
تجارت اور سوشل میڈیا: نئے امکانات کی تلاش
ریئل ٹائم این وائی11کانفرنس میں فیس بک‘ ٹوئٹر اورمستقبل کے دوسرے ذرائع ابلاغ کے لئے نئی حکمت عملی کا ظہور۔
بہت سے انٹرنیٹ استعمال کنندگان کیلئے فیس بک ،ٹوئٹر اور فوراسکوائر جیسی آن لائن خدمات محض خبروں سے آگاہ رکھنے اورہونے، تصویریں دیکھنے دکھانے ، دوستوں سے رابطہ رکھنے یا صرف وقت ضائع کرنے کے تفریحی سازوسامان ہیں۔ لیکن کیا یہ خدمات صرف اسی مقصد کیلئے ہیں؟
ویب ماہر ٹونیا رائیز اور ریئل ٹائم کانفرنس کے شرکااس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ نئے میڈیا کے ان تجارتی مہم جوؤں کیلئے ا س طرح کی اختراعات میں تجارت کے طاقت ور آلات بننے کا زبردست امکان موجود ہے۔اور یہ محض آغاز ہے۔
ریئل ٹائم کے سبق
تجارت میں سوشل میڈیا کے استعمال کے امکانات کو تلاش کرنے کے لئے ریئل ٹائم این وائی11کے دوران ڈیلٹا ایئر لائنز ، سٹی بینک،پیپسی کو اور آئی بی ایم جیسی بڑی کمپنیوں کے مقررین یکجا تھے۔ چھوٹی ٹیکنالوجی کی نئی کمپنیوں جیسے ایونٹ برائٹ یا غیر منافع بخش تنظیموں مثلاً نیویارک سٹی کی نیویاریکن پوئٹس کیفے کو بھی اس میںنمائندگی کا موقع ملا۔ بہت سے مقررین نے اپنے ذاتی تجربات کے حوالے سے بتایا کہ اپنی خدمات کی مارکیٹنگ کیلئے وہ کس طرح ٹوئٹر کااستعمال کرتے ہیں۔ دوسرے مقررین نے پینل بحث کے دوران کانفرنس کے شرکا کے سوالوں کے جوابات دئیے۔
ریئل ٹائم کانفرنس کی بانی اور مارکیٹنگ اور ایونٹس کی ایک فرم ماڈرن میڈیاکی چیف ایگزیکٹو افسر رائیز نے بتایا کہ ’’فیس بک ، ٹوئٹر اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع کمپنیوں کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے گاہکوں سے براہ رست ربط قائم رکھ سکیں۔ ‘‘انہوں نے کہا کہ ’’کمپنیاںشروع میں کسٹمرسروس یعنی مسائل حل کرنے اور سوالات کے جوابات دینے کیلئے ان ذرائع کا استعمال کرتی تھیں ۔ مگر انہیں جلد ہی اس بات کا احساس ہوگیا کہ ان ذرائع کو مختلف طریقوں سے استعمال کرکے وہ اپنے برانڈ کو اپنے گاہکوں سے وابستہ رہنے کا موقع دے سکتی ہیں۔‘‘
میک ڈونلڈ میں سوشل میڈیا کے ڈائریکٹر رک ویون نے ریئل ٹائم این وائی 11کے شرکا کے سامنے اس کی ایک نمایاںمثال پیش کی۔ رک ویون نے بتایا کہ ’’ ایک عورت نے ایک ٹوئٹ لکھا کہ اس کے بیٹے کو میک ڈونلڈ کے ’’ ہیپی مِیل‘‘ میں غلط کھلونا ملا ہے۔ اس کمپنی کی سوشل میڈیا ٹیم نے جب یہ ٹوئٹ دیکھا تو اس عورت کو ہاتھ سے لکھے ہوئے ایک کارڈ کے ساتھ درست کھلونابھیج دیا گیا۔ وہ عورت اس رد عمل سے اتنی خوش ہوئی کہ اس نے اس تجربہ کو اپنے بلاگ پرپوسٹ کیا اور اس کمپنی کی پرزور وکالت کی۔‘‘ رائیز نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’ یہ اس بات کی بڑی اچھی مثال ہے کہ ایک کمپنی کس طرح ڈیجٹل دنیا کو حقیقی دنیا سے جوڑسکتی ہے اور کسی ایسی چیز کی تخلیق کرسکتی ہے جس کی گاہک کی نگاہ میںسچ مچ قدر ہو۔
چھوٹے کاروبار اور گاہک
رائیز نے کہا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اپنے کاروبار کیلئے ٹوئٹر جیسی خدمات کا استعمال آپ اسی وقت کرسکیں جب آپ کی کمپنی ایک بڑی کمپنی ہو۔انہوں نے کہا کہ ’’ ان آلات کا استعمال بہت قدیم نہیں ہے۔ آپ اگر ابھی ان کا استعمال شروع کردیں تو آپ پیچھے نہیں رہیں گے۔ بہت سی کمپنیوں نے ابھی تک سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کیا ہے جبکہ ذرائع مسلسل بدل رہے ہیں۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس مرحلے میں نئے ذرائع کے استعمال میں شریک ہورہے ہیں البتہ فرق اس وقت پڑے گا جب آپ آگے بڑھ کر اس کا تجربہ کریں گے۔چوں کہ ہر کاروبار کی اپنی الگ ضرورتیں ہوتی ہیں، اس لئے رائیز کا خیال ہے کہ ٹوئٹر، فیس بک اور اس طرح کے دوسرے ذرائع کے بارے میں جتنی زیادہ واقفیت حاصل کرلی جائے، بہترہے ۔ آن لائن سہولت کو استعمال کرنے کی سمجھ جتنی زیادہ ہو،اچھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’آپ اپنے کاروبار اور گاہکوں کو جتنا سمجھتے ہیں، اتنا کوئی اور نہیں سمجھتا۔ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ آپ اپنی مہارت کیلئے ان ذرائع کو استعمال کرنے کی بہترین صورتیں سچ مچ نکال سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس میں چھلانگ لگائیے ۔ آپ خود بخود واقف ہوتے چلے جائیں گے۔‘‘
رائیز کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوگوں کو سوشل میڈیا میں اپنی تجارت کی موجودگی کو بڑھانے کے معاملے میں محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ ان کا مشورہ ہے کہ ’’پہلے دوسروں کی باتیںسنئے۔ جب آپ کسی کاک ٹیل پارٹی میں یا میل جول کی کسی تقریب میں جاتے ہیں یا کسی ریستوراں میں کھانے کی میز پر بیٹھتے ہیں تو وہاں پہنچتے ہی بولنا نہیںشروع کردیتے۔ آپ تھوڑا سا وقت یہ دیکھنے اور جاننے میں گزارتے ہیں کہ لوگ کیا بات کررہے ہیں۔ اس کے بعد آپ بھی گھل مل جاتے ہیں۔ پہلے ماحول سے واقفیت حاصل کیجئے اور ماحول کو اس معاملہ میں اپنی رہنمائی کرنے دیجئے کہ آپ اپنی بات کہنے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے کیا کرتے ہیں۔‘‘
آخر میں رائیز نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ٹوئٹر اور فیس بک جیسے ذرائع نہ صرف تجارتی مہم جوؤں کو بلکہ گاہکوں کو بھی تقویت بخشتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’آپ ذ رااس بات پر غور کریں کہ تجارت کس طرح کئی صدیوں میں ترقی کرتی ہوئی یہاں تک آئی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ آپ بازار جاتے تھے اور اس قصاب کو پہچانتے تھے جو آپ کیلئے گوشت مہیا کرتا تھا اور اس کسان کو بھی جانتے تھے جو آپ کیلئے غلہ اگاتاتھا۔ گزشتہ کچھ صدیوں میں اشیا کی قدر میں بڑی افزائش ہوئی ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں میدان میں آگئی ہیں جو مثال کے طور پر کسی ایک کسان کے مقابلے میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی ہیں لیکن یہ کمپنیاں انفرادی طور پر کم توجہ مرکوز کرتے ہیں ۔ البتہ اب انسانی رابطہ پھر سے واپس آگیا ہے اور وہ ہے اپنے گاہکوں کو سچ مچ سمجھنے کی کسی کمپنی کی اہلیت۔‘‘
رائیز کو یقین ہے کہ جب کمپنیاں اپنی تائیدکرنے والی برادریوں کی باتیں سنتی ہیں اور اپنے گاہکوں کی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے خود کو منظم کرتی ہیں تو کامیاب ہونے کی پوزیشن سے قریب آجاتی ہیں۔انہوں نے کہا ’’کوئی بھی اچھی کمپنی بیداری اور ربط کی خواہش مند ہوتی ہے۔ اب لوگوں کے پاس اس کام کے کرنے کے حیرت انگیز آلات ہیں۔‘‘