شراکت داری کا کاروباراہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے
اداریہ

گجرات کا ایک مسلم تاجر گھرانہ اب ممبئی میں اپنی قسمت آزما رہا ہے۔تجارت میں کامیاب گرفت کی وجہ سے اسے گجرات میں اہمیت حاصل ہے۔لیکنخلیجی ممالک میں بھی انہوں نے اپنے مضبوط قدم جما دئے ہیں۔مسلم تاجر گھرانے کے فرم میں بیشتر ڈائرکٹرس غیر مسلم ہیں لیکن یہ تمام افراد بڑی ہی کامیابی کے ساتھ تجارت کو فروغ دے رہے ہیں ۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جہاں یہ خاندان اپنے حلقے میں مشہور ہے اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہا ہے وہیں اس فرم میں شامل دیگر غیر مسلم حضرات بھی اپنے اپنے حلقہ اثر میں جانے اورپہچانے جاتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لئے یہ لوگ نہ صرف اپنے اپنے حلقہ اثر کا بھر پور فائدہ اٹھارہے ہیں بلکہ بڑی ہی کامیابی کے ساتھ تجارتی اثر و رسوخ بھی حاصل کر رہے ہیں۔اسی طرح ایک دوسری کارپوریٹ کمپنی ہے جس کے مالکان تو غیر مسلم ہیں لیکن کمپنی کی تمام طرح کی ذمہ داری ایک کلمہ گو بھائی کے سپرد کی گئی ہے۔موصوف بھی کمپنی کی ساکھ کو بنائے رکھنے کے لئے دن رات محنت کرتے ہیں اور اپنی تمام طرح کی صلاحیتیں قربان کرتے ہیں۔یہ مثالیں صف ایک یا دو نہیں ہیں بلکہ پورے ہندوستان میں ایسی ہزارہا مثالیں مل جائیں گی جہاں لوگ مل جل کر تجارت کر رہے ہیں اور کسی طرح کا کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے۔دراصل تجارت وہ منڈی ہے جہاں تمام طرح کی عصبیتیں مارکیٹ کی ضرورتوں کے پیش نظر پیچھے چھوڑ دی جاتی ہیں کیونکہ ہر ایک کو ہر ایک کی ضرورت ہوتی ہے اور مل جل کر ہی کاروبار ترقی کرتا ہے۔
دراصل شراکت داری کا کاروبار آج کل بڑی ہی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔جبکہ شراکت داری کے کاروبار کے ذریعہ لوگ بڑے بڑے کاروبار میں قدم رکھ رہے ہیں۔حالانکہ مثل مشہور ہے کہ سانجھے کی ہانڈی چوراہے پر پھوٹتی ہے،لیکن موجود ہ ماحول میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ کارپوریٹ کا کاروبار شراکت داری کی ہی وجہ سے پھل پھول رہا ہے۔عرف عام میںیوں تو شراکت داری کے کاروبار کی بہت زیادہ پذیرائی تو نہیں کی جاتی لیکن موجودہ تجارتی ماحول اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ بغیر شراکت داری کے جولوگ کام کر رہے ہیں وہ بہت زیادہ منافع حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ہندوستان میں جن لوگوں کو ایف ڈی آئی پر اعتراض تھا ان کا کہنا بھی یہی ہے کہ چونکہ ایف ڈی آئی کے ذریعہ جب وال مارٹ اپنی کثیر سرمایہ کاری کے ساتھ آئے گا تو ہمارے چھوٹے تاجر اس کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے اور ہماری عام برادری اس سے متاثر ہوگی۔دراصل ایف ڈی آئی کثیر سرمایہ کاری کے ساتھ وہ تمام مصنوعات سستے داموں بیچے گا جو ہماری عوام چھوٹے سرمایہ کاری کے ذریعہ بیچا کرتی ہیں،لہذا ایف ڈی آئی کی منظوری کے بعد اب اس بات کی ضرورت مزید محسوس کی جانے لگی ہے کہ مشترکہ تجارتی ماحول کو فروغ دیا جائے اور کئی حضرات اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی سرمایہ کاری کر کے کسی بڑے فرم کی بنیاد ڈالیں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا جواب دیں۔
