کیا ’’شٹ ڈائون‘‘ نے امریکی معیشت کو نیم مردہ کردیا ہے؟

— امریکی صدر براک اوباما ’’شٹ ڈاؤن‘‘ کے خاتمے کے بعد بھی خوش نظر نہیں آرہےہیں جس کا واضح ثبوت اس وقت ملا جب انہوں نے پریس کانفرنس کو خطاب کیا ۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ’’ حکومت کے 16 روز تک جاری رہنے والے جزوی شٹ ڈاؤن نے امریکی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکی عوام اپنے فیصلہ ساز اداروں سے عاجز آچکے ہیں۔گوکہ صدر اوباما کا یہ بیان امریکی سینیٹ میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ رہنماؤں کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کے ایک روز بعد سامنے آیا جس کے نتیجے میں امریکی کارِ سرکار 16 روز کی جزوی بندش کے بعد مکمل طور پر بحال ہوگیا ۔لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف موجودہ حکومت پر دبائو بنانے کے لئے کیا گیا تھا۔

Obama

واضح رہے کہ سمجھوتے پر اتفاقِ رائے کے اعلان کے بعد کانگریس کے دونوں ایوانوں نےبل کو منظوری دی تھی جس کے فوراً بعد صدر اوباما نے دستخط کرکے اسے قانون کی شکل دیدی تھی۔سمجھوتے کے تحت امریکی حکومت کو 15 جنوری 2014ء تک درکار فنڈز فراہم کردیے گئے ہیں جب کہ سرکار کی جانب سے لیے جانے والے قرضوں کی حد میں بھی اضافے کی منظوری دیدی گئی ہے جس کے بعد امریکہ کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ 7 فروری تک ٹل گیا ہے۔اس مدت کے دوران میں امریکی قانون ساز بجٹ سے متعلق اپنے اختلافات دور کرنے کے لیے مذاکرات جاری رکھیں گے۔
صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما کا کہنا تھا کہ شٹ ڈاؤن سے امریکہ کے دشمن خوش اور دوست پریشان تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شٹ ڈاؤن بحران کا خاتمہ کسی کی ہار اور جیت کا معاملہ نہیں اور اب قانون سازوں کو بجٹ کیلئے متوازن سوچ اپنانا ہوگی۔ صدر اوباما کا مزید کہنا تھا کہ امیگریشن اصلاحات رواں سال کے آخر تک مکمل کرلی جائیں گی۔ کانگریس میں منظور کیا جانے والا بِل سینیٹ میں اکثریتی پارٹی ڈیموکریٹس کے قائد ہیری ریڈ اور اقلیتی جماعت ری پبلکن کے سربراہ مِچ میکونیل نے تیار کیا تھا۔بِل پر اتفاقِ رائے کا اعلان کرتے ہوئے ہیری ریڈ نے کہا تھا کہ فریقین نے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملک کو ’مالی بحران‘ سے بچانے کے لیے یہ قدم اٹھا یاہے۔البتہ امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 16 روزہ کاروبارِ حکومت کی جزوی بندش نے امریکی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا، اور یہ کہ حکومتی اقدامات کے بارے میں جاری غیر یقینی صورتِ حال کے باعث معیشت کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔شٹ ڈاؤن کے اقتصادیات پر پڑنے والے اثرات کے اعداد و شمار ابھی اکٹھی کیے جارہے ہیں، جب کہ لگائے جانے والے اندازوں میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ تاہم، کریڈٹ ریٹنگ ادارے ’اسٹینڈرڈ اینڈ پورز‘ کا کہنا ہے کہ اِس کے باعث امریکی معیشت کو ، جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، کم از کم 24 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا؛ اور ملک کی شرح افزائش سست روی کا شکار رہی۔ دوسرے تحقیقی ادارے، ’میکرواکانامک ایڈوائزرز‘ نے نقصان کے شمار کو 12 ارب ڈالر قرار دیا ہے۔
حالانکہ صدر براک اوباما نے معاملے کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی اخراجات اور قرضے کے حصول کے ملکی اختیارات کے معاملے پر تعطل کے باعث امریکی معیشت کو سریحاً ’خواہ مخواہ‘ کا نقصان پہنچا ہے۔اُن کے بقول، ’اِن گذشتہ چند ہفتوں کے دوران، ہماری معیشت کو سریحاً، خواہ مخواہ کا نقصان پہنچا۔ ہمیں ابھی تک نقصان کا صحیح اندازہ نہیں ہو پایا، لیکن ہر تجزیہ کار خیال کرتے ہیں کہ اِس کے باعث ہماری شرح نمو میں کمی آئی‘۔ایسے میں جب فرلو پر جانے والے آٹھ لاکھ حکومتی کارکنوں کو گذشتہ دِنوں کا معاوضہ دینا ہوگا، معیشت داں کہتے ہیں کہ شٹ ڈاؤن کی وجہ سے اثرانداز ہونے والے کچھ کاروبار اس قابل نہیں ہوں گے کہ اُن کے نقصان کا ازالہ کیا جاسکے۔
شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں نیشنل پارکس کو بند کرنا پڑا، جس کے باعث قرب و جوار کے کاروبار کو نقصان پہنچا، جب صارفین نے اپنی چھٹیاں منسوخ کردیں۔ کاروبار کے دیگر اداروں اور کسانوں کو قرضہ جات کے معاملے میں بروقت حکومتی منظوری نہ مل سکی، یا پھر یہ کہ وہ اضافی شرح سود پر بینکوں سے قلیل مدتی قرض لینے پر مجبور ہوئے۔ملک کے سب سے بڑے بینک، ’جے پی مارگن چیز‘ کے چیف اکنامسٹ، جیمز گلاسمین کے مطابق’’ شٹ ڈاؤن سے معاشی نقصانات ہوئے، لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ فرلو پر جانے والے زیادہ تر حکومتی ملازمین اب چھٹیاں منا کر واپس آرہے ہیں‘‘۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *