Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

by | Jul 4, 2025

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال

نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ آج بھی یہ مہم زندہ ہے، اور مختلف تنظیمیں اپنی اپنی حیثیت میں اس سمت میں پیش قدمی کر رہی ہیں۔
ابتدا جمعیت اہل حدیث کی جانب سے ہوئی، جس نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اور قومی شناخت کی ضرورت کو محسوس کیا، لیکن وہ کوشش مکمل نہ ہو سکی۔ اب بریلوی مسلک اور اسلامی سنگھ جیسے پلیٹ فارمز اس مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
آج یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ نیپال میں مسلم یونیورسٹی کا قیام صرف ایک تعلیمی خواب نہیں، بلکہ قوم کی فکری بیداری، تعلیمی خودمختاری اور آئندہ نسلوں کی تعمیر کا سنگِ بنیاد ہے۔ تاہم، یہ بات انتہائی اہم ہے کہ جو بھی اس تحریک کا بانی یا پیش رو بنے، وہ اس منصوبے کو کسی ایک مسلک، جماعت یا فکری مکتبِ فکر کی نمائندگی تک محدود نہ کرے، بلکہ تمام مسلمانوں کی شمولیت کو اپنی اولین ترجیح بنائے۔ یہی شمولیت اور وسعتِ نظری ہمیں ایک ایسی مسلم یونیورسٹی کے قیام کی طرف لے جائے گی جو واقعی پورے ملتِ اسلامیہ نیپال کی نمائندہ ہوگی۔
اس سلسلے میں ایک اور بات جسے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے، وہ یہ ہے کہ اگر کچھ افراد یا حلقے اس منصوبے کے بارے میں کوئی خدشات، سوالات یا مشاہدات رکھتے ہیں، تو اُنہیں مخالف یا حريف نہ سمجھا جائے۔ ان کی آراء کو سننا، سمجھنا اور ان کا تجزیہ کرنا نہ صرف صحت مند طرزِ عمل ہے بلکہ ایک قومی منصوبے کی کامیابی کے لیے بھی ضروری ہے۔ ہر مسلما ن چاہے اس کا مسلک یا نظریہ کچھ بھی ہواسی خواب کا شریک ہے: ایک باوقار، مؤثر، اور جامع مسلم یونیورسٹی۔
لہٰذا، اس منصوبے پر کام کرنے والے افراد اور اداروں کو چاہیے کہ وہ کمیونٹی کے ایک مخصوص حصے کی بجائے، پوری مسلم برادری کی ضروریات، جذبات اور خوابوں کو مدنظر رکھیں۔یونیورسٹی جیسے قومی درجے کے ادارے کا قیام کسی ایک فرد، جماعت یا ادارے کی کوشش سے ممکن نہیں۔ یہ ایک ایسی جدوجہد ہے جسے قومی اجتماعی شعور اور تعاون کے ذریعے ہی کامیابی کی منزل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم متحد نہ ہوئے تو نہ صرف وسائل ضائع ہوں گے، بلکہ وہ خواب بھی ٹوٹ جائے گا جو ہماری آئندہ نسلوں کے مستقبل سے جڑا ہے۔اب وقت آ چکا ہے کہ ہم مسلکی اور فروعی اختلافات سے بلند ہو کر ایک متحد، شفاف اور مربوط تعلیمی تحریک کی بنیاد رکھیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک مسلم ایجوکیشنل کوآرڈینیشن کونسل یا اسی طرز کا مشترکہ پلیٹ فارم قائم کیا جائے جس میں تمام مسالک، تنظیمیں، علمی ادارے، سماجی کارکن اور تعلیمی شخصیات برابری کی بنیاد پر شامل ہوں۔ یہ پلیٹ فارم اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر طبقہ فکر کی آواز سنی جائے اور فیصلہ سازی میں ان کی نمائندگی ہو۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے منصوبہ بندی، نصاب سازی، تدریسی نظام، فنڈنگ، نمائندگی، اور بین الاقوامی روابط جیسے اہم معاملات کو اجتماعی طور پر منظم کیا جائے۔
دنیا کی کئی معروف یونیورسٹیاں ابتدا میں صرف چھوٹے تعلیمی مراکز تھیں، مگر عزم، جدوجہد اور جامع منصوبہ بندی نے انہیں عالمی معیار کے اداروں میں تبدیل کر دیا۔ علی گڑھ تحریک اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی مثالیں آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کے لیے بھی محض علمی صلاحیت کافی نہیں، بلکہ انتظامی، قانونی، سیاسی اور مالیاتی پہلوؤں پر بھی گہری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ماضی کی ناکام کوششیں، جیسے TU میں اردو کورس کی بندش یا نیپال اوپن یونیورسٹی میں اسلامیات کا محدود تجربہ، ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ نیک نیتی کے ساتھ ساتھ ادارہ جاتی نظم، پائیدار تیاری اور مؤثر ٹیم ورک بھی لازمی ہوتا ہے۔ اگر ہم نے ان تجربات سے سیکھا، اور ہر قدم پر اجتماعی بصیرت، وسعتِ ظرف، اور اتحاد کو ترجیح دی، تو یہ صرف ایک تعلیمی منصوبہ نہیں، بلکہ ایک قومی تحریک میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
آخر میں ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تعلیم صرف روزگار کا ذریعہ نہیں بلکہ قومی تشخص، فکری آزادی، اور سماجی ترقی کی کنجی ہے۔ اگر ہم خلوص، سچائی، اور مشترکہ وژن کے ساتھ آگے بڑھیں، اور ہر مسلمان کوچاہے اُس کا مسلک یا فکر کچھ بھی ہواس سفر کا شریک بنایا جائے، تو وہ دن دور نہیں جب نیپال کی سرزمین پر ایک باوقار، مؤثر اور عالمی معیار کی مسلم یونیورسٹی کا قیام ممکن ہو گا۔ یہ صرف تعلیم کا سوال نہیں، بلکہ قوم کے مستقبل اور شناخت کی بازیابی کی جنگ ہے، جسے ہمیں متحد ہو کر جیتنا ہے۔

Recent Posts

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان کی آٹو موبائل انڈسٹری: مستقبل کے امکانات

ہندوستان کی آٹو موبائل انڈسٹری: مستقبل کے امکانات

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک ) ہندوستان کی آٹو موبائل انڈسٹری دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی صنعتوں میں سے ایک ہے اور آنے والے برسوں میں اس کے مستقبل کے امکانات بہت روشن ہیں۔ 2025 سے آگے، یہ صنعت تکنیکی ترقی، پالیسی اصلاحات، ماحولیاتی تقاضوں اور صارفین کے بدلتے...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...