مادھوری سنہا
گیا، بہار
شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں نے بھی ملک کی تعمیر میں برابر کا حصہ ڈالا ہے۔ جہاں صنعتیں اور کارخانے شہر کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں وہیں دیہی علاقہ زراعت کے ذریعے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ ویسے بھی ہندوستان کو زرعی ملک کہا جاتا ہے۔ زراعت کے شعبے نے آزادی سے پہلے اور بعد میں بھی ملک کی معاشی حالت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہندوستان زرعی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ نہ صرف جی ڈی پی میں 15 فیصد حصہ ڈالتا ہے بلکہ ملک کی نصف آبادی کسی نہ کسی طریقے سے زراعت سے منسلک ہے۔ لیکن اس وقت ملک میں زرعی شعبے کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ جہاں ماحولیات کے بدلتے اثرات اس میں نمایاں ہیں، وہیں آبپاشی کے ذرائع کی عدم دستیابی بھی ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ملک میں کچھ ایسی ریاستیں ہیں جہاں دیہی علاقوں میں کسانوں کو آبپاشی میں درپیش مسائل کی وجہ سے زرعی نظام متاثر ہو رہا ہے۔ ان میں سے ایک بہار کے گیا ضلع کا اچھلا گاؤں بھی ہے۔ جہاں کاشتکار آبپاشی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے زرعی کاموں سے منہ موڑ رہے ہیں۔ یہ گاؤں روشن گنج پنچایت کے تحت ہے، جوضلع ہیڈ کوارٹر سے تقریباً 60 کلومیٹر دور اور بلاک ہیڈ کوارٹر بانکے بازار سے تقریباً 13 کلومیٹر دورواقع ہے۔ تقریباً 350 خاندانوں کی آبادی والے اس گاؤں میں اعلیٰ طبقے اور درج فہرست ذات کی مخلوط آبادی ہے۔ دونوں برادریوں کے زیادہ تر خاندان کاشتکاری پر منحصر ہیں۔
لیکن جہاں زراعت سے متعلق تمام سہولیات اعلیٰ طبقے کے لوگوں کو میسر ہیں، وہیں معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ خاندانوں کو زراعت سے متعلق بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں گاؤں کے ایک کسان موہن داس جو درج فہرست ذات سے تعلق رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ ان کے پاس بہت کم رقبے میں قابل کاشت زمین ہے۔ جہاں اس کا خاندان کئی نسلوں سے اس پر کھیتی باڑی کر رہا ہے۔ اس سے اتنی پیداوار ہوتی تھی کہ خاندان کو اناج خریدنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں سے انہیں اس میں مسلسل نقصان کا سامنا ہے۔موہن کہتے ہیں کہ بہار کے دیگر اضلاع کے مقابلے گیا سب سے گرم اور سرد ترین ضلع ہے۔ جس کا براہ راست اثر زراعت پر پڑتا ہے۔ اگرچہ مناسب مقدار میں بارش زراعت سے متعلق رکاوٹوں کو دور کرتی ہے لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں بدلتے ہوئے ماحول نے زراعت کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب بارش پہلے کے مقابلے میں کم ہونے لگی ہے۔ ایسے میں فصلوں کی آبپاشی کی ضرورت ہے۔ لیکن معاشی صورتحال اتنی اچھی نہیں کہ آبپاشی کے اخراجات برداشت کیے جا سکیں۔ ایک اور کسان چھوٹے رام کا کہنا ہے کہ اب انہیں زرعی نقصانات کا سامنا ہے۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے اب ہر سال کھیتوں میں آبپاشی ضروری ہو گئی ہے۔ جس کے لیے پمپ اور ڈیزل کی قیمت بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے پورے بجٹ سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ اب میرے لیے زراعت کی لاگت کا حساب لگانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ گاؤں کے ایک اور کسان سوکیش رام کا کہنا ہے کہ زراعت سے ہونے والا نقصان اتنا بڑھنے لگا ہے کہ اب اس نے اپنے بچوں کو اس کے علاوہ روزگار تلاش کرنے کا مشورہ دینا شروع کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر مشترکہ خاندان کا زندہ رہنا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کئی نسلوں سے ان کا خاندان بھی زمین کے چند ٹکڑوں پر کھیتی باڑی کر رہا تھا لیکن مشترکہ خاندان میں 35 کے قریب لوگ کھاتے ہیں۔ جو ان کی زمینوں پر اگنے والے اناج سے پوری نہیں ہوتی اور اب انہیں بازار سے خریدنا پڑتا ہے۔ایسے میں کاشت کاری کرنے کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے۔
ایک کسان منگل داس کا کہنا ہے کہ اعلیٰ طبقے کے لوگوں کے لیے آبپاشی کے لیے پمپ اور مہنگے ڈیزل کا بندوبست کرنا مشکل نہیں ہے۔ گاؤں کے تقریباً تمام معاشی طور پر خوشحال خاندان آبپاشی کے لیے پمپ کا انتظام کرتے ہیں، لیکن ہم جیسے غریب لوگوں کے لیے یہ بہت مشکل ہے۔ پچھلے کچھ سالوں سے گاؤں میں زراعت کے لیے خاطر خواہ بارش نہیں ہو رہی ہے۔ ایسے میں کسانوں کے لیے پمپ کے ذریعے آبپاشی ہی واحد آپشن رہ گیا ہے۔ اگر کسان اس کے ذریعے آبپاشی نہیں کریں گے تو ان کی فصلیں سوکھ جائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ گیا اور اس کے آس پاس کے اضلاع اور دیہات میں زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے۔ ایسے میں آبپاشی کے لیے پمپوں میں زیادہ ڈیزل خرچ کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی مالی حالت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ منگل کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے معاشی طور پر کمزور خاندانوں کی نئی نسل اب زرعی کام چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں دہلی، کلکتہ، ممبئی، سورت، مراد آباد، لدھیانہ اور امرتسر جا رہی ہے۔ جہاں ایک طرف نئی نسل کا زراعت سے منہ موڑنا تشویشناک ہے وہیں دوسری طرف لگتا ہے کہ اگر وہ یہ کام نہیں کریں گے تو اپنے خاندان کا پیٹ کیسے پالیں گے؟ زراعت سے ان کی امیدیں اب ختم ہو رہی ہیں۔
تاہم یہ امر تشویشناک ہے کہ نئی نسل آبپاشی کی سہولتوں کی عدم دستیابی یا کمزور معاشی حالت کی وجہ سے اسے ترک کر رہی ہے کیونکہ یہ نہ صرف معیشت کا مضبوط ستون ہے بلکہ ملک کی آبادی کا پیٹ پالنے کا ذریعہ بھی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت اس سمت میں کوششیں نہیں کر رہی ہے۔ اس مسئلہ کا حل پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کے علاوہ نابارڈ اور دیگر کئی اسکیموں کے ذریعہ بھی زراعت میں آبپاشی سے متعلق مسائل کو حل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ لیکن صرف منصوبے بنا کر مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ہے۔ بلکہ اسے زمینی سطح پرنافظ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اچھالا اور اس جیسے دیگر دیہات کے غریب کسانوں کے کھیت آبپاشی کی کمی کی وجہ سے متاثر نہ ہوں۔