آخر یہ پانی کی عدم دستیابی کا انتظار کب ٹوٹے گا؟

محمد ریاض ملک
منڈی پونچھ، جموں
پانی انسان کی اہم ضروریات میں سے ایک ہے۔ جتناہی پانی ضرورت کی چیز ہے اتنی ہی اس کی بہتات بھی ہونی چاہے۔ دہلی یا اس جیسے بڑے شہروں میں پانی وقت پر مہیاء کیاجاتاہے۔ اس کے برعکس چھوٹے قصبوں دیہاتوں میں پانی کا نظام اس سے مختلف ہوتاہے۔ جہاں لوگ پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ پانی آتاہے تو گلی کوچوں میں ندی نالوں کی طرح بہتا ہے اور اگر نہیں اتاتو ہفتوں اور مہینوں تک انتظار بھی بے کار رہتی ہے۔ یہاں نہ پانی دینے والے محکمہ کے افراد کو پرواہ اور نہ ہی عوام اپنی زمہ داری کا احساس کرتی ہے۔ محکمہ کے ملازمین سوچتے ہیں کہ عوام ہماراتعاون کرے اور عوام سوچتی ہے کہ پانی مہیاء کرنا محکمہ کا کام ہے۔وہ جہاں سے مرضی جیسے مرضی دیں ہمیں ٹھیکداری نہیں کرنی۔ ہندوستان کی اکثر ایسی ریاستیں ہیں۔جہاں پانی کی شدید قلت کا بحران رہتاہے۔ لیکن جموں وکشمیر جہاں ابشاروں، چشموں،ندی نالوں میں پانی کی کوئی کمی نہیں ہے اور ساراسال بارشوں کا سلسلہ بھی پانی کی قلت کو ختم کرنے کا ایک بہترین زریعہ ہے۔لیکن یہاں عوام اور محکمہ دونوں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھراکر خود کو اپنی زمہ داریوں سے دستبردار کرلیتے ہیں۔ضلع پونچھ جوکہ جموں وکشمیر کا سرحدی ضلع ہے۔ یہ جموں ہیڈ کواٹر سے 232کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہاں کی ہر تحصیل کا ہر قسم کا آب وہوا قدرت کا انوکھا کھیل ہے۔ تحصیل منڈی اور سرنکوٹ کے کچھ علاقے آپس میں میل کھاتے ہیں باقی دیگر گوں ہیں۔
 تحصیل منڈی جو ضلع پونچھ سے 22کلومیٹر مشرق کی جانب سے شروع ہوتی ہے۔ بلند وبالاپہاڑوں کے درمیان اس تحصیل کی آبادی غون وغوں مشکلات سے اب بھی دوچار توہے ہی۔لیکن نئے مسائیل دن بدن جنم لے رہے ہیں۔ پانی کے حوالے سے یہاں کے مکین اب انتظامیہ اور انتظامیہ کی پالیسیوں کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے محمد شریف جن کی عمر 51سال ہے اور گاوں اڑائی کے باشندے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پانی سب سے زیادہ ضرورت کی چیز ہے۔ لیکن ہم اس کے لئے گزشتہ دس گیارہ سالوں سے ترس رہے ہیں۔ ٹاویں سے آنے والی لائین پر قریب پانچ جگہ سے یونہی لوگوں نے سراخ کرکے پانی نکالاہواہے۔ نہ ہی سراخ بندکرنے کا بندوبست ہوتاہے اور نہ ہی یہ لوگ یہاں نل وغیرہ لگاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے تین چار جگہوں پر ہی ساراپانی نکل جاتاہے اور اگے موریاں کا سارہ محلہ پانی کے بغیر پریشان ہورہاہے۔لائین مین کو جب کہاجاتاہے تو ان کا کہناہوتاہے کہ یہ پائیپیں برسوں پرانی لگی ہوئی ہیں اور محکمہ کی جانب سے ان کی ریپیرینگ کے لئے کوئی سامان وغیرہ نہیں دیاجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے دن بدن لوگ بھی پریشان ہیں۔ کیوں کہ جگہ جگہ سے پائیپیں باندھ کر ہی بڑی مشقت سے پانی چلاتے ہیں۔
 پانی کی قلت کے حوالے سے ارشاد احمد جن کی عمر 36 سال ہے، انہوں نے بتایاکہ پانی کے لئے کوئی دن نہیں گزرتا جس دن لائین مینوں کو فون نہ کیاجاے۔ ایک دن آتے ہیں ٹھیک کرکے پانی دیتے ہیں۔دوسرے دن پھر بندہوجاتاہے۔ پھر فون کرتے ہیں۔ غرض ایک قسم کی روزانہ کامعمول بن چکاہے۔ کیوں کہ جگہ جگہ سے پانی کی پائیپیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ اب لوگ تنگ آچکے ہیں۔ خود ہی پانی جب موڑتے ہیں تو بے خبری میں مزیدجہاں کہیں پائیپ ہوتی ہیں اس کو توڑ پھوڑ دیتے ہیں۔ لائین مینوں کو اب انتظامیہ کی طرف سے بائیو میٹرک سختی سے لاگو ہے۔ جس کی وجہ سے لائین مین پانی کی لائینوں تک پہونچیں یا کہ لوگوں کو پانی دیں۔ اگر بائیو میٹرک پر رہتے ہیں تو پا نی مشکل اوراگر پانی کی لائینوں پر دیر ہوجاتی ہے تو حاضری کی مشکل ہوجاتی ہے۔
اس سلسلے میں نوجوان سماجی کارکن شکیل احمد پرے کہتے ہیں کہ یہاں اڑائی کے لئے دو کروڑ ستائیس لاکھ روپیہ کو منظوری ملنے کے بعد پائپ لائینوں کا ٹنڈر بھی الاٹ ہوچکے ہیں۔لیکن آج تک اس کا کام نہیں لگ پایاہے۔ جس کی وجہ سے لوگ پریشانیوں سے دوچار ہیں۔ اس موسم میں اگر کام لگتاتو لوگوں کو پانی کی قلت سے نجات مل سکتی تھی۔ اس معاملہ کو لیکر جب محکمہ جل شکتی کے سپر وائیزر محمد اعظم جو پنچائیت پیراں پر تعینات ہیں،انہوں نے کہاکہ فلوقت عوام تک پانی کی سپلائی پہنچانے میں شدید مشکلات پیدا ہو رہی ہیں کیوں کہ محکمہ جل شکتی کے زیر اہتمام تمام اسکمیوں پر کوئی کام نہیں ہورہاہے۔جس کی وجہ محکمہ پانی کے لئے بنے ٹینک بھی خشک ہوچکے ہیں۔ پنچائیتوں کی جانب سے بناے گئے کچھ ٹنکیوں یا ٹنکوں میں بھی پانی نہیں بھراجسکاہے کیوں کہ ہمارے پاس نہ پائیپیں ہیں اور نہ ہی دیگر سامان ہی اعلی افیسران کی جانب سے مہیاء کیاجاتاہے۔ گھر گھر نل اورہر گھر جل کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ اب جلد ہی لوگوں کی دیرینہ مانگ کا ازالہ ہونے والاہے۔ اپریل میں تمام پنچائیتوں میں طے شدہ پلان کے مطابق پائیپ لائینوں کا کام لگ جایگا۔ جس کا ہم نے زمینی سطح پر سروے بناکر اعلی حکام تک پہونچادیاہے۔ پانی کی ہاہاکار گزشتہ قریب دس سالوں سے مسلسل چلی آرہی ہے۔ اس دور میں بھی جب لوگ ڈیجیٹل دور میں سائینس ٹیکنالوجی اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کی بات کررہے ہیں۔افسوس کہ منڈی تحصیل کے لوگ پانی پانی اور بجلی بجلی کرتے کرتے اپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔ آخر یہ پانی کی عدم دستیابی کا ان کا انتظار کب ٹوٹے گا؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *