
ہا ں ہم کر سکتے ہیں
۔ڈاکٹر سید ابو ذر کمال الدین
9934700848
لوگ کہتے اور مانتے ہیں کہ اج کا دور انفورمیشن
کا دور ہے۔ جبکہ صحیح یہ ہے کہ یہ جھوٹے پروپیگنڈا کا دور ہے۔ اج کی دنیا میں نہ کوی سچ بولتا ہے اور نہ بول سکتا ہے ۔اس ماحول میں ایک۔ عام ادمی کے لیے سچ تک رسائی قریب قریب نا ممکن ہے
موجودہ دور میں مذہبی لوگ سیاسی لوگ صحافی یہ سب سے زیادہ جھوٹے لوگ ہیں اس کے بعد تمام اعلی حکام سے لے کر سڑک کے کنارے بیٹھا بھیکاری سب جھوٹ بول کر اپنا کام چلاتے ہیں۔عدالت میں وکیل جج اور موکل پولیس اہلکار اور دفتر کے بابو سب کے سب جھوٹ میں ناک تک ڈوبے ہوئے ہیں ۔ گویا ہر طرف جھوٹ کی حکمرانی ہے اور اسی کا سکہ چلتآ ہے
عوام چونکہ اسی جھوٹ کے کلچر میں پلی بڑھی ہے اس لیے اس کو بھی جھوٹ راس اتا ہے
لوگ سمجھتے تھے کہ ٹکنولوجی نیوٹڑل ہوتی ہے لیکن لوگ یہ بھول جاتےہیں کہ کسی بھی ٹکنولوجی کا ایجاد کرنے والا اور اس کو چلانے والا کوی انسان ہوتاہے جو اس میں مینی پولیشن کی پوری قدرت رکھتا ہے ۔ لہذا کیمرہ بھی جھوٹ بول سکتا ہے اور آءینہ۔بھی جھوٹ بولتا ہے۔اس فن مہارت گیری میں کوی کسی سے پیچھے نہیں ہے
اگر اپ کو جھوٹی خبریں دیکھنی اور سنی ہو تو تھوڑی دیر ٹیلیویژن کے سامنے بیٹھ جایے۔ اخبار کے اوراق الٹ پلٹ کر لیجیے یا پھر سوشل میڈٰیا کو اسکرول کر لیجیے اپ کا دماغ اور پیٹ جھوٹی خبروں سے اتنا بھر جائے گا کہ دماغ میں خلل اور پیٹ میں بد ہظمی کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے
اج کےpost truth دنیا میں Gaslitingنے real world کو virtual world میں بدل دیا ہے جہاں Artificial intelligence بھی اپ کی مدد نہیں کرسکتا ہے کیونکہ وہ جس algorithm کی محتاج ہے اس کی ڈاٹا فیڈنگ کوی ادمی ہی کرتآ ہے ۔اگر ڈاٹا غلط فیڈ کیا گیا ہے تو رزلٹ غلط ہی اے گا مگر اپ اسکو اس لیے صحیح مانیں گے کیونکہ یہ manipulation اتنے سانٹفک ڈھنگ سے کیا جاتاہے جس کا پتہ لگانا غیر ماہرین کے لیے ناممکن ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اس مکر جال کا حل کیا ہے؟ اس کا جواب اسان نہیں ہے ۔کیونکہ جب تک اپ اس مانگی ہوی دنیا یعنی اس جہان مستعار کو خاکستر کر کے ایک نیء دنیا تعمیر نہیں کریں گے اس فریب دجل سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہے ۔
دنیا۔ کی امامت ہا تھ میں لینے کے لئے علم وساینس کی امامت اپنے ہاتھ میں لینی ہوگی اور تحقیق و ایجاد کو اپنے سانچے میں ڈھالنا ہو گا ۔
اس کے لیے قوم کا منہج بدلنا ضرور ی ہوگا اور اپنے طرز فکر اور طرز عمل میں جو ہر ی تبدیلی لانی ہوگی۔ ہمیں صرف علم نہیں اعلی علم talent and excellence کی آبیاری کے لئے ہمہ جہت جدوجھد کرنی ہوگی ۔
لوگ کہتے ہیں کہ عربوں کے پاس بہت پیسہ ہے لیکن اپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ دنیا کی% 55 دولت پر عیسائیوں کا قبضہ ہے اور سا ری دنیا کے مسلمانوں کا حصہ محض 5 فیصد سے تھوڑا زاید ہے ۔تما م دنیا میں نہیں بلکہ مسلمان ملکوں کے مقابلے عرب دنیا جہاں تیل نکلتا ہے اس کے پاس نسبتاً زیادہ دولت ہے جس میں سعودی عرب کی جی ڈی پی 246.20ٹریلین ہے جو بھارت کی جی ڈی پی سے تھوڑا کم ہے۔ چونکہ اس کی آبادی محض ساڑھے تین کڑور ہے اور بھارت کی آبادی 140 کڑور ہے اس لیے بھا رت کی فی کس آمدنی بہت کم ہے، مگر اتنا دولت مند ملک ہوتے ہوے سعودی عرب کویت قطر جیسے ممالک ترقی پزیر ملکوں کی صف میں گنے جاتے ہیں اور عالمی برادری میں عالمی فورم میں ان کی حیثیت امریکی نو آبادیات کی طرح ہے اور اندرونی امور میں بھی وہ پوری طرح ازاد نہیں ہے ۔ اس نے اپنی انٹرنل اور اکسٹر نل سیکورٹی امریکہ کے ہاتھوں میں دے رکھی ہے۔
یہ ممالک ترقی پزیر ملکوں کی صف میں کیوں اتے ہیں اس کی وجت یہ کہ تیل کو چھو ڑ دیا جائے تو وہ ساری دنیا سے جو درا مدات منگاتے ہیں انکی برآمدات سے کہیں زیادہ ہیں۔
انہوں نے جدید سہولتوں سے آراستہ بڑے اور خوبصورت شہر ضرور بنایں ہیں اور صحرا کو ایک لہلہاتے نخلستان میں تبدیل کردیا ہے جو دیکھنے والی انکھوں کو مسحور کر دیتی ہے ۔ مکر اس میں کوی چیز انکی اپنی نہیں ہے سب مغرب سے خرید کر لای گی ہے۔
اج تک وہ ڈھنگ کی کوی ورلڈ کلاس یونیورسٹی نہیں بناسکے جہاں cutting edge technology پر ریسرچ ہوتاہے اور fundamental science میں کوی break through حاصل کرنے کی کوشش کی گی ہو
ما نگے کی ٹیکنالوجی پر انحصار اج کے دور میں کتنا خطر ناک ہو سکتا ہے اس کا اندازہ ہی لگایا جاسکتاہے ۔Fundamental Research کے لیے Academic freedom بہت ضروری ہے ۔ اس کے لیے اپ کو اپنی ذہنیت بدلنی ہوگی اور محدود ذہنی حصار سے با ہر آنا ہوگا ۔ ملک کی سیاست معیشت اور تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلی لا ے بغیر یہ ممکن نہیں ہے ۔
اگر کوی ملک امریکہ کے ہاتھ میں اپنی دفاع گروی رکھ دے تو وہ کس تعریف سے ایک آزاد ملک قرار دیا جا سکتا ہے اور وہ عالمی فورم پر کیسے اپنا ازاد انہ موقف پیش کر سکتا ہے ۔
یہودی دنیا کی اٹھ ارب آبادی میں محض دو کروڑ ہیں جو عالمی ابادی کا 0.00002 فی صد ہے اور ان کے پاس کل عالمی دولت کا 1.1 فی صد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی فی کس امدنی دنیا کی تمام قوموں سے زیادہ ہے
لیکن دولت سے زیادہ جو چیز عالمی برادری میں پر وقار اور طاقت ور بناتی ہے وہ ان کا علم وفضل ہے جس نے انہیں دنیا کا امام بنا رکھا ہے اور جھک مار کر ساری دنیا کو انکا رہین منت ہونا پڑتا ہے ۔کیسے انہوں نے اپنی ذلت و نکبت کو اپنی طاقت میں تبدیل کردیا ہے یہ مطالعہ کا موضوع ہے کہ اج فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔
بظا ہر دنیا پر عیسائیوں کا سکہ چلتا ہے مگر یہ یہود کے ٹکسال میں ڈھلتا ہے ۔تجارت۔ معیشت اکیڈ مکس اور ریسرچ میں ان کا کوی ثانی نہیں ہے وہ بغیر اعلان کیے صحیح معنوں میں وشو گرو ہیں
بہر حال میں لوٹ کر بنیاد ی مباحث کی طرف اتا ہوں۔
جگر مراد آبادی کا ایک مشہور شعر ہے
با ہمہ ذوق اگہی ہاے رے پستی بشر
سارے جہاں کا جایزہ اپنے جہاں سے بے خبر
جھوٹ سچ کے کھیل میں میرا مو ضوع نہ تو یہودی۔ عیسائی یا دنیا کی دگر اقوام ہیں اور نہ میں عرب دنیا سے مخاطب ہوں۔میرا موضوع ہندوستانی مسلمان ہیں جو تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑے ہیں ۔ ہندوستانی مسلمان ان لوگوں میں ہیں جن پر یہ جملہ صادق اتا ہے کہ لمحوں میں خطا کی تھی صدیوں میں سزا پائی ۔
تاریخ میں یہ بات غلط درج ہے کہ ہندوستان پر اسلام یا مسلمانوں نے سات سو سال حکومت کی۔اسلام یا مسلمانوں کی اس ملک پر کبھی کوی حکومت نہیں تھی۔ہاں بعض مسلمان خاندانوں نے ضرور اس ملک کے طول وعرض پر ایک طویل عرصہ تک حکومت کی تھی۔ وہ مسلمان ضرور تھے مگر کسی تعریف سے ان کی حکومت کو اسلام اور مسلمان کی حکومت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے لہٰذا ہم انکے افعال و اعمال کے ذمہ دار نہیں ہیں۔
اب مسلمانوں میں کچھ لوگ ان کی حکومت کو اپنی تاریخ کا ایک فخریہ باب مانتے ہیں کیوں مانتے ہیں اس کا جواز ان کے پاس ہو سکتا ہے مگر ہمارے پاس اس کا نہ کوی جواب ہے اور نہ کوی جو از موجود ہے
جب نیند کھلی تو معلوم ہوا کہ انگریزوں نے پورے ہندوستان کو اپنے دسترس میں لے رکھا ہے ۔چونکہ عالمی سطح پر ان کا مقابلہ مسلمانوں سے تھا اور ہے اور بھارت میں مسلمانوں کی بڑی ابادی تھی لہذا انہوں نے ہندو مسلم کے نام سے جس سیاست کو ہوا دیا اس کا بنیادی مقصد بر صغیر کے مسلمانوں کی طاقت کو توڑنا تھا۔ یہ چال ایسی گہری اور خوشنما پیراے میں چلی گئی کہ بڑے بڑے چعغادری اس دام بم رنگ زمیں میں خود بخود اکر پھنس گیے۔
تقسیم کے بعد جو مملکت خداداد بنی ایک تو وہ اپنی نظریاتی اور جغرافیائی سالمیت کو محفوظ نہیں رکھ پای اور اج وہاں طوائف الملوکی کا وہی دور ہے جو نادر شاہ کے حملے سے قبل محمد شاہ رنگیلا کے دور میں تھا۔
بہر حال انہوں نے ہمارا جنازہ تو ،1947 میں ہی پڑھ لیا تھا ہم نے بھی ان کا مرثیہ اسی وقت لکھ دیا تھا دونوں طرف ایک ماتمی رشتہ ہے جو ابھی تک بر قرار ہے۔
تقسیم ہند تاریخ کا وہ المیہ ہے جس کے منحوس اثرات سے پچھتر برسوں کے بعد بھی ہم پوری طرح نکل نہیں پائے ہیں۔ بھارت میں جمہوریت ایک shadow y concept ,ہے ایین اور قانون کی حکمرانی ایک واہمہ ہے عملاً ملک میں اکثریت کی تاناشاہی کا دور شروع ہو چکا ہے اور مسلمان اس کے ڈائریکٹ نشانے پر ہیں۔
سیاست کی چآلبازیاں بھی عجب ہیں ۔ایک کمروز اقلیت سے اس سے پانچ گنا بڑی اکثریت کو ڈرایا جا رہا ہے ۔ یہ ڈرانا نہیں ہے بلکہ ڈرنے کا ناٹک کر کے نیے ظلم کا جواز پیدا کرنا ہے ۔بہر حال یہ سب ابھی جاری رہے گا۔ ہمیں ان حالات کو معمول بہ مان کر اپنے سابقہ اور حالیہ تجربات کی روشنی میں ایک نیا راہ عمل طے کر نا ہے
ہم نے اس ملک میں مختلف مسلمان خاندانوں کی حکومت بھی دیکھی ہے، انگریزوں کی عہد غلامی سے بھی گزرے ہیں اور تقسیم کا درد بھی جھیلا ہے اور آزادی کے بعد کے از مایشی حا لات سےبھی گزر رہے ہیں۔ ہمارے پاس جو علم و تجربہ ہے اور آزمائشی حا لا ت کو برداشت کرنے کا مادہ ہے اور عزم و حوصلے کے ساتھ اگے بڑھنے کا دم خم ہے وہ ہم عصر قوموں میں عنقا ہے ہم زمانے کے چلن اور عالمی سیاست۔ کے نشیب وفراز سے اچھی طرح واقف ہیں ہم اس وقت زیادہ suitable position میں ہیں کہ ہم اپنی بگڑی بھی سنوار سکیں اور دنیا کی رہنمائی بھی کر سکیں۔ افسوس کے ہم نے اس پہلو پر کبھی سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا ہمیں اپنی ترجیحات طے کر کے اگے کی پیش قدمی کرنی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ ہماری تر جیہات کیا ہونی چاہیئے۔ ہم اپنی تحفظ کے معاملے میں بہت حساس ہیں اور ذرا سی زخم لگتی ہے تو بلبلا اٹھتے ہیں۔جان مال گھر۔ دوکان عزت ابرو کا تحفظ بنیاد ی مسلہ ہے ۔افسوہس کی بات یہ ہے کہ حکومت اس بنیاد ی ذمہ دار ی کو پورا کر نے میں ناکام ہے۔ اسٹیٹ مشنری پولس اور عدالت یہاں تک کے میڈیا اور سول سوسائٹی بھی ان چیزوں کو معمول کی چیزیں مان کر اس پر دھیان نہیں دیتی ہیں بلکہ فوراً پارٹی بن کر فساد اور فسا دیوں کی طرف دار بن جاتی ہیں۔ اس صورتحال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاھیے ۔ اپنی صفوں میں اتحاد ،اپنے تحفظ کو یقینی بنانے کا احتمام اور لوکل سول ایڈ منسٹریشن سے قریبی رابطہ یہ ضرور ی قدم ہے۔۔ کہتے ہیں
رنج کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کے اساں ہو گییں
ہماری حالت اس شعر کی مصداق ہے ۔اس لیے ماتم نہیں رونا دھونا نہیں کوی مر ثیہ نہیں بلکہ ان حالات کا صبر و عزیمت کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے اور اپنی راہ کھوٹی کیے بغیر اگے بڑھنا ہے
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں ۔حالات یقینا خوفناک اور خطرناک ہیں محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرور ت ہے ۔ خوف کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا ہے ۔جب خوف حاوی ہوجاتا ہے تو رہی سہی قوت بھی ضائع ہو جاتی ہے ۔یہ حا لا ت ہیں اور انہی حا لا ت کا مقابلہ کرتے ہوۓ ہمیں اگے بڑھنا ہے ۔تو ایے دو کام کریں پہلا بند وں کے خوف سے اللہ کی پناہ ما نگیں اور اللہ کا خوف اپنے دل میں پیدا کریں۔دوسرا اس بات کی بھر پور کوشش کریں کہ اپ کی ذات سے دین وملت کو کوی نقصان نہ پہنچے ۔انفرادی سطح پر یہ دو کام کر لیا جائے تو ہم مقامی سطح پر پیدا ہونے والے پچاس فیصد معا ملوں کو روک سکتے ہیں۔ کوی خبر کوی واقعہ اپ کے کانوں تک پہنچتی ہے تو اس پر اعتماد کر نے ا ور اگے پھیلانے سے پہلے اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیں تبھی اس کے بارے میں کوی راے قائم کریں اور اس پر اپنا رد عمل ظاہر کریں۔ اتنا احتیاط موجود حا لا ت میں لا زمی ہے۔
دوسری چیز ملت کی تقدیر کو جو چیز بدل سکتی ہے وہ تعلیم ہے۔اس پر ہم نے خوا طر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔مسجد اور مدرسوں کی اپنی الگ اہمیت ہے ۔اس وقت ضرور ت ہر طرح کے معیاری اسکول کالج اور یونیورسٹی قائم کرنے کی ہے ۔ یقین جانئے اس کا ثواب بھی مسجد مدرسہ بنانے سے کم نہیں بلکہ زیادہ ملے گا کیونکہ یہ دین وملت کے استحکام کے لئے ضروری ہے۔ ہمیں اس بات کا اہتمام کرنا ہے کہ ہمارا کوی بچہ لڑکا اور لڑکی خواہ وہ امیر ہو یا غریب تعلیم کی نعمت سے محروم نہ رہے۔ ہمیں اپنے وسائل کو جوڑ کر اس کے کھانے پینے رہنے سہنے لباس پوشاک وغیرہ کا ایسا انتظام کرنا چاہتے کہ اس کے اندر کسی طرح کی احساس کمتری جگہ نہ پا سکے۔ شخصیت کی تعمیر میں ان باتوں کو کلیدی اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔
مسلمانوں میں ساینسی نقطہ نظر کا فروغ ،ساینسی علوم کا مطالعہ اور ساینس اور ٹکنالوجی کا فروغ ملت کے استحکام اور سر بلندی کی لازمی شرط ہے جس کو پورے ایمانی جزبہ کے ساتھ حاصل کرنے کی ضرور ت ہے ۔اپنے بچوں میں ابتدائی مرحلے میں ہی حساب اور سائنس کے مضا مین میں دلچسپی پیدا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جو لوگ اسکول کالج چلاتے ہیں ان کو بھی ان مضامین کی تعلیم کا معقول انتظا م کرنا جاہیے۔اس کے لئے مسلمانوں کو قومی اور ریاستی سطح پر تعلیم کے لیے ایک فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے ادا ر ہ قائم کرنا چاہیے جو اس کی جمع اور تقسیم کا کام کرسکے۔ اپنے تمام تر وجود ی مسائل کے باوجود مسلمانان ہند میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ پوری دُنیا کی علمی قیادت کر سکتی ہے۔ تھوڑی توجہ اور تھوڑا ا س کواپنی ترجیحات کا حصہ بنانے کی ضرور ت ہے۔
تیسری اہم چیز جو ملت کی بقا میں میل کا پتھر ثابت ہو سکتی ہے وہ تجارت اور ازاد پیشہ نیز امداد باہمی کا فروغ ہے ۔ ایک بات جو مجھے بے حد کھٹتی ہے کہ مسلمانوں میں زیادہ تر لوگ چھوٹے دوکان دار ہیں اور وہ یہ کام کی نسلوں سے کر تے ارہے ہو تے ہیں مگر ان کو تجارت نہیں اتی۔ یہ مارکیٹنگ اور سیلز مین شپ کے گن سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ان کو سامان بیچنا نہیں اتا ۔ ان کے مزاج کا کھردرا پن ایسا ہے کہ کوی معقول ادمی ان کی دوکان میں جھانکنا پسند نہیں کرتا۔ ان کی دوکان کیا ہوتی ہے ایک کباڑ خانہ ہوتاہے ۔ میں ایک بار سعودی عرب گیا وہاں میں نے ایک دوکان سے ساڑی خرید ی ۔سیلس میں نے ساڑی کو موڑ کر میری طرف پھینک دیا کہ تم خود تہ کرلو۔ مجھے بہت غصّہ آیا مگر میرے ساتھ جو لوگ تھے انہوں نے مجھے خاموش رہنے کا مشورہ دیا مگر اس کی تلخی اج تک میرے ذہن میں باقی ہے ۔ میری سمجھ میں یہ بات اگی کہ تجارت کرنے کے باوجود وہ کامیاب کیوں نہیں ہیں۔ بھارت میں یہ صورتحال نہیں ہے لیکن کسٹمر کی عزت اور کسٹمر ڈیلنگ اکثر مسلمان تاجر پیشہ لوگوں کو نہیں اتی ہے ۔کبھی اپ دلی کی جامع مسجد ایریا کے دوکان میں تشریف لے جایں تو اپ پر ان کا روکھا پن واضح ہو جاے گا۔ عام طور پر یو پی ۔ہریانہ اور دیگر ریاستوں کے مسلمان تاجر وں کا یہی حال ہے۔ بہت کم غیر مسلم خرید ار ان کی دوکانوں سے کوی سامان خریدتے ہیں ۔اس میں تعصب کے ساتھ ساتھ تاجر وں کا رویہ اور دوکان کی ظاہری حالت بھی ذمہ دار ہے۔ جبکہ صاحب وسائل مسلمان زیادہ تر غیر مسلم دوکانوں سے سامان خریدنا پسند کرتے ہیں۔ اس وقت جو مسلمانوں کے تجارتی بایکاٹ کا نعرہ دیا جا رہا ہے اس کا نقصان ہندو تاجر وں کو زیادہ ہوگا ۔مسلمان تاجر وں کو کم ہو گا۔ اس لئے کہ بازار میں یہ ٹرینڈ پہلے سے چل رہاہے ۔
مسلمان لڑ کے لڑکیوں کو صرف ڈگری ہولڈر نہیں بننا ہے بلکہ با صلاحیت بننا ہے۔ چوری پیروی اور سہل انگار ی سے باز انا ہے اور سخت محنت کو اپنا قومی شعار بنانا ہے۔
صرف ڈاکٹر انجینئر ہی نہیں بلکہ کامرس۔ اکاؤنٹسی۔ایکونومکس۔ فایننس۔ بزنس مینجمنٹ ۔مار کٹنگ ۔کوسٹ اکآونٹسی۔ چاٹر اکاؤنٹسی۔ اور قانون کے شعبے میں ملت کو۔ بڑی تعداد میں ماہرین کی ضرور ت ہے ۔ بڑے پیمانے پر انڈسٹری اور تجارت کے لیے بڑے سر ماییے کی ضرور ت ہوتی ہے ۔اس کے لیے امداد باہمی کا فروغ ایک اہم قدم ہوگا۔
ہم نے آزادی کے بعد کے پچھتر سال بہت حد تک ضائع کر دیے ہیں۔مو ہوم سہا روں کی بنیاد پر جینا پر لے درجہ کی بے وقوفی ہے ۔ اگر پچھتر سال میں بھی یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی تو اءیندا پانچ سو سالوں میں بھی سمجھ میں نہیں اے گی۔ ہمیں اپنی مد د اپ کے اصول پر اپنی تعمیر نو کر نی ہے۔ میں اقبال کے اس شعر میں تھوڑا تصرف کرتے ہوے کہنا چاہتا ہوں
نہ سمجھوگے تو مِٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانوں
تیری بربا دیوں کے مشورے ھہیں با لا خانوں میں
مجھے نہیں معلوم اگے کیا حالات پیش انے والے ہیں۔صرف یہ معلوم ہے کہ اللہ پر ایمان رکھنے والے مایوس نہیں ہوتے ہیں۔مایوسی کفر ہے۔اس لیے ایک مسلمان کو کبھی اور کسی حال میں مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔میں سمجھتا ہوں کہ انے والے پچیس سالوں میں ہمیں تعلیم اور ملت کے معاشی استحکام کو اپنا ایجنڈا بنا کر ایسی جی توڑ کوشش کرنی چاہئے کہ جب بھارت اپنی ازاد ی کے سو سال منا رہا ہو اس وقت مسلمانوں میں سو فی صد تعلیم ہونی چائیے اور کوی مسلمان غریب نہ ہو ۔ یہ ہم کر سکتے ہیں اور یہ ہمیں کرنا ہے چا ہے ہمارے سر سے قیامت گزر جائے ۔ انگریزی کا ایک مقولہ ہے
Future lies with those who dare.
یعنی مستقبل ان کا ہے جو حوصلہ مند ہیں۔ اور ہمیں اسی حوصلے کے ساتھ اگے بڑھنا ہے ۔