سیدہ طیبہ کاظمی
پونچھ
”غربت تشدد کی بدترین شکل ہے۔“ یہ بات بابائے قوم مہاتما گاندھی نے کہی تھی۔ یہ بیان بتاتا ہے کہ غربت کتنی ظالمانہ ہو سکتی ہے اور لوگ اس سے کس قدر بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ نیتی آیوگ کے مطابق جموں و کشمیر میں 12.58فیصد آبادی قومی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ قومی سطح پر 2022 میں، ہندوستان میں غربت میں رہنے والے مردوں کی کل آبادی تقریباً 38 ملین تھی۔ اس کے برعکس اسی مدت کے دوران غربت میں خواتین کی تعداد تقریباً 45 ملین تھی۔ یہ اس ملک اور ریاست میں غربت کا موجودہ منظر نامہ ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔اگر میں اپنے گاؤں بانڈی چیچیاں کی بات کروں جو کہ ضلع پونچھ کا ایک بلاک ہے، یہاں کے نوجوانوں کی اکثریت بے روزگار ہے اور اس علاقے میں رہنے والے لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ غربت کا مجموعی طور پر لوگوں کے حالات پر اثر پڑتا ہے، خواہ وہ تعلیم ہو، صحت ہو یا اچھی خوراک ہو، تمام بنیادی ضروریات یہاں رہنے والے لوگوں کی خراب مالی حالت کی وجہ سے متاثر ہوتی ہیں۔ زیادہ تر لوگ مزدور، ڈرائیور یا چھوٹے دکاندار کے طور پر کام کرتے ہیں اور یہاں بہت کم لوگ نچلے متوسط یا متوسط طبقے سے ہیں۔ خراب مالی حالات کی وجہ سے بہت سے نوجوانوں کے پاس اچھی تعلیم نہیں ہے۔ اس لیے انہیں کچھ مہارتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جیسے کارپینٹری، ڈرائیوری، لوہے یا دیگر دھاتوں کی فیبریکیشن، زراعت، مویشی پالنا وغیرہ۔ یہ ہنر آج کے وقت میں زیادہ کام نہیں کرتے۔ ان مہارتوں کے ذریعے زندگی کی بنیادی ضروریات ہی پوری کی جا سکتی ہیں۔
بے روزگاری اور نوجوانوں کے لیے مواقع کی کمی کی وجہ سے نوجوان کمائی کے لیے بیرون ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ کئی بار نوجوان ویزا اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ کی ادائیگی کے لیے اپنی زمینیں بیچ دیتے ہیں۔ پہلے سے ہی غریب پس منظر والے کسی کے لیے یہ ایک پرخطر قدم ہے، کیونکہ ہو سکتا ہے کسی کو معلوم نہ ہو کہ جس ملک میں وہ بھی سفر کر رہے ہیں وہاں ان کے لیے ملازمت کے اچھے مواقع ہوں گے بھی یا نہیں؟ بہت سے نوجوان جن کے بارے میں میں ذاتی طور پر جانتی ہوں، غیر ممالک کا سفر صرف اس لیے کیا کہ وہ نوکری تلاش کر سکیں جو انہیں اپنے ملک میں نہیں ملتی۔ پونچھ کے بلاک بانڈی چیچیاں کے ایک نوجوان امان شاہ (نام بدلا ہوا) نے ڈرائیونگ کا ہنر سیکھا اور پھر کمائی کے بہتر مواقع کی خاطر بیرون ملک چلا گیا۔وہاں بہت سے لوگ ہیں جو وہاں کام کرکے اچھی قسمت بناتے ہیں، لیکن بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو نوکری کا اچھا موقع تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب یہ لوگ اتنے سال پردیس میں کام کرنے کے بعد اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں تو وہ اپنی جوانی کھو چکے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ان لوگوں کو اپنے پیاروں سے برسوں کی دوری کا درد بھی سہنا پڑتا ہے۔ اگر ہمارے علاقے میں روزگار کے کافی مواقع ہوتے تو ان لوگوں کو صرف روزی کمانے کی خاطر کبھی بھی اپنا ملک نہ چھوڑنا پڑتا۔بہت سے نوجوان جو رکاوٹوں پر قابو پاتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح اچھی تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، انہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ضلع پونچھ میں ہائیر ایجوکیشن اسٹڈیز (پوسٹ گریجویشن) کے لیے کوئی انسٹی ٹیوٹ نہیں ہے، اس لیے طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اپنے آبائی شہروں سے ہٹ کر شہروں میں جانا پڑتا ہے۔ لیکن یہاں ایک بار پھر غریب طبقہ بری طرح متاثر ہوتا ہے، کیونکہ گھر سے دور رہنے کا خرچ زیادہ تر خاندانوں کے لیے قابل برداشت نہیں ہوتا، اس طرح یہاں تک آنے والوں کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں اور انہیں اپنی تعلیم ترک کرنی پڑتی ہے۔
میں ایسے چند لوگوں کو جانتی ہوں جو اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنے اور غربت کے ہاتھوں بری طرح دکھ سہنے کے باوجود اپنی ماسٹر کی تعلیم مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن اتنی جدوجہد کے باوجود ملازمت کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے وہ بیکار بیٹھے ہیں۔ ایسے ہی پونچھ کے ایک شخص موسیٰ علی (نام تبدیل) نے بتایا کہ میں نے وہ وقت دیکھا جہاں مجھے کئی دن بھوکا رہنا پڑا کیونکہ میں گھر سے دور تھا اور اپنے خاندان کے خراب مالی حالات کی وجہ سے کھانا نہیں کھا سکتا تھا۔ ان مصائب کے باوجود میں اپنی ماسٹرز کی تعلیم میں اچھا نمبر حاصل کرنے میں کامیاب رہا لیکن آج میں اچھی نوکری نہ ہونے کی وجہ سے پریشان حال ہوں۔ یہ بہت سارے غریب طبقے کے لوگوں کا اصل منظر نامہ ہے، اگر یہاں روزگار کے اچھے مواقع ہوتے تو لوگوں کو اتنا نقصان نہ ہوتا۔ بیروزگاری جو غریبی لاتی ہے ایک ایسی برائی ہے جو ایک اچھے شہری اور انسان کو برائی کی طرف راغب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جھوٹ، دھوکہ اور فریب جیسے گناہ غربت میں ڈوبے انسان اس کے لیے عام بات بن جاتے ہیں۔ لوگ دہشت گردی میں ملوث ہوجاتے ہیں جبکہ لوٹ مار بھی عام ہوجاتی ہے، جس سے نہ صرف شہریوں بلکہ پورے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔ لوگ سیاسی قیادت اور حکومت سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور آئے روز ملک میں ہڑتالیں ہوتی ہیں۔ اس سنگین مسئلے کی وجہ سے لوگ دین سے دور اور برائی کے قریب ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں نہ صرف عام شہری بلکہ بہت سے تعلیم یافتہ لوگ بھی ڈگریاں لے کر گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ مجبوری کے تحت یا تو کوئی معمولی جاب کررہے یا فیکٹریوں میں مزدوریاں کررہے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے آنے والی نسلوں میں بھی تعلیم کا شوق ختم ہوگیا ہے اور وہ چھوٹی عمر میں پیسہ کمانے کی لالچ یا برائی کی طرف راغب ہورہے ہیں۔
ایک بیروزگار فرد کو معاشرے میں ہمیشہ ذلت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور وہ شخص خود کو نامکمل اور کمزور سمجھنے لگتا ہے۔ بیروزگار انسان ہمیشہ بے یقینی اور بے چینی کا شکار رہتا ہے جو بہت سی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ بیروزگاری سے لوگوں کے دل میں ماحول کا فرق آنے لگتا ہے یعنی وہ لوگ جو امیر ہیں وہ غریب طبقے کے لوگوں کو خود سے کم تر سمجھنے لگتے ہیں اور معاشرے میں مساوات کا عمل ختم ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنے گھر کے اخراجات، بچوں کی خواہشات اور تعلیم کے خرچے تک کو پورا نہیں کر پارہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے گھر میں آئے روز فاقہ کشی کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے اور یہ لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ کچھ لوگ ان سب پریشانی و مسائل سے تنگ آکر اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ملک چلے جاتے ہیں تو کچھ لوگ خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھالیتے ہیں کیونکہ وہ اپنی زندگی کو بے معنی و بے مطلب سمجھنے لگتے ہیں اور موت کے علاوہ انہیں دوسرا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔بہرحال، غربت اور بیروزگاری کے ستم سے پریشان نوجوانوں کے لئے حکومت کو ایک موثرحکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