عالمی کساد بازاری کے بعد لوگوں کو سودی نظام کا کھوکھلا پن سمجھ میں آیا ہے:مفتی برکت اللہ

مفتی برکت اللہ عبد القادر ابراہیم کالج برطانیہ میں لیکچرر اور فری فون اسلامک ہیلپ لائن 08003281408کے منتظم ہیں دار العلوم دیوبند سے مفتی کی سند حاصل کرنے والے برطانیہ میں مقیم ہند نژاد اسلامی اسکالر نے اسلامی معاشیات پر اختصاص حاصل کرنے کے لئے برطانیہ سے1992میں ایم فل کیا جس کے بعد ہی بر طانو ی اسلامی شریعہ کونسل میں بطور جج خدمات انجام دینا شروع کیا ۔ یوروپ و برطانیہ میںاسلامی معاملات پر مفتی اتھاریٹی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔پوری دنیا میں پھیلے کئی ایک بینکوں مثلاً یونائیٹیڈ نیشنل بینک ،عرب بینکنگ کارپوریشن لندن،اسلامی بینک برطانیہ وغیرہ میں بطور مشیر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جب وہ مہاراشٹر کے شہر بھیونڈی تشریف لائے تودانش ریاض نے ان سے تفصیلی گفتگو کی . پیش ہیں اہم اقتباسات
سوال: آپ نے کس ماحول میں آنکھیں کھولیں،خاندانی پس منظر کیا رہا ہے؟
جواب: میرا آبائی وطن اتر پر دیش میں ضلع پرتاپ گڈھ کا احمد نگر گائوں ہے لیکن تلاش معاش کے لئے میرے والد عبد القادر سردار نے جب ممبئی کا رخ کیا تو انہوں نے مہاراشٹر کے شہر بھیونڈی کو اپنا مسکن بنا لیا۔چونکہ بھیونڈی کپڑوں کی صنعت کے لئے مشہور ہے اور بڑی تعداد میں یہاں پاور لوم چلتے ہیں لہذا جب والد صاحب یہاں آئے تو انہوں نے لوم ورکر کے طور پر ہی کام کرنا شروع کیا تھا۔لیکن جب ضعیفی کا دور شروع ہوا اور کام کاج میں کمزوری لاحق ہونے لگی تو بڑے بھائی امانت اللہ عبد القادر نے تمام ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ تعلیم کے لئے مجھے ہندوستانی مسجد(بھیونڈی)میں بٹھایا جانے لگا۔ہم چار بھائیوں میں دو بھائیوں نے علم دین حاصل کیا جبکہ دو بھائی ڈاکٹر بنے ،تعلیم کے سارے اخراجات ہمارے والدین نے اٹھائے ، بڑے بھائی امانت اللہ (مرحوم) بھائیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے میں بڑی مدد کی۔
سوال: زندگی کے سفر میں آگے بڑھنے میں کن چیزوں نے مہمیز کا کام کیا؟
جواب: بھیونڈی کی ایک مشہور اور فعال شخصیت آر کے عبداللہ صاحب نے میری زندگی پر گہرے اثرات ڈالے ہیں،یہ 1975؁ کی بات ہے جب میں ہندوستانی مسجد میں پڑھاتا تھا کہ ایک دن آر کے عبداللہ صاحب عربی زبان میں تحریر کردہ ایک خط لے کر جو شاہ فیصل مرحوم پر کتاب کے بارے میں تھا میرے پاس آئے اور اس کا ترجمہ جاننا چاہا بعد میں آپ نے اس کا جواب بھی تحریر کروایا۔چونکہ اس وقت فلسطین کا معاملہ عالم اسلام میں تمام لوگوں کو پریشان کئے ہوئے تھا لہذا وہ خط بھی فلسطین کے موضوع پر ہی تھا۔انہیں دنوں کی بات ہے کہ ایک بنگالی نوجوان ساتھی محمدمطلب نے اپنا پاسپورٹ بنانے کے لئے مجھ سے قرض مانگا اور ساتھ میں میرا بھی پاسپورٹ بنوادیا ۔لہذا آر کے عبدللہ صاحب کو جب یہ بات معلوم ہوئی کہ میرے پاس پاسپورٹ موجود ہے تو 1976؁ میں ایک طرف کا کرایہ ساڑھے تین ہزار روپئے دے کر مجھے سعودی عرب حج کے لئے بھیجا تاکہ میں فلسطین کے کاز کو تقویت پہنچا سکوں ۔یہ تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں کہ جب اندرا گاندھی نے نس بندی سے متعلق حکم صادر کیا تو میں دیوبند گیا اور اس حکم کے خلاف فتویٰ لے آیا اور اپنی مہم شروع کردی نتیجتاً میری ملازمت چلی گئی اور میں خالی ہوگیا ،لہذا جب آر کے عبداللہ صاحب کا آفر آیا تو میں تیار ہوگیاچونکہ اس وقت میری شادی بھی نہیں ہوئی تھی لہذا میں حج پر گیا اور وہیں رک گیا۔یہاں یہ تذکرہ ضروری ہے کہ آجکل امیگریشن کے نام پر جس قدر چیکنگ ہوتی ہے اس وقت ایسا نہیں تھا بلکہ ہم لوگ جب ائر پورٹ پر اترے تو اپنا پاسپورٹ امیگریشن کائونٹر پر چھوڑ کر ہی چائے پینے چلے گئے تھے اور جب چائے پی کر آئے تو اپنا سامان ،پاسپورٹ وغیرہ لے کر گئے۔چونکہ فلسطین کے موضوع پر ایک ہزار کتابیں آر کے عبد اللہ صاحب نے قرض لے کر چھپوائی تھیں اور اسے پانی کے جہاز سے بھیجا تھا جسے مجھے وہاں فروخت کرنا تھا لیکن میں ہوائی جہاز سے چلا آیا تھا لہذا حج کی ادائیگی کے بعد میں نے وہیں اپنا کاروبار شروع کردیا۔جب ہندوستان سے بھیجی ہوئی کتابیں وہاں پہنچیں اور کمال ھلباوی صاحب نے اپنا نوٹ لکھ کر یہ تصدیق کردی کہ یہ کتابیں اچھی ہیں تو سعودی حکومت نے اسے خرید لیااور پھر میں 1977؁ میں حج کر کے واپس آگیا۔سعودی عرب میں قیام کے دوران ہی جناب کلیم صدیقی مرحوم(لیڈرمسلم پارلیمنٹ)سے ملاقات ہوئی جنہوں نے نہ صرف سعودی کا اقامہ دلوایا بلکہ مجھے لندن آنے کا مشورہ دیا اور انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنے کی تلقین کی بالآخر میں ان کے وظیفہ پر لندن چلا گیا، اسی دوران شادی ہوئی اور میں اسکالر شپ پر ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ میں کامیاب ہوتا گیا۔انٹر میڈیٹ میں جب میرا وظیفہ ختم ہوگیا تو نجات اللہ صدیقی صاحب نے اور آر کے عبد اللہ صاحب نے ابو ظہبی وزارت تعلیم میں خط لکھا اس وقت وہ وہیںپر مقیم تھے لہذا دوبارہ انڈر گریجویٹ کے لئے مجھے ابو ظہبی سے اسکالر شپ ملی۔جبکہ IIITنے مجھے پوسٹ گریجویٹ کیلئے اسکالر شپ دیا۔میں نے آئی ٹی میں پوسٹ گریجویشن کیا ساتھ ہی سافٹ ویئر کا بزنس شروع کردیا۔امریکہ کے کونے کونے کا دورہ کرکے اسلامی سافٹ ویئر کو متعارف کراتا تھاکیونکہ اس وقت محض 500ڈالر میں پورے امریکہ کا دورہ کر سکتے تھے۔
سوال: اسلامی فائنانشیل سروسیز اور اسلامی بینکنگ کے مابین کیا فرق ہے؟
جواب: بینکنگ فائنانشیل سروسیزکا حصہ ہے ، بینکنگ میں بھی کئی درجے ہیں۔ فائنانشیل سروسیزمیں اسلامی انشورنش، اور بچت کی سرمایا کاری وغیرہ داخل ہیں۔
سوال: ہندوستان میں اسلامی بینکنگ کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: دراصل اسلامی بینکنگ کی اصطلاح استعمال کرکے اس قدر منفی ماحول پیدا کر دیا گیا ہے کہ ماضی قریب میں اس کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں لہذا ہمیں بہت ہی آہستگی کے ساتھ اس جانب قدم بڑھانا چاہئے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ فوری طور پر اس جانب کوئی بھی نہیں آئے گا کیونکہ ابھی لوگوں میں وہ ماحول نہیں پیدا ہوا ہے جس کی ضرورت ہے۔لہذا انتہائی نچلی سطح سے ہمیں اس کی ابتداء کرنی چاہئے۔برطانیہ میں ہول سیل اور انشورنس میں دو کمپنیاں ناکام ہو چکی ہیں کیونکہ زمینی حقائق نے خود ہی بزنس بند کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں بھی جو لوگ آئیں وہ Long Termپلاننگ کر کے آئیں کیونکہ ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہئے۔شریعہ فائنانس کی کامیاب کہانیاں صرف خلیجی ممالک میں دیکھنے کو مل رہی ہیںچونکہ وہاں ایک ماحول ہے اور لوگوں کا رجحان ہے لہذا وہ ایسا کر رہے ہیں۔
سوال: آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں غیر مسلم حضرات اس جانب زیادہ توجہ دے رہے ہیں؟
جواب:معاملہ یہ ہے کہ پہلے سے ہی Ethical Financeکا تصور عام ہے جس میں سرمایہ کار،منتظم،اور خریدار سب کے سب غیر مسلم رہے ہیں لہذا جب شریعہ پروڈکٹ آیا تو انہیں اس کی خبر پہلے سے ہوگئی اور انہوں نے اس کو بہتر طور پر ڈیزائن کیا لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلمان کمیونٹی ترقی کے میدان میں پیچھے ہے ،مسلمانوں کے مابین فائنانشیل مینجمنٹ کا کلچر عام نہیں ہے ،غیر مسلم حضرات بہت ہی چابکدستی سے اپنا اشتہار کر رہے ہیں صرف ٹاٹا کا ہی جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ ان کے پاس 17 برس کا ڈاٹا موجود ہے جو کسی اور کے پاس نہیں ہے ۔چونکہ جتنا بڑا ہمارا شریعہ فنڈ ہے اتنا ہی بڑا Ethical Fundبھی ہے شریعہ فائنانس کا انٹر نیشنل شریعہ فنڈ قائم کیا گیا ہے،انٹر نیشنل ریسرچ اور Convocationکی بھی تیاریاں چل رہی ہیں لہذا لوگوں کا رجحان تو بڑھا ہے۔
سوال: آخر کیا وجہ ہے کہ بہت سارے مسلم حضرات اس جانب متوجہ نہیں ہو رہے ہیں؟
جواب: ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام کا پیغام آفاقی ہے ۔لوگوں کی ذاتی زندگیاں ہیں اور لوگوں کی سماجی زندگیاں ہیں ۔شریعت میںزور زبردستی نہیں ہے۔ جو بھی چاہے شریعہ فنڈ میں حصہ لے سکتاہے۔اسکا فائدہ اس کو ملے گا چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم۔
سوال: تمام تر کوششوں کے باوجود ہم وہ پیغام عام کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں جو اسلامی معیشت کو تقویت پہنچا سکے آخراس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: مسلمانوں نے اسلام کی تصویر ایسی پیش کی ہے کہ جس سے لوگوں میں بے چینی پائی جارہی ہے حالانکہ اسلام کا پیغام آفاقی ہے اور وہ کسی ایک کمیونیٹی کے لئے نہیں آیا ہے دراصل ایک Customerایک Investorاور ایک Managerیہ دیکھتا ہے کہ کیا وہ مستفید ہو رہا ہے یا نہیں۔ جب تینوں برادریاں مستفید ہو رہی ہوں تو لوگوں کا رجحان اس جانب بڑھتا ہے ،اس وقت بہتیرے غیر مسلم ممالک ایسے ہیں جو اسلامی دنیا سے محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں کیونکہ وہ فتویٰ ورلڈ سے خوفزدہ رہتے ہیں۔لہذا جیسے ہی اسلامی فائنانس کی بات آتی ہے تو وہ پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیںلیکن جب ہم کارپوریٹ دنیا کو یہ بات سمجھا لے جائیںگے کہ اس سے کوئی پریشانی ہونے والی نہیں ہے اور اگر وہ اسے قبول کر لیں تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم عام لوگوں کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔لیکن یہاں یہ تذکرہ ضروری ہے کہ جو لوگ ابھی میدان میں اتر چکے ہیں ان کا فائدہ یقینی ہے۔
سوال: عالمی کساد بازاری کے بعد لوگ اسلامی معیشت کی طرف زیادہ متوجہ ہوئے ہیں،آخر کیوں؟
جواب:عالمی کساد بازاری کے بعد لوگوں کو سودی نظام کا کھوکھلا پن سمجھ میں آیا ہے،اس کی کمزوریوں سے لوگ واقف ہوئے ہیں۔IMFاور ورلڈ بینک نے بھی اسلامی بینکنگ کی طرف توجہ دی ہے اور اس جانب ریسرچ کیا ہے مثلاً اسٹاک مارکیٹ اور ٹریڈنگ میں جو سٹہ بازی ہوتی تھی اس کو ختم کرنے کی کوشش ہورہی ہے امریکہ و برطانیہ میں تو شارٹ سیلنگ کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔اور یہ شریعت کی وجہ سے ہی ہوا ہے لہذا اب لوگ شریعہ بزنس کا مطالعہ کر رہے ہیں۔High Riskایریا میں بھی لوگ ریسرچ کر رہے ہیں،اگر سٹہ بازی نکال دیں تو اسٹاک مارکیٹ بھی درست ہو سکتا ہے۔
سوال: پہلے بھی اسلامی معیشت و تجارت کے لئے کافی کوششیں کی گئی تھیں لیکن وہ ناکام ثابت ہوئیں ،لہذا اب لوگ کیونکر امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں؟
جواب: ناکامی سے ہمیں گھبرانا نہیں چاہئے،ناکامی تو زندگی کا ایک مرحلہ ہے البتہ جذباتی انداز میں جو کام کئے گئے تھے اس سے پر ہیز کرنا چاہئے ،ہمیں کارپوریٹ ورلڈ کو دیکھ کر کام کرنا چاہئے ۔نا تجربہ کاری اور عدم شفافیت کی وجہ سے بھی معاملات خراب ہوئے تھے ،اس وقت ناتجربہ کاری کے ساتھ یہ Regulated بھی نہیں تھا جبکہ اسلام کانام بھی بیجااستعمال کیا گیا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کومایوسی کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب ماحول بدل رہا ہے۔ اب ریگولیٹری ادارے ہیں لوگوں کے اندر فہم و فراست ہے جبکہ دنیا کا رخ بھی اس جانب ہے اسلئے ناکامی اور بد انتظامی کے امکانات کم ہی نظر آتے ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *