شازیہ اختر شاہ
چکھڑی منڈی،پونچھ، جموں
وزیرے اعظم نے ہندوستان بھر میں شعبہ پی ایچ کو فعال بنانے کے لئے مختلف قسم کے اقدام اٹھائے تاکہ عوام تک پانی کی بہتر سہولیات فراہم کی جا سکے۔ لیکن اپنے وطن عزیز ہندوستان کے دیہی علاقوں کی بات کی جائے تو زمینی حقائق اس کے بلکل برعکس نظر اتے ہیں۔ چونکے پی ایچ ای کا نظام فعال ہونا اس شعبہ کے تحت کام کرنے والے افراد اور مراکز کو تمام تر لوازمات سے لیس ہونا ازحد ضروری تھا۔ بدقسمتی سے اگر یہ نظام شہروں میں بہتر ہو تو اس کا دیہی عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکے زندگی کے لئے پانی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ہندوستان کی سب سے خوبصورت اور منفرد حثیت رکھنے والا جموں وکشمیر جس کو ہندوستان کا تاج بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر تاج کی محکم پی ایچ ای کے شعبہ میں یہ حالت ہوگی تو جسم کے باقی حصہ کاکیا حال ہوگا؟ جموں و کشمیر کے متعدد اضلاع کے دیہی علاقے آج بھی محکم پی ایچ ای کی جانب سے عدم توجہی کا شکار ہیں۔ ضلع پونچھ جو جموں و کشمیر کا سرحدی اور پسماندہ ضلع کہا جائے تو بے جاں نہ ہو گا۔اس ضلع سے 30 کلو میٹر دور پنچایت چکھڑی بن کا شعبہ محکم پی ایچ ای آج بھی زبو حالی کا شکار ہے۔چکھڑی بن میں پانی ہوتے ہوے خواتین کو دوردور سے پانی سروں پر اٹھاکرلاناپڑتاہے۔ اس پر مزید بات کرتے ہوئے مقامی معمر قریب40 سالہ محمد صفیر نے بتایا کہ پانی نہ ہونے کی کی وجہ سے عوام پریشان حال ہے۔ علاقہ چکھڑی میں واٹر ٹینک ھونے کے باوجود چکھڑی کی عوام پانی کو ترس رہی ہے۔یہاں کی خواتین آج بھی گھر سے 2 کلو میٹر کی دوری سے پانی لاتی ہیں۔ ہمارے یہاں جو واٹر ٹینک ہے اس کی تعمیر کو تقریباً ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے اور ابھی تک اس میں پانی نہیں ڈالا گیا ہے۔اس واٹر ٹینک کو بنانے میں 5 لاکھ روپیہ بھی لگ چکے ہیں۔ اتنا پیسہ لگنے کے باوجود بھی اس میں ابھی تک پانی نہیں ڈالا گیا ہے۔ اگر اس میں اب بھی پانی نہ ڈالا گیا تو یہ بوسیدہ ہو جائے گا اور رفتہ رفتہ ٹوٹ پھوٹ کر ختم بھی ہو جائے گا۔ ہماری پنچایت کا جتنا بھی پیسہ اس کو بنانے میں لگا ہے وہ سب کا سب رائیگاں ہو جائے گا۔ سرکاری خزانوں سر رقم کی اصراف کے بعد بھی نہ پانی،نہ زمین مالک کو فائیدہ، نہ عوام کو پانی میسر ہوا۔ یہ بدحالی جوں کی توں کب تک رہے گی؟
اس معاملے کو لیکر ظریف بیگم جن کی عمر 35سال ہے۔ ان سے بات کی توان کا کہنا ہے کہ ایک طرف عورتوں کو برابری کے حقوق دیے جانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ وہی پر اس پنچایت کو درکنار رکھا گیا ہے۔ یہاں کی خواتین کو آج بھی دور سے پانی لانا پڑتا ہے۔ یہاں برفانی علاقہ ہے سردی کے موسم میں جب یہاں برفباری ہوتی ہے تو یہاں کی خواتین کو بہت پریشانی دیکھنی پڑتی ہے۔ بربرفباری میں 2 کلو میٹر دور سے جاکر گھر کے استعمال کے لئے اور مال مویشی کے لئے پانی لانا پڑتا ہے۔ آخر کب تک دیہی علاقے کی خواتین پریشانی کے بوجھ تلے دبی رہیں گئی اور ایسے میں دیہی علاقے کی خواتین کس طرح انصاف کی توقع رکھ سکتی ہے؟اس معاملے کو لے کر غلام نبی بانڈے جن کی عمر 40 سال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے علاقے میں جو پرانا واٹر ٹینک ہے۔ اس کا پانی نہ صرف چکھڑی کے لوگ ہی استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ دیگرپنچایت کے لوگ بھی استعمال کرتے ہیں۔ٹینک میں پانی کم ہونے کی وجہ سے نہ ہی پانی پلیراوالوں کو آتا ہے اور نہ ہی چکھڑی والوں کو۔دونوں ہی پنچایت کی عوام کو پریشانی دیکھنی پڑھتی ہے جبکہ پنچایت چکھڑی میں واٹر ٹینک کے کام کی شروعات ہونے جا رہی تھی تو گورنمینٹ نے چکھڑی کی مظلوم عوام سے عہد کیا تھا کہ جس کی زمین میں واٹر ٹینک بنایا جائے گا اس افراد کو نوکری ملے گئی۔ آج جبکہ یہ ٹینک پائے تکمیل کوپھنچ گیا تو گورنمنٹ انہیں نظر انداذ کر رہی ہے۔ نہ ہی ان کی زمین میں ایک ٹینک ہے بلکہ ان کی زمین میں دو ٹینکس بنائے گئے ہیں۔ ان کی زمین میں دودو واٹر ٹینک ہونے کے باوجود بھی گورنمنٹ انہیں نظر انداز کر رہی ہے۔
اس معاملے کو لئے کرمقامی سرپنچ تعظیم اختر نے بتایاکہ پنچایت چکھڑی کی عوام کو محکمہ کی جانب سے یقین دہانیاں دلائی گئی۔ اب حالت یہ ہے کہ یہاں پانی چلانے کے لئے ایک دو عارضی لائین مینوں کے علاوہ کوئی مستقل ملازم نہیں ہے۔ تین چار گاؤں پر محیط اس علاقہ میں جب کوئی مستقل محکمہ کا ملازم ہی نہیں تو پھر یہ نظام کس طرح ٹھیک ہوگا؟ اس وقت انصاف تو یہی ہوگاکہ یہاں عوام کی خاطر جلد از جلد اس واٹر ٹینک میں پانی ڈلوایاجایگا۔جس پر پانچ لاکھ کی رقم خرچ کی گئی اور اس ٹنک کے قریب تک پائیپ لائین بھی لگادی گئی ہے۔ پر جن کی زمین میں یہ ٹینک بنایا گیا ہے ان کے ساتھ محکمہ نے زمین کے بدلے نوکری کاجو وعدہ کیاتھا اب تک وفانہ کیاہے کہ ان کو نوکری دی جائے۔مقصود احمد شاہ جن کی عمر 38 سال سے تجاوز کرچکی ہے۔ ان کا کہناتھاکہ میں نے اپنی ملکیتی اراضی زیر خسرہ نمبر 375لکھ کر محکمہ کے نام اندراج بھی کرادیاہے۔ جس کے عوض میں مجھے نوکری دئے جانے کاوعدہ کیاگیاتھا۔میری زمین بھی وہی ملکیتی دوکنال تھی جو محکمہ کو دے دی۔جس پر دو بڑے پانی کے حوض تعمیر کردیے گئے۔لیکن غریب کو صرف وعدوں پر ہی ٹالا جا رہا ہے۔ہر بار فائیلوں پر فائیل مانگ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ضلع ترقیاتی کمشنر کے نوٹس میں بھی یہ معاملہ لایاگیا۔تاہم اس پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔یہی مجبوری ہے کہ میں اس ٹنک میں پانی نہیں ڈلانے دے رہاہوں۔جب تک میرامعاملہ حل نہ ہوتاتب تک پانی نہیں ڈالنے دیا جایگا۔ جبکہ پچھلے پانچ چھ سالوں سے مکمل بغیر اجرت کے کام کررہاہوں۔اگر میرے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا ہوتا ہے تو اس ٹینک میں پانی بھی ڈالا جائے گا اور پنچایت چکھڑی بن کی عوام کی پریشانی دور ہو جائے گی۔ چکھڑی واٹر ٹینک میں پانی نہ ڈالنے کی وجہ سے ھم نے محکمہ جل شکتی کے جونئیر انجینئر محمد حنیف سے بات کی تو ان کا کہناہے کہ مقصود شاہ جن کی زمین میں واٹر ٹینک بنایا گیا ہے۔ انہوں نے نوکری کہ لئے فائل جب دی تو اچانک سے پارلیمینٹ کا الیکشن آگیا تو گورنمنٹ نے ہر کام پر بین لگا دیا۔ ان کی ہی نہیں بلکہ ہمارے ضلع کی ڈیڑھ سو فائلوں کا ابھی بھی معاملہ ہے۔ مقصود شاہ ٹینک میں پانی نہیں ڈالنے دے رہے تھے۔اب وہ مان گئے ہیں۔آئیندہ چند ماہ میں ان کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور ہم جلد از جلد ٹینک میں پانی بھی ڈلوا دیں گے۔اصل بات تو یہ ہے کہ سرکاری رقومات لگانے ایک غریب کی زمین بھی لگ جانے کے بعد عوام کو پانی نہ پہونچ پایا۔آخر اس کا اصل مورد الزام کون ہوگا؟ جہاں آج بھی آبشاروں چشموں ندی نالوں کے ہوتے ہوے چھکڑی، بن،پلیرہ، دری، مہارکوٹ کی عوام پانی کو ترستی ہو۔