیا۔اگر کبھی ابھری بھی جیسے ۰۶کی دہائی میں مسلم مجلس مشاورت تو سبوتاژ کرنے کی نیت سے اس کے اندر گھس گئے اور بالآخر اس کی تدفین کرکے ہی دم لیا۔کچھ عرصے پہلے مسلم مجلس مشاورت پھر زندہ کی گئی تھی مگر پھر وہی کہ ’مری تعمیر میں مضمرہے اک صورت خرابی کی‘ اس کا پھر وہی حال ہونے جا رہا ہے۔اور محبان دین وملت ٹک ٹک دیدم دم نا کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔اور یہ سب اس وجہ سے ہے کہ ہماری دینی قیادت کو منافقین کو پہچاننا نہ آیا۔اور جو پہچان بھی لیتے ہیں تو وہ منافقین کے ساتھ خلفائے راشدین کا سا سلوک کرتے ڈرتے ہیں۔
آزادی کو ۵۷ سال گزر گئے اس دوران درجنوں الکشن ہوئے۔درجنوں گٹھ بندھن یا سیاسی محاذ بنے۔زیادہ تر گٹھ بندھن یا محاذ بزعم خود سیکولر سیاسی پارٹیوں نے ہی بنائے۔مگر کوئی گٹھ بندھن ایسا نہ بنا جس میں نام کے لئے ہی سہی کسی مسلم سیاسی پارٹی کو شامل کیا گیا ہو۔ہمارے دو کوڑی کے سیاسی لیڈران کو علما کو کبھی اس کا خیال نہ آیا۔
۔مگر عوام کو تو سوچنا چاہئے تھا کہ ایسا کیوں ہے؟ایسا اسلئے ہے کہ یہ سیکولر سیاسی پاٹیاں ہمارے کاندھوں پر چڑھ کر تو اوپر جانا چاہتی ہیں مگر انھیں یہ ہرگز برداشت نہین کہ کوئی مسلم سیاسی پارٹی ان کے اتحاد سے ترقی کرلے۔ایسا جب بھی موقع آتا ہے تو یہ اپنے مسلم چمچوں کو ہلاتے ہیں اور ان سے بھی کام نہ بنا تو یہ سیکولرزم کے کپڑے اتار کر ننگے ہوجاتے ہیں۔راہل گاندھی کو ہی لے لیجئے۔وہ مہینوں بھارت کو جوڑنے کے لئے پیدل چلے مگر مسلمانوں کے لئے بیٹھے بیٹھے بھی منہ ہلانے کے لئے تیار نہیں۔ان کی گزشتہ دو تین نسلیں مسلمانوں کی مقروض ہیں مگر جب بھی مسلمانوں سے اتحاد کا وقت آئے گا یہ بھی کپڑے اتار کر ننگے ہوجائیں گے۔آج اگر کانگریس نیشنل پارٹی ہے تو مسلمانوں کی وجہ سے مگر اس کے لیڈروں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی ڈوبتی نیا کو بچانے کے لئے بھی مسلمانوں کے جائز مطالبات پر بھی منہ کھولنے کے لئے تیار نہیں،مبادا ہندو ووٹر ناراض ہوجائے۔وہ ہندو ووٹر جس نے کبھی کانگریس کا ساتھ ہی نہیں دیا۔
بڑی مشہور مثال ہے کہ اگر چند مینڈکوں /کیکڑوں کو ایک ٹوکری میں رکھ دیا جائے تو کتنی ہی دیر گزر جائے کوئی مینڈک یا کیکڑہ ٹوکری سے باہر نہین آئے گا۔وجہ نا کارکردگی نہیں بلکہ جتنی کارکردگی ایک ٹوکری سے باہر آنے کے لئے دکھائے گادوسرے اس سے زیادہ کارکردگی اسے اندر ہی رکھنے کے لئے یا اس کی ٹانگ کھینچنے کے لئے دکھائیں گے۔بالکل یہی حال ہماری لیڈرشپ کا بھی ہے۔نہ وہ خود کچھ کرتے ہیں اور دوسروں کو تو بالکل ہی نہیں کرنے دیتے۔کیونکہ دوسرے نے کچھ کردیا تو ان کی عوامی ذمے داری کا مقبولیت کاکیا ہوگا؟
ہمارے نزدیک ہٹلر برا آدمی نہیں تھا۔جس یہودی میڈیا نے ہمیں ساری دنیا میں بدنام کر رکھا ہے اسی یہودی میڈیا نے ہٹلر کو بھی شیطان کا روپ دے رکھا ہے۔ہم یہودیوں کے کبھی دشمن نہیں رہے۔دنیا کی ساری قوموں میں وہ ہم تھے جنھوں نے یہودیوں کو دشمنوں کی طرح نہیں دوستوں کی طرح اپنی زمینوں میں جگہ دی مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے احسانوں کا بدلہ وہ کس طرح چکا رہے ہیں۔ہٹلر تو ان کا دشمن تھا اور بالکل بجا دشمن تھا پھر وہ اس کو کیسے چھوڑ دیتے۔ہٹلر کوئی فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر نہیں بیٹھا تھا اسے اس کے عوام چن کر لائے تھے۔اور بدلے میں اس نے اپنی قوم کو سپر پاور بنا دیا تھا۔پھر اس سے غلطی کیا ہوئی؟اس سے غلطی یہ ہوئی یا ایسے حالات پیدا کردئے گئے کہ اسے ایک ساتھ کئی ممالک پر حملہ کرنا پڑا۔اگر وہ مسلمانوں کی طرح ایک ملک پر حملہ کرتا پھر ایسی انتظامیہ دیتا جیسی مسلمانوں نے دی تھی ایسی کہ لوگ ان کا اپنے ملک سے جانا پسند نا کرتے۔ پھر دوسرے پھر تیسرے ملک پر حملہ کرتا تو شاید جرمنوں کی مملکت میں بھی سورج غروب نا ہوتا۔عوام کسی کو ایسے لیڈر بناتی ہے۔کاش کے مسلمان بھی اپنے میں سے کسی کو ایسا لیڈر بنائیں۔چمچوں کے کہنے پر کسی پارٹی کو ووٹ نہ دیں۔اچھی طرح سمجھ لیں کہ کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔جو قوم کے لئے دنیا کے سامنے سینہ سپر ہو لیڈر وہی ہوتا ہے۔جو اپنے مال و جائداد سے کوڑی بھی کھونے کے لئے تیار ہوں وہ لیڈر کیسے ہو سکتے ہیں۔

Recent Posts

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...

ہندوستانی معیشت کا موجودہ منظر نامہ: ایک تفصیلی جائزہ

ہندوستانی معیشت کا موجودہ منظر نامہ: ایک تفصیلی جائزہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک) ہندوستان کی معیشت، جو کہ ایک ترقی پذیر مخلوط معیشت ہے، عالمی سطح پر اپنی تیزی سے ترقی کی صلاحیت اور متنوع معاشی ڈھانچے کی وجہ سے نمایاں ہے۔دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ یہ دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت ہے اگر ہم برائے نام جی ڈی پی (Nominal GDP) کی...

ہندوستان کی چمڑا صنعت کے موجودہ حالات، چیلنجز، مواقع، تکنیکی ترقی اور مستقبل کے امکانات

ہندوستان کی چمڑا صنعت کے موجودہ حالات، چیلنجز، مواقع، تکنیکی ترقی اور مستقبل کے امکانات

کولکاتہ(معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستان کی چمڑا(لیدر) صنعت ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اس کا مستقبل بہت زیادہ امکانات سے بھرپور نظر آتا ہے۔ یہ صنعت نہ صرف روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہے بلکہ برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ کمانے میں بھی اہم شراکت دار ہے۔ اس مضمون...