Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

انسانیت نوازاورانصاف پسند سیکولر”ہندوستان“ پرآتنکوادپرستوں کے ناپاک عزائم گاندھی جی کے: ہرآنکھ سے آنسوپونچھنے والا ہندوستان۔ نہروجی : کے ہرمذہب کا احترام کرنے والا ہندوستان کوبچانے کیلئے بیدارہونے کی ضرورت………..

by | Mar 10, 2023

محمد انجم راہی۔ کانکی ، اسلام پور،بنگال

دورِحاضر میں منفردمخصوص سماجی ومذہبی رواج کی ارتقاءوترویج کیلئے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی وبغض وعداوت میں اس قدر متحرک ہوتے جارہے ہیں کہ اپنے ہی مذہب ورواج کو برتر اور اس کی ارتقاءوترویج کیلئے ہرممکن حد تک جانے کیلئے بے چین ہوتے جارہے ہیں۔ آپسی بھائی چارگی سے عاری یہ طبقہ قومی وبین الاقوامی معاملات سے بالکل ہی جاہل ہوچکے ہیں۔اس طرح کے مخصوص طبقے کو نہ تو تاریخی حقائق وواقعات سے کچھ سبق لینے میں دلچسپی ہے اور نہ ہی دیگر مذاہب کے لوگوں کا احترام کرنے میں ان کے دلوں میں کوئی جگہ باقی ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے امن وبھائی چارے اور کثرت میں وحدت کے عظیم مثالی والا ملک میں ایک مخصوص طبقہ غنڈہ گردی کی ذہنیت کے ساتھ سادھو سنتوں کی چادراُوڑھ کر ملکی قانون و دستورکوروندتے ہوئے اسی طرح کے منفرداور اپنے مخصوص رواج کو فروغ دینے میں لگ چکے ہے۔ جس طرح گزشتہ 30یا40سالوں پر محیط عالمی پیمانے پر مخصوص سسٹم کے ذریعہ اپنی برتری کے نام پر برطانیہ، امریکہ روس جیسے ممالک نے اپنے اور اپنے پرچم کی بالادستی اور برتری کو ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کیلئے انسانیت پرخصوصی طورپرعالم اسلام کے بیشترممالک پر بھیانک طریقے سے مظالم ڈھائے ۔ گزشتہ 30سالوں میں ان بدترین ممالک کے ذریعہ 13عظیم جنگیں ایسی ہوئی ہیں جن میں 40ٹریلین ڈالرس خرچ گئے ۔جس کے وجہ سے کئی کئی ہزار انسانوں کوان جنگوں کے ذریعہ قتل کیا گیا۔جن میں معصوم بچے ،بوڑھے اور عورتیں بھی شامل تھیں۔ان سارے حقائق کو قلم بند کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ کیا اپنے وقت کے عظیم ممالک نے اپنے اپنے سسٹم کے ذریعہ فتحیاب ہوئے؟مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کیلئے ان بدترین ظالم وجابرعدل وانصاف اور انسانیت سے عاری ممالک کے ذریعہ ہر ان حربوں اور ٹکنالوجی کا استعمال مسلمانوں کوسخت اذیت اور بربریت کا نشانہ کیلئے کیاگیا جو وہ کرسکتے تھے۔ اس کیلئے ان ممالک نے ایک سسٹم کے تحت عالمی سطح پر میڈیا،ٹکنالوجی ، جاسوسی وجنگی افواج وہتھیار تک کا استعمال کیا، مگر ان سب کے باوجود کیا وہ عالمی سطح پر مذہب اسلام کے ماننے والوں پرفتحیابی پرکامیاب ہوئے؟ اگر تجزیہ کیا جائے توان تمام بڑے ممالک کا اپنی اپنی طاقت کو منوانے کا میدان مسلم اکثریتی ممالک ہی تھے۔جہاں پر لڑائی تو بڑے ممالک کے درمیان لڑی جاتی رہی ہے مگر حدف صرف اور صرف مسلمان ہی ہوتے آرہے ہیں 20-ویں صدی میں دنیا کے نقشہ پر کئی قومیںیاطاقتیں ابھریں‘جنہوں نے عالم انسانیت کی قیادت کا رول ادا کرنے کی بھرپورکوشش کی۔ان میں تین خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ سوویت یونین‘برطانیہ‘امریکہ۔مگر یہ تمام طاقتیں یا تو عملاً ناکام ہوچکی ہیں یا وہ ناکامی کے کنارے کھڑی ہوئی ہیں۔1917 میں روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا‘ اسکے بعد سوویت یونین کی شکل میں ایک عظیم امپائر بن گیا۔ تقریباً75سال تک شان وشوکت دکھانے کے بعد اسکا یہ حال ہوا کہ1991میں وہ ریت کے محل کی طرح ٹوٹ کرگرگیا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ نظام سرتاسر غیر فطری بنیاد پر قائم کیا گیا تھا۔ اللہ عز وجل نے اس دنیا کا نظام مسابقت (Competition) کے اصول پر قائم کیا ہے۔ مگر کمیونسٹ امپائر نے اسکو ختم کرکے ریاستی کنٹرول کی مصنوعی بنیاد پر زندگی کا نظام قائم کرنے کی کوشش کی۔ یہ نظام اول دن ہی سے قابل عمل نہ تھا۔ کچھ دن تک وہ جبر اور پروپیگنڈوں کے زور پر چلتارہا۔ اسکے بعد وہ خود اپنی داخلی کمزوری کی بنا پر منہدم ہوگیا۔ منافقت اور حکمرانی (Devide and Rule)کی پالیسی کے ذریعہ ‘برطانیہ نے ہندوستان‘ چین‘جرمنی وغیرہ جیسے ممالک میں تمام اونچھی حرکتوںوحربوں کو استعمال کرتے ہوئے نشہ‘ شراب ‘مذہبی اختلافات کے ساتھ مذہبی مداخلت کے ذریعہ عالمی پیمانے پر حکومت کا خواب دیکھنے والے برطانوی لٹیروںاورڈاکوﺅں کی حکمرانی محض چند برسوں میں ہی اس دنیا کے نقشے سے اسطرح سکڑچکی کہ اب خود ٹکڑے ہونے پرمجبور ہوچکاہے۔
ہندوستانی سیکولرزم کا مفہوم یہ ہے کہ ریاستی ومرکزی حکومت کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوگا ۔ ریاستی حکومتیں اور مرکزی حکومت تمام مذاہب کا احترام اور یکساں مواقع فراہم کرنے کا پابند ہوں گی۔ مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتاجائے گا۔ مودجودہ سیکولر وجمہوریت پسند ہندوستان کو تقریباً سوسال کی جدوجہد کے بعد15 اگست 1947کو آزادی ملی۔ سوامی وویکانند نے کہا تھا کہ آزادی کے بعد ہندوستان ورلڈ لیڈربنے گا۔ مگر عملاً کیا ہوا۔ یہ ملک لمبی مدت سے اونچی ذات اور نیچی ذات کے دو طبقوں میں بٹاہوا تھا۔ حالات سے فائدہ اٹھا کر اونچی ذات والوں نے آزادی کو ہائی جیک (Hijack)کرلیا۔ یہی لوگ آزادی کے بعد سے مسلسل ملک کے اوپر حکومت کررہے ہیں۔مگر واقعات بتاتے ہیں کہ وہ ملک کو ایسا نظام دینے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں‘ جو مہاتما گاندھی کے الفاظ میں ”ہر آنکھ کے آنسو پوچھنے والا ہو“۔ ملک کے اونچے طبقے (Uppercast) کے پاس جو آئیڈیالوجی ہے وہ ایک ایسی محدود آئیڈیالوجی ہے‘ جو پوری انسانیت کو اپنے دامن میں نہیں لیتی۔اس آئیڈیالوجی میں اونچی ذات والوں کےلئے توباعزت جگہ ہے مگر نیچی ذات اور غریب عوام کےلئے اسمیں کوئی جگہ نہیں۔ جو لوگ غریب اور مظلوم ہیں وہ فطرت کے جبری نظام کے تحت خود اپنے ماضی کے کردار کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔انہیں زندگی کے آخری لمحہ تک اس نتیجہ کو بہرحال بھگتنا ہے۔ یہ آئیڈیالوجی ملک کے نصف سے زیادہ حصہ کو اونچی ذات کے حکمرانوں کی نظر میں ایک ایسا کیس بنادیتی ہے‘ جس پر رحم کرنا ضروری تو کیا ممکن بھی نہیں۔یہی وہ آئیڈیالوجی ہے جس کے تحت 9دسمبر2019ءکے دن ہندوستان جیسی جمہوری اور انصاف پسند پرامن ملک کو ہندتوا کے علمبرداروں نے ”دستور ہند“ کے بنیادی اصولوں اور قوانین کے خلاف ورزی کرتے ہوئے لوک سبھا میں ایک ایسے بل کو پاس کروانے میں کامیاب ہوگئے جس کی رَو سے ہندوستانی دستور کا بنیادی ڈھانچہ کو ہمیشہ کیلئے تار تار کردیا جائے گا۔ اس کے بعدمذہبی بنیاد پر قتل وغارت گری کی جانب ہندوستانی عوام کو دھکیل دیا جائے گا۔
ڈاکٹرتاراچند کے مطابق: ہندوستان میں”برسوں کی قتل وغارت گری کے بعد ہندو اور مسلمان ایک پڑوسی کی طرح رہنے سہنے لگے تو بہت دنوں تک ساتھ ساتھ رہنے کی وجہ سے اُنہوں نے ایک دوسرے کے خیالات عادات واطوار ، رسم ورواج کو سمجھنے کی کوشش کی اور بہت جلد ان دونوں قوموں (ہندو ۔ مسلم) میں اتحاد پیدا ہوگیا“۔ ہندوستان میں ہندو ۔ مسلم میں اتحاد پیدا کرنے اور ان کے درمیان کی خلیج کوکم کرنے میں دوچیزوں نے بڑی مدد دی۔ پہلی تو یہ کہ ہندؤں کی ایک بہت بڑی آبادی ، اسلام کے اس بنیادی اصول سے متاثر ہوگئے کہ : تمام بنی نوع انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور خالق مطلق کی نظرمیں سب برابر اور مساوی ہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ہندوستانی سماج، ذات پات کی بنیاد پر چارطبقوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔ جس میں برہمن۔ چھتری۔ ویش۔ اور شودر۔شامل تھے۔ ان میں سے شودروں کو ہر قسم کے سماجی حقوق سے محروم رکھا گیا تھا ۔ ان کی زندگی خود انہیں پر بوجھ بن چکی تھی۔ اور صدیوں کی عائد شدہ پابندیوں سے وہ اتنے عاجز ہوچکے تھے کہ وہ ان بندشوں سے خلاصی حاصل کرنے لئے بیتاب وبے چین تھے۔ اسی دور میں جنوبی ہندوستان میں اس طرح کے بے جا اور من گھڑت رسومات اور مغلظات کے خلاف ذہنی انقلاب کا دور بھی شروع ہوچکا تھا۔ خوش قسمتی سے جب ہندوستان میں ذہنی انقلابات رونماہورہے تھے ، اسی زمانے میں شمالی ہند میں مسلم فاتحین کے ساتھ اسلام بھی اس سرزمین میں اپنی انصاف اور انسانیت پسندی کاپرچم لیکرظہورہوا۔ ہندوستانی باشندوں نے جب اسلام کے مساوات کے اصول کو عملی شکل میں دیکھا ۔ اور” محمود اور ایاز“ دونوں کو ایک ہی صف میں شانہ بشانہ کھڑا پایا تو وہ بے حد متاثر ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کی آمد کو باعث خیر وبرکت سمجھ کر انہیں والہانہ خوش آمدید کہا۔ مسلم فاتحین کی انصاف اور انسانیت پسندی کا اثر یہ ہوا کہ بلاکسی ظلم وتشدد، جبر اور زیادتی کے ہندؤں کے گاؤں کے گاؤں مشرف بہ اسلام ہوتے چلے گئے۔ اسلام میں صرف ایک اللہ کی عبادت کا تصور موجودہے۔ ظاہری رسوم بالکل بھی نہیں ہے۔ ہرایک مسلمان کو قرآن وسنت کے بتائے راستے پر عمل کرنا لازمی ہے۔ سارے مسلمان آپس میں اسلام اور انسانیت کی بنیاد پر بھائی بھائی ہیں۔ اسلام کے ان بنیادی اصولوں میں اتنی کشش اور جاذبیت ہے کہ بلاکسی ظلم وجبر وتشدد کے ہزاروں شہریوں نے اسلام کے دامن میں پناہ لی۔ آج پھرملک کے مسلمانوں کواپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جس سے ملک کے مسلمان اسلامی افکاراورکردارکواپنی عملی زندگی میں نافذ کرکے دوبارہ غیروں کے پراگندہ اذہان کو فتح کرنے کے قابل ہوسکے۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...