مشن تقویتِ امت قسط 33
سارا جھگڑا اصل میں اسی بات کا ہے کہ جب اللہ جعلنا کا لفظ استعمال کررہا ہے کہ شعوب و قبائل اور برادریاں اللہ نے ہی بنائیں تو پھر ہم کیوں اس کو مٹانے پہ تلے ہیں؟ علماء بھی اسی بنا پر برادری واد کی لعنت کی تائید کرتے نظر آتے ہیں کہ جب یہ خدائی تقسیم ہے تو ہم کون ہوتے ہیں اس کو ختم کرنے والے
یہاں اس پس منظر کو بہت اچھے سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قبائل و شعوب ایک علامتی مثال کے طور پر ذکر کیا گیا ہے جو دراصل تقسیمات سے عبارت ہے، یعنی انسانوں کو ایک ماں باپ سے پیدا کرنے کے بعد ہم نے ان کی تقسیمات کیں، کیوں کہ اس وقت بھی عربوں میں چھ طبقات تھے: ( 1 ) شعب ( 2 ) قبیلہ (3) عماره (4) بطن (5) فخذ (6) فصیل – شعب میں کئی قبائل ہوتے ہیں، قبیلہ میں کئی عمائر، عمارہ میں کئی بطون، بطن میں کئی افخاذ، اور فخذ میں کئی فصائل ہوتے ہیں۔ چنانچہ عرب میں خزیمہ شعب، کنانہ قبیلہ، قریش عماره، قصی بطن، ہاشم فخذ اور عباس فصیلہ ہیں اور اللہ نے صرف پہلے دو طبقوں کا تذکرہ کرکے بقیہ کو چھوڑدیا تاکہ ان چاروں کو بھی ان دونوں پر قیاس کرلیا جائے۔
لیکن ان تقسیمات کے بنانے کی نسبت اپنی طرف کرنے کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ قبائل کی تعیین وہبی ہے اور ہمارے اختیار میں قبائل یا شعوب بنانا یا ختم کرنا نہیں ہے۔ چوں کہ حقائق اس کے بالکل برخلاف ہیں، ہم اپنے سامنے نئی برادریاں انسانوں کو بناتے اور ختم کرتے دیکھ رہے ہیں، اس کا مطلب کل ملا کر یہ ہوا کہ ہم تقسیمات کو ختم نہیں کرسکتے البتہ تقسیمات کیسے ہوں گی ان کا اختیار اللہ نے انسانوں کو دیا ہے
مثال سے سمجھیں: یہ ایسے ہی جیسے اللہ نے کہا ہے و من آیاتہ خلق السموات و الارض و اختلاف السنتکم و الوانکم، زبانوں کے الگ اور مختلف ہونےکو وہ اپنی نشانیاں گنوارہا ہے یعنی اس نے ہی زبانیں بنائی ہیں لیکن کئی زبانیں ایسی ہیں جن کے بارے میں ہم خود جانتے ہیں کہ انسانوں نے ایجاد کی ہیں۔
لہذا ہمیں ان آیات اللہ اور جعلنا کی تطبیق ایسے ہی کرنی پڑے گی کہ اس نفسِ صلاحیت و نفسِ تقسیم کا اصلی سورس رب العالمین ہے لیکن ان تقسیمات کی مختلف صورتوں کو بنانا بگاڑنا یہ اللہ نے انسان کے ہاتھوں میں دیا ہے۔
یہ برادریاں کس بنیاد پروجود میں آئیں؟ برادریوں میں شرافت و رذالت کس نے پیداکیا؟
بر صغیر کے تناظر میں جب ہم غور کرتے ہیں تو ذات پات اور برادریوں کی تین بنیادیں ہمیں نظر آتی ہیں:
1 غربت و امیری 2 ہر زمانے کی موجودہ طاقت و قوت 3 پیشہ
اور اسلام میں ان تینوں میں سے کوئی بھی بنیاد شرافت و رذالت کا سبب نہیں بن سکتی
جس طرح برہمن طاقت ور تھے انہوں نے ایک طبقے کو ذلیل بنادیا اسی طرح ہمارے مسلم طبقے کے طاقت ور افراد نے اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لیے ایک طبقے کو ذلیل گردانا، لیکن یہ ہمارے اختیار میں ہیں کہ گزشتہ طاقت ور عناصر کے بنائے ہوئے بتوں کو توڑکر مختلف پیشوں کی بنیاد پر پیدا کی گئی رذالت ختم کی جائے جیسے مغرب نے اپنے یہاں سے ہر پیشے کی رذالت تقریباً ختم کردی ہے
قبائل و شعوب اور برادری میں کیا فرق ہے؟
جب یہ سمجھ لیا ہم نے کہ نفس تقسیم اللہ نے بنائی ہیں لیکن اس کی مختلف صورتیں انسانوں کی پیداوار ہیں تو جو بنتی بگڑتی رہتی ہیں تو اب ہم یہ طے کریں گے کہ سماج میں موجود کون سی تقسیم صحیح ہے کون سی غلط۔
مثلاً ہم یہ سمجھتے ہیں کہ علم کی بنیاد پر مولانا اور غیر مولانا ڈاکٹر اور غیر ڈاکٹر کی تقسیم صحیح ہے کیوں کہ اللہ کہ رہا ہے و فوق کل ذی علم علیم ولقد آتینا داؤد و سلیمان علما و قالا الحمد للّہ الذی فضلنا علی کثیر من عبادہ المومنین
اب یہاں پر شعوب و قبائل کی تقسیم تو صحیح ہے لیکن برادریوں کی تقسیم دو وجوہات کی بناپر صحیح نہیں:
1 کیوں کہ قبیلہ قریش قبیلہ غطفان قبیلہ عبد القیس وغیرہ کو پڑھ کر کسی شرافت و رذالت کا احساس نہیں ہوتا لیکن برادریوں کے نام سید (سردار) جولاہا (کپڑا بننے والے حقیر لوگ) دھنیا (کپڑا دھننے والے ذلیل پیشہ لوگ)اور کباڑی جیسے الفاظ سے ہی شرافت و رذالت جھلکتی ہے
2 حدیثوں میں نسب محفوظ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کے پیچھے مصلحت یہ ہے کہ صلہ رحمی میں اضافہ ہو، کیوں کہ اپنے نسب کے ساتھ انسان کو اپنائیت محسوس ہوتی ہے، اور حدیث میں ہے کہ رشتے داروں کو صدقہ دینے پر دو ثواب ملتے ہیں ایک صدقے کا دوسرا صلہ رحمی کا، لیکن ہمیں شیخ یا انصاری کہنے پر اپنے نسب کا پتہ نہیں چلتا، کیوں کہ کسی ایک گاوں میں سارے شیخ ہوں تو یہ ضروری نہیں کہ سارے ایک ہی باپ کی اولاد ہوں اور نہ انصاری یا کسی برادری کے بارے میں یہ بات قطعی طور پر کہی جاسکتی ہے
اگر ہم شرافت و رذالت کے بجائے صرف پہچان کے لئے استعمال کریں تو اس میں کیا حرج ہے؟
جو پہچان اونچ نیچ کا ذریعہ بن گئی جس کا فائدہ غیر مسلم اٹھارہے ہیں اور ہمارے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں کیوں نہ اس پہچان کو ختم کرکے اس کے متبادل کوئی ایسی ذیلی شناخت متعارف کرائی جائے جس سے شرافت اور رذالت کا شائبہ دماغ میں نہ آئے اور تعارف بھی حاصل ہوجائے؟ یا جس طرح نو سو سال پہلے سرزمین ہند پر اسلام میں داخل ہونے والے لوگ محض بطور مسلم پہچانے جاتے تھے اسی طرح آج کیوں نہیں پہچانے جاسکتے؟
تو پھر ہمارے پاس اس برادری واد کا متبادل کیا ہونا چاہئے
شعوب و قبائل کی جس طرح تقسیم ہوئی ہے وہ انساب کو محفوظ رکھنے میں مفید ہےکیوں کہ عربوں کے اندر تمام چھ تقسیمیں باپ داداوں کے نام پر رکھی گئی ہیں نیز اگر آیت “ادعوھم لآبائہم ھو اقسط عند اللہ” پر وسیع تناظر میں غور کریں تو یہ آیت بھی ہمیں دعوت دے رہی ہے کہ ہم اپنے باپ داداوں سے منسوب کئے جائیں
اس لئے ہمارے ذہن میں یہ خاکہ ہے کہ ہر خاندان اپنے تین چار پشتوں میں سب سے بڑے عالم اور قوم کے لئے سرگرم شخص کے نام پر اپنے خاندان کا نام رکھ لیں مثلا نوری، معینی، بنو قیام اور بنو نظام وغیرہ اس سے ہم برادری واد کی لعنت سے بھی محفوظ رہ جائیں گے، قرآن پر بھی عمل ہوجائے گا اور انساب کو بھی محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی، ورنہ عجم میں کسی کو بھی اپنا نسب یاد نہیں اور جو لکھے ہوئے