
اردو زبان کے ٹھیکیدار
مشرف شمسی
میرا روڈ ،ممبئی
ممبئی کے سب سے مہنگے کمرشیل علاقہ بی کے سی میں دس دنوں تک NCPUL کا اردو کتاب میلہ کا اختتام گزشتہ اتوار کو ہوا۔ یا اس کتاب میلہ میں اب تک ہوئے میلے سے کہیں زیادہ خرچ کرنے کی بات سامنے آ رہی ہے اس حساب سے کتاب میلہ میں کتابوں کی فروخت نہیں ہو پائی۔حالانکہ کتاب میلہ کے آخری دن NCPUL کے ڈائریکٹر اور وائس چیئرمین کے سامنے اسٹیج سے میلے میں کتاب فروخت کے اعداد وشمار ایک دِن پہلے تک کا دیا گیا تھا وہ صرف 63 لاکھ کا تھا۔میلہ ختم ہونے کے بعد ممبئی سے شائع ہونے والا روزنامھ انقلاب نے 75 لاکھ کی کتابیں فروخت ہونے کی خبر دی ہے۔NCPUL کی جانب سے کسی آفیسرز نے کتاب فروخت کے آفیشل اعداد وشمار لوگوں کے سامنے نہیں رکھا اور نہ ہی کوئی پریس ریلیز جاری کیا ہے ۔لیکن اسکے باوجود اس 26 ویں کتاب میلہ کو میلہ کے آخری دن سب سے کامیاب ترین میلہ قرار دیا جا رہا تھا ۔اسٹیج سے ایک اور بات کہی گئی جو کافی اہم ہے کہ پہلی بار NCPUL نے کتاب میلہ کو کارپوریٹ شکل دیا ہے ۔کارپوریٹ شکل دینے کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ پیسے خرچ کر کارپوریٹ علاقے میں کتاب میلہ کر دینے سے میلے کی شکل کارپوریٹ ہو جاتی ہے؟ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ اردو کتاب میلہ پہلی بار اردو داں علاقے سے دور رکھا گیا ہے تاکہ دوسرے سماج کے افراد بھی اس کتاب میلے میں شرکت کریں ۔اس حساب سے بھی 26 واں کتاب میلہ پوری طرح ناکام رہا ہے کیوں کہ شاید ہی کوئی غیر اردو داں طبقہ جنہیں لکھنے پڑھنے کا شوق ہے اس کتاب میلے میں نظر آئے ہوں اور کتابیں خریدی ہو۔NCPUL نے اس کتاب میلے کو ریختہ کے پروگراموں کی طرح غیر اردو علاقے میں کرنے کی کوشش کی ۔لیکن ریختہ اپنے سالانہ پروگرام کو کامیاب بنانے کے لئے پورے سال محنت کرتی ہے اور پروگرام میں کسے ترجیحات دی جائے اس میں کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا جاتا ہے ۔ساتھ ہی پروگرام کو کامیاب بنانے کے لئے پوری منصوبہ بندی کی جاتی ہے ۔لیکن NCPUL کے اس پروگرام میں کتاب فروخت کی بنیاد پر کتاب میلہ پوری طرح ناکام رہا ۔اس کی مرکزی وجہ جگہ کا انتخاب تھا۔اگر یہی اردو کتاب میلہ اسی بڑے پیمانے میں میرا روڈ اور وسائی جیسے مضافاتی علاقے میں بھی رکھ دیا جاتا اور جو اسٹیشن کے پاس ہوتا تو اس سے زیادہ کامیاب ہوتا۔کتاب میلہ تک آنے جانے کا اچھا خاصا خرچ اور میلے سے واپسی میں آٹو رکشا اور بس کا انتظار لوگوں کو بھاری پڑ رہا تھا ۔چونکہ انجمن اسلام کے تعاون سے یہ پروگرام ہوا اسلئے انجمن کے اسکولوں کے بچّے اور مدرسین کے لئے ایک ایک دن دو دو اسکول اس پروگرام میں بچوں کو بس کرائے پر لے کر آ ہی رہے تھے ۔اس لیے جو بھیڑ آخری دن دیکھی گئی اور پچھلے نو دنوں میں جو تھوڑے بہت لوگ نظر آئے اس میں انجمن اسلام کے اسکولوں کا بہت بڑا کردار رہا ۔
ممبئی اور ممبئی کے اطراف میں بہت بڑا اردو حلقہ ہے لیکن اردو داں طبقہ نچلے متوسط طبقہ سے آتے ہیں اسلئے ڈیوٹی چھوڑ کر کتاب میلہ میں جانا اور پھر آنے جانے میں بڑا خرچ کرنا مشکل ہوتا ہے۔غیر اردو داں طبقہ بھلے اردو کتاب میلہ سے غیر حاضر نظر آئے ۔چونکہ انہیں اردو نہیں آتی ہے لیکن ہندی اور مراٹھی ادیبوں کو اس پروگرام میں بلا تو سکتے تھے ۔اردو کتاب میلہ کے پروگرام کے حاضرین کو ہندی اور مراٹھی ادب میں کیا چل رہا ہے اسکی معلومات ہوتی۔ہندی اور مراٹھی اسکولوں کے بچوں کے لئے بھی مقابلے رکھے جاتے تو اُن بچوں کے ساتھ ٹیچر اور والدین بھی اردو کتاب میلہ تک آتے اور وہ لوگ کچھ اردو پروگرام کو بھی دیکھ کر جاتے۔کتاب ہو سکتا ہے نہیں خریدتے لیکن اردو ماحول سے دلچسپی تو بڑھتی اور اردو پڑھنے والے بچے بچیوں سے ربط ضبط ہوتا۔لیکن اردو کے نام پر وہی چہرے وہی لوگ آج تک کچھ نیا نہیں دے سکے تو اب اردو کے لیے فروغ کے لئے کچھ نیا کیا کر سکتے ہیں ۔یہ صرف ممبئی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پورے بھارت کے اردو داں طبقے کا مسئلہ ہے ۔ہم وزیر اعظم مودی پر ڈکٹیٹر ہونے کا الزام لگاتے ہیں لیکن اس قوم میں ایک چھوٹی سی مسجد کے ٹرسٹی سے لے کر کسی بڑے ادارے کے ذمےدار کوئی بھی ہو جب تک سانس باقی رہتا ہے کُرسی ترک کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں اور کوئی اسکے خلاف آواز بھی نہیں اٹھا سکتا ہے ۔اسی طرح اردو زبان کے کچھ ٹھیکیدار ہیں جو اپنی چاپلوسی کے دم پر اردو زبان کا بیڑہ غرق کرنے پر تلے ہوئے ہیں بلکہ یہ کہا جانا چاہیئے ان چاپلوسی کی وجہ سے اردو زبان تنزلی کا شکار ہو رہا ہے ۔