ایک عورت جو کلمۂ شہادت پڑھواتی ہے

شاہین نظر

شمیم سلطانہ ایک نوجوان خاتون ہیں، سنگاپور کی شہری ہیں اور جامعہ الازہر کی فارغ۔ جو بات انہیں قابل ذکر بناتی ہے وہ ہے ان کا منصب، خاص کر کسی ہندوستانی سیاح کے لئے۔ یہ سنگاپور حکومت کے ذریعہ تسلیم شدہ ادارہ “دارالارقم” میں ‘رجسٹرار آف کنورژن’ ہیں۔ یعنی کوئی شخص اگر روبہ اسلام ہونا چاہے تو یہ اسے کلمۂ شہادت پڑھواتی ہیں۔ پھر ان کا ادارہ ان کے دستخط سے ایک سرٹیفکیٹ جاری کرتاہے جسے نیا مسلمان سنگاپور میں اور دیگر ممالک میں سند کے طور پر استعمال کرتا ہے اپنا نام بدلوانے اور دیگر قانونی کاروائی کے لئے۔

دارالارقم کا انگریزی نام اس کے کام کی صحیح تشریح کرتا ہے اور ہندوستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو زرا چونکانے والا ہے: مسلم کنورٹس اسوسی ایشن آف سنگاپور۔ اس ادارے کی سالانہ رپورٹ کے مطابق یہاں ہر سال سات سو کے قریب لوگ اسلام قبول کرتے ہیں یعنی اوسطاً دو سے تین لوگ ہر روز، اگر سنیچر اور اتوار کی ہفتہ وار چھٹی اور سال کی باقی چھٹیاں جوڑ لی جائیں تو۔ مسلمان ہونے والوں میں سنگاپور کے شہری ہوتے ہیں اور وہاں رہ رہے دیگر ممالک کے شہری بھی۔ دارالارقم کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ ان کے یہاں تمام ہی مذاھب کے ماننے والے آتے ہیں گو اسلام قبول کرنے والوں میں بڑی تعداد عیسائیوں کی ہے، اس کے بعد بدھ مت اور ہندو مت کے ماننے والے ہوتے ہیں۔

جب میں شمیم سلطانہ کے دفتر میں داخل ہوا تو وہاں ایک برطانوی مرد اپنی منگیتر جو کہ سنگاپور کی مسلمان شہری تھی اور اس لڑکی کے چند رشتہ داروں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ہم اس کمرے میں نہیں گئے جہاں قبول اسلام کا عمل جاری تھا کیونکہ دارالارقم کا جو ذمہ دار ہمیں لے کر گیا تھا اس نے کہا کہ ایک اجنبی کا وہاں جانا کسی کی پرائیویسی میں دخل دینے جیسا ہوگا۔

تھوڑی دیر میں جب یہ کارروائی ختم ہوگئی اور وہ انگریز نومسلم باہر آیا تو ہم لوگوں نے اسے مبارکباد دی اور پھر رجسٹرار کے دفتر میں داخل ہوئے۔ یہاں ایک نہایت ہی خوش اخلاق نوجوان خاتون سے ہمارا تعارف ہوا۔ شمیم سلطانہ جو کہ فراٹے دار انگریزی بول رہی تھیں نے اپنے بارے میں بتایا کہ انہوں نے بنیادی تعلیم سنگاپور کے اسکول میں حاصل کی، پھر انڈونیثیا کے ایک مدرسے سے عربی کی تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد مصر جا کر جامعہ الاظہر سے فقہ میں گریجویشن کیا۔ اس وقت وہ دارالارقم جہاں اسلام میں دلچسپی رکھنے والے غیر مسلموں اور نو مسلموں کے لئے دینی تعلیم کا نظم ہے وہ فقہ پڑھاتی ہیں۔ ‘رجسٹرار آف کنورژن’ کی ذمہ داری انہیں حال ہی میں ملی ہے جب سنگاپور کے سرکاری ادارہ “موعیس” یعنی اسلامک ریلیجیس کاؤنسل آف سنگاپور نے یہ فیصلہ کیا کہ عورتوں کو بھی یہ ذمہ داری دی جائے۔ دارالارقم اپنے نام سے اسلام کے ابتدائی دور کی یاد دلاتا ہے جب صحابی رسول ابو عبداللہ ارقم نے اپنے گھر کو اشاعت اسلام کے لئے وقف کر دیا تھا۔ اگست 2005 سے دارالرقم کو موعیس کے ذریعے “ون اسٹاپ سینٹر فار کنورٹس” کے طور پر مقرر کیا گیا ہے۔

شمیم سلطانہ کا کہنا تھا کہ کنورٹ ہونا کسی کی زندگی کا بہت بڑا فیصلہ ہوتا ہے۔ اکثر لوگ میرے سامنے بیٹھ کر بہت زیادہ جذباتی ہو رہے ہوتے ہیں۔ میں پہلے انہیں نارمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اس موقع پر گھر والوں یا قریبی دوستوں کی موجودگی بہت اہم ہوتی ہے اور ان کے لئے اموشنل سپورٹ کا کام کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کسی شخص کو کلمۂ شہادت پڑھوانے سے پہلے وہ تنہائی میں اس سے بات کر کے یہ اطمینان کرتی ہیں کہ اسلام قبول کرنے کا اس کا فیصلہ کسی دباؤ یا لالچ میں نہیں ہو رہا۔ اکثر لوگ شادی کی غرض سے کنورٹ ہوتے ہیں۔ وہ ان سے کہتی ہیں کہ تمہاری شادی ٹوٹ بھی سکتی ہے مگر اسلام سے جو رشتہ تم جوڑنے جا رہے ہو وہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے اس لئے جلد بازی میں کوئی فیصلہ مت کرو۔

دارالارقم میں کل بیس رجسٹرار آف کنورژن ہیں جن میں بشمول شمیم سلطانہ چار عورتیں ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *