جمیل احمد محسن
پونچھ
تعلیم ایک طاقتور اور ضروری ہتھیار ہے، یہ کسی ملک کی ترقی کے لئے سب سے ضروری ہے۔بنیادی تعلیم ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے،جبکہ اعلی تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے ہنرمند افرادی قوت فراہم کرتی ہے۔جنوبی افریقہ کے سابق صدرنیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ ”تعلیم ایک ایسا موثر اور اہم ہتھیار ہے جس کو استعمال میں لا کر آپ دنیا کو بدل سکتے ہیں۔“ آجکل سائنسی ترقی دیکھ کر اور تعلیم کے ذریعے زمین و خلا میں نت نئے تجربات اور مشاہدات دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قدیم انسان کی زندگی میں جدید دور کے انسان کی زندگی میں ارض و سما کا فرق ہے۔ تعلیم ایک ایسا زیور ہے جس کو پہن کر ایک انسان خود کو افراد کی دنیا میں ایک منفرد شخصیت کا مالک ٹھہرا سکتا ہے۔۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ لوگ جو ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے اور ایک دوسرے کے تئیں انتہائی متنفر رہتے تھے، کیسے ایک دوسرے کے دلنشین اور خیرخواہ بن گئے،تاریخ کی کتابوں سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کسی مفکر کا قول ہے کہ کسی قوم اور مملکت کو گرانے اور تباہ کرنے کے لیے ایٹم بم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف اس مملکت کے تعلیمی معیار کو گرا دیا جائے جب تعلیمی معیار گرجائے گا تو یقینا اس قوم و مملکت کا خاتمہ ہوجائے گا کیونکہ جب تعلیم نہیں ہوگی تو ان پڑھ لوگ ڈاکٹر بن جائیں گے جن کے ہاتھوں مریض مریں گے۔انجینئرز کے ہاتھوں عمارتیں تباہ و برباد ہوں گی اور استادوں کے ہاتھوں طلباء تباہ و برباد ہوں گے۔جب معاشرے سے تعلیم کا خاتمہ ہوجائے گا تو یقینا معاشرے کو تباہ و برباد ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔جب تعلیم نہیں ہوگی تو معاشرے میں چور ڈاکو ریپسٹ اور امن و امان کا خون خرابہ کرنے والے لوگ پیدا ہوں گے۔
دنیا کے 6کروڑ 70 لاکھ بچے جن کی عمر پرائمری اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے موزوں سمجھی جاتی ہے۔ انہیں تعلیم کا حق حاصل نہیں،کیونکہ یا تو وہ بچپن میں ہی مزدوری کرنے لگتے ہیں، یا پھر والدین کی غریبی کے باعث آوارہ گردی اور بعض اوقات بھیک مانگنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔اسکولوں میں دنیا بھر کے گیارہ کروڑ 50 لاکھ بچے ابتدائی تعلیم کے لیے داخل ہی نہیں ہوتے۔ پرائمری اور بعض اوقات مڈل کی تعلیم کے بعد 22 کروڑ 50 لاکھ بچے سیکنڈری کی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 617 ملین سے زیادہ بچے اور نوعمر نوجوان پڑھنے اور ریاضی میں کم سے کم مہارت سے بھی ناواقف ہیں۔2011 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق بھارت میں جملہ خواندگی74.04 فیصد ہے جس میں مردوں میں 82.14 اور خواتین میں 65.46 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں تین سو تیرہ ملین ان پڑھ افراد ہیں۔ بھارت میں اس وقت 186 ملین ایسی خواتین ہیں جو کسی بھی زبان میں ایک عام سا جملہ بھی نہیں لکھ سکتی۔سال2023-24کے مرکزی بجٹ میں مرکزی سرکار نے تعلیم کے شعبے کے لیے 13.1 لاکھ کروڑ روپے مختص کئے،جس سے اسکول اور اعلی تعلیم پر اخراجات میں گزشتہ 2022-23کے مقابلے تقریبا تین فیصد اضافہ ہوا۔اتنے خرچ اور بجٹ کے باوجود بھی زیادہ تر اسکولوں میں انٹرنیٹ رسائی نہیں ہے،اور بھارت کے تقریبا1.2 لاکھ سکول میں صرف ایک ہی ٹیچر ہوتے ہیں۔بہرحال سرکاری طور پر جدوجہد کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو عوام بھی اس میں بہت کوتاہی برتتی ہے۔ بہت ساری مفت سہولیات جیسے کتابیں وردی کھانا مفت دینے کے باوجود بھی کئی لوگ اپنے بچوں کو اسکول سے دور رکھتے ہیں اور ان کو تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔
ایک اسکول کے ٹیچر جنہوں نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ سرکار کی طرف سے کئی ساری سہولیات فراہم کی جاتی ہیں لیکن اکثر لوگ ان سہولیات سے فائدہ حاصل نہیں کرتے۔ لوگوں کو جانکاری دینے اور ان کو تعلیم کی اہمیت اور افادیت بتانے کے باوجود بھی کئی جگہوں پر منفی نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ ایک سماجی کارکن جن کا نام سرفراز احمدہے، نے بتایا کہ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا راز ہے اور اس مملکت کی ترقی کا راز تعلیم میں مضمر ہے۔ کئی جگہوں پر سرکار کی طرف سے بہت بہترین سہولیات فراہم کی جاتی ہیں لیکن پھر بھی عوام فائدہ حاصل نہیں کر پاتی۔بعض جگہوں پر تو اسکولوں میں بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہوتا ہے۔لہذا عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے نونہالوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں،اور سرکار کو بھی چاہیے کہ عوام کو بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کرے۔ ایک مقامی شہری جن کا نام بشیر احمد عمر ہے، ان کا کہنا ہے کہ تعلیم کے سوا کوئی بھی چارہ کار نہیں ہے، اگر ہم ترقی پذیر ملک سے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو تعلیم ہی ایک واحد ذریعہ ہے جو اس دل سے نکال کر ہمیں ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ کھڑا کر سکتی ہے۔تعلیم ایک ایسا زیور ہے جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔اس کے بغیر ایک انسان حیوان کی مانند ہے اور انسان حیوان سے انسان اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ تعلیم حاصل کرے۔ اگر بچوں کو تعلیم نہیں دی جائے گی تووہ غلط صحبت میں پڑ کر ملک کے امن و امان کے لیے خطرہ ثابت ہوں گے اور معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنیں گے۔تعلیم کی افادیت اور اہمیت پر جتنا بھی لکھا جائے وہ بہت ہی کم ہے اس لیے عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم کی طرف راغب کریں ان سے کام کاج کروانے کے بجائے ان کو بنیادی اور اعلی تعلیم سے آراستہ کریں تاکہ وہ کل آپ کا سرمایہ بن سکیں، آپ کا آپ کے خاندان کا نام روشن کر سکیں اور ملک و قوم کی خدمت بھی کر سکیں، اس کے لئے عوام کو کوشش کرنی ہوگی عوام کو چاہیے کہ وہ بھرپور طریقے سے سرکار کا تعاون کرے اور سرکار کو بھی چاہیے کہ وہ ہر طرح کی بنیادی سہولیات عوام کو فراہم کرے تاکہ وہ اپنے نونہالوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں اہم رول ادا کریں۔