دراصل مشترکہ بزنس کے نہ صرف تجارتی فائدے ہیں بلکہ سیاسی طور پر بھی اس سے ایک ایسے سماج کی تعمیر میں مدد ملتی ہے جو کثیر جہتی اور کثیر ثقافتی ہو۔ہندوستان گنگا جمنی تہذیب کی علامت رہا ہے۔ یہ سونے کی چڑیا اس وقت تھا جب لوگ ساتھ مل کر اس کا نام روشن کر رہے تھے۔جب جب لوگوں نے مل جل کر دشمنوں کے خلاف صف آرائی کی ہے اس وقت ہندوستان فاتح رہا ہے لیکن جب کبھی کسی اور سیاسی مصلحت کا لبادہ اوڑھا گیا ہے تو اس وقت اس کی نیّا منجدھار میں پڑ گئی ہے۔کیونکہ سیاسی طور پر اگر ہم ہندوستان کا جائزہ لیں تو ان ریاستوں کی کار کردگی میں بہتری ملے گی جہاں بقائے باہم کا اصول قائم رکھا گیا ہے جبکہ ان ریاستوں نے بتدریج تنزلی کا سفر طے کیا ہے جنہوں نے بقائے باہم کے اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے مسموم فضا پیداکرنے کی کوشش کی ہے۔گجرات و مہاراشٹر کے مقابلے بہار کے جے ڈی پی میں جو اچھال دیکھنے کو مل رہا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں آپسی میل جول کے ساتھ لوگوں کے سیاسی اور سماجی روابط بڑے مضبوط رہے ہیں۔
یہاں اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہندوستان کے بنیادی خمیر میں تجارت رچا بسا ہے،اگر ہم ابتدائی تاریخ کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ ہندوستان کی تلواریں نہ صرف عالمی منڈی میں اپنا علحدہ مقام رکھتی تھیں بلکہ یہاں کے مصالحہ جات کی پوری دنیا میں دھوم مچی ہوئی تھی۔ہندوستانی تلواروں کا ذکر نہ صرف عرب شعرا نے اپنے کلام میں کیا ہے بلکہ ہندی تلواروں کی جا بہ جا تعریف کی گئی ہے۔عرب و ہند کے مابین تعلقات میں سب سے پہلے تجارت نے ہی کلیدی کردار ادا کیا تھااور آج بھی تجارت ہی دونوں کو قریب رکھے ہوئے ہے۔اگر یہاں پر یہ بات کہی جائے کہ ہندوستان میں اسلام کے فروغ میں تجارتی روابط نے اہم کردار ادا کیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
اس وقت مسلمانوں کے مابین جو برادریاں مشترکہ کاروبار کر رہی ہیں ان میں گجرات کی مُومَن برادری( چلیا برادری) کا نام خصوصی طور پر لیا جا سکتا ہے ۔ہوٹل کے کاروبار میں اس برادری کا Chainگجرات سے ممبئی تک پھیلا ہوا ہے، مشترکہ کاروبار میں اس برادری نے جو مثال قائم کی ہے اس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔ایک چھوٹے سے ہوٹل میں بھی بیس پچیس لوگوں کی شمولیت اورایک فیصد سے لے کر نینانوے فیصدتک کے سرمایہ میں منافع کا حساب و کتاب رکھنا اور ایک ایک روپئے کا منافع بھی آپس میں شیئر کرنا دراصل ان کی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ہوٹل کے کاروبار نے اس پوری برادری کی الگ ہی شناخت قائم کردی ہے۔خدا جانے یہ درست ہے یا نہیں البتہ برادری کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ جب بچے کی پیدائش ہوتی ہے تواسی وقت اس کا شیئر کسی نہ کسی دکان میں طے کر دیا جاتا ہے اور جب وہ ہوش سنبھالتا ہے تو اپنے سرمائے کی حفاظت کرتا ہے۔
چونکہ ہندوستانی بازار میں میچول فنڈاسی ضرورت کو پورا کر رہا ہے جو شراکت داری کا کاروبار کر رہے ہیں تو ہمیں اس باب میں یہ ضرور جاننا چاہئے کہ آخر مسلمانوں کا اپنا میچول فنڈ کیوں نہیں ہے ۔اگر آپ بازار کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ ہندوستانی بازار میں میچول فنڈس کا سیلاب آیا ہوا ہے ۔ ماضی میں کبھی صرف یونٹ ٹرسٹ آف انڈیا ((UTIکو ہی اس بازار کا واحد شہنشاہ سمجھا جاتا تھا ۔لوگ یو ٹی آئی کے سہارے ہی اپنے حصص خریدتے یا فروخت کرتے تھے ۔لیکن وقت گزرتے ساتھ ہی جب عام سرمایہ داروں نے اپنی اپنی کمپنیاں قائم کرنا شروع کر دیں تو اس میدان میں ایک باڑھ سی آگئی لیکن المیہ یہ رہا کہ مسلمانوں کے چند ایک اصحاب کو چھوڑ کر نہ تو کسی نے اس ضمن میں کوئی کوشش ہی کی اور نہ ہی کسی طرح کی اطلاعات سے ملت کو واقف کرایا۔نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا سرمایہ بھی ان ہاتھوں میں چلا گیا جو اسے کسی اورکام میں استعمال میں لا رہے تھے۔
اس پوری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ مشترکہ سرمایہ کاری اب ہندوستان کی ضرورت کے ساتھ مسلمانوں کی بھی ضرورت بن گئی ہے۔تجارت ہماری خمیر میں رہی ہے اور ہمارے اسلاف نے تجارت کے ذریعہ ہی اپنے پیغام کو عام کیا ہے۔اس وقت جبکہ پوری دنیا میں لوٹ مچی ہوئی ہے اور بڑا سرمایہ کار چھوٹے تاجروں کو دباتا جارہا ہے ۔مالداربڑے سرمایہ دار بنتے جارہے ہیں جبکہ غریب غربت کی انتہا کو پہنچتا جا رہا ہے توچھوٹے تاجر سسکیاں لے رہے ہیں۔کسان اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے پر مجبور ہے،اس کی محنت کا اسے جائز حق نہیں مل رہا ہے اور بڑے ساہوکار کسان کی محنت پر اپنی تجوریاں تو بھر رہے ہیں لیکن محنت کشوں کا جائز حق نہیں دے رہے ہیں۔جب معاملات اس حد تک پیچیدہ ہوں تو اصحاب خیر کی ذمہ داریوں کا بڑھ جانا فطری ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ مسلمانوں کا وہ طبقہ جو صاحب ثروت ہے اپنی تجارت میں ان لوگوں کو بھی شامل کرے جو پوری ایمانداری کے ساتھ شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہوں جبکہ ایسے افراد کی ذہنی و فکری رہنمائی کرے جو تجارت کا گُر جاننا چاہتے ہوں۔
دراصل کامیاب تجارت مکمل ایمانداری کی متقاضی ہے جن لوگوں نے بھی محنت و جانفشانی کے ساتھ آج بڑے مقام کو حاصل کیا ہے انہوں نے سب سے پہلے لوگوں کا اعتماد ہی جیتنے کی کوشش کی ہے۔ہماری نئی نسل یہ سمجھتی ہے کہ شارٹ کٹ کاراستہ اختیار کر کے مالدار بنا جا سکتا ہے لہذا بسا اوقات مفروضہ شارٹ کٹ نہ صرف اس کی زندگی اجیرن کر دیتی ہے بلکہ سماج و معاشرے میں بھی اس کی ذلت و خواری کا باعث بن جاتی ہے۔ لہذا ہمارے بڑوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ آخر ہم کس طرح اپنے بچوں کی تربیت کریں کہ وہ نہ صرف لانگ ٹرم پلاننگ کر کے آگے بڑھیں بلکہ پوری ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ ایسا سازگار ماحول بنائیں کہ ہر آدمی اس کی بڑائی کے لئے دعا کرے اور نہ صرف دعا کرے بلکہ اگر ممکن ہو تو مذکورہ نوجوان کے ساتھ شرکت دار بن کر کاروبار کی خواہش رکھے اور عملی طور پر اس کا مظاہرہ کرے ۔یقیناًجب یہ ماحول ہم اپنے ارد گرد تیار کر لیں گے تو نہ صرف اس کے دور رس اثرات سے مستفید ہوں گے بلکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی ہماری بہتری کے لئے دعا گو ہوں گی۔کاش ہم مشترکہ سرمایہ کاری کی وکالت پوری ایمانداری و دیانت داری کے ساتھ کرتے؟