ابھی اقلیتوں کے لئے بہت کچھ کیا جانا باقی ہے

این سی پی قومی اقلیتی سیل کے چیرمن ایڈوکیٹ سیدجلال الدین کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے سیاسی دائو پینچ کو بہت قریب سے دیکھا ہے ۔پارٹی میں اپنی بہتر ساکھ کے ساتھ ہی اقلیتوں میں بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے پیش ہیں موجودہ ماحول پر دانش ریاض سے ہوئی گفتگو کے اہم اقتباسات

Jalal Bhai

سوال : موجودہ الیکشن کو آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟

جواب : ملک میں بی جے پی غیر یقینی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے،فسطائی نظریات کی تبلیغ کے ذریعہ اس نے جمہوری تانے بانے کو بکھیردیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خود پارٹی کے اندر دو ایسےگروہ پیدا ہو گئے ہیں جس میں ایک کی پشت پناہی آر ایس ایس کر رہی ہے۔لہذا پارٹی کے اندر جو لوگ ماڈریٹ خیالات کے حامل تھے انہیں یا تو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے یا پھر سائڈ لائن کر دیا گیا ہے۔ جھوٹے پروپگنڈہ کی بدولت فسطائی ذہنیت کے علمبردار نریندر مودی کی اس طرح تعریف کی گئی ہے کہ جو لوگ حقیقت حال سے واقف نہیں اب وہ بھی کف افسوس مل رہےہیں۔دراصل ہندو انتہا پسندوں نے بی جے پی کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہےاور یہ انتہا پسند انہیں نظریات کے حامل ہیں جنہوں نے مہاتما گاندھی کا قتل کیا تھا۔
لہذا اس وقت ملک میں نظریاتی جنگ چل رہی ہے موجودہ الیکشن صرف دو پارٹیوں کا الیکشن نہیں ہے بلکہ دو نظریات کا الیکشن ہے ایک وہ ہیں جو گنگا جمنی تہذیب چاہتے ہیں،مشترکہ تہذیب پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اس کی پذیرائی کرتے ہیں۔یعنی وہ کہیں نہ کہیں گرونانک،خواجہ اجمیریؒ،سنت تکا رام،مولانا آزاد ،پنڈٹ نہرو،خان عبد الغفار خان،مہاتما گاندھی کا ہندوستان چاہتے ہیں تو دوسرا نظریہ ان لوگوں کا ہے جو گولوالکر،مسولینی،ہٹلرکی زبان بولتے ہیں اور ہندو راشٹر کا خواب دیکھتے ہوئےفاشسٹ حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔دراصل جو لوگ فاشزم کے علمبردار ہوتے ہیں وہ کسی اور کو برداشت نہیں کرتے ۔وہ نہ کسی کے نظریات کو قبول کرتے ہیں نہ ہی کسی فکر و خیال کو پنپنے دیتے ہیں بلکہ ان کی ساری کوشش یہ ہوتی ہے کہ جس فکر کے وہ حامل ہیں اسے تمام لوگوںپر تھوپ دیا جائے۔لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ اول الذکر اور آخر الذکر کے مابین ایک ٹکرائو اور تصادم ہے۔اس الیکشن میں یہ طے ہونا ہے کہ یہ ملک کس سمت میں اپنا سیاسی سفر طے کرے گا۔کیا اس ملک میں جمہوریت برقرار رہے گی یا یہ ملک ہندو راشٹر کی طرف چلا جائے گاکیونکہ موجودہ حالات میں ملک سیاسی کشمکش کا شکار ہے۔
سوال : آخر سیکولر پارٹیوںکو بی جے پی سے اتنا خوف کیوں ہے،اقتدار میں ان کی واپسی کیا دور رس تبدیلیاں لائے گی؟
جواب:یقیناً بی جے پی کی اقتدار میں واپسی سےدور رس اثرات پڑیں گے۔ سب سے پہلے تو وہ لوگ دستور پر حملہ کریں گے اس کے سیکولر تانے بانے کو بکھیر دیں گےاس کو بدلنے کی کوشش کی جائے گی۔مینی فیسٹو میں ہی انہوں نے یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی بات کہی ہے۔رام مندر کی تعمیر کا معاملہ گرمایا ہےاور یہ کہا جارہا ہے کہ دستورکی روشنی میں عظیم الشان رام مندر بنایا جائے گا ،کیا جب بابری مسجد کی شہادت ہوئی تھی تو وہ دستور کے دائرے میں ہوئی تھی کہ اب رام مندر کی تعمیر دستور کے دائرے میں کرنے کی کوشش کی جائے گی؟ لہذا میں تو سمجھتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں ،عیسائیوں ،بودھوں،جینیوں کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے بلکہ ملک میں بس رہے آدی واسیوں ،دلتوں کو بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ اب جو کچھ بھی ہوگا ان کے مذہبی شناخت پر ہوگا۔لہذا ہر ایک کی مذہبی اور تہذیبی شناخت دائو پر لگی ہوئی ہے۔تمام لوگوں کی جداگانہ شناخت ختم کر کےیکساں شناخت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ سنگھ پریوار ہٹلر سے ہی متاثر ہے۔نازیوں نے جو کچھ یہودیوں کے ساتھ کیا تھا وہی وہ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ کرنا چاہ رہے ہیں۔ان کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی ہے۔
سوال : لیکن بی جے پی تو اپنے آپ کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟
جواب: یہ صرف عوام کو دھوکہ دے رہی ہے اس نے اپنا جومنشور شائع کیا ہے اس میں یہ درج ہے کہ دنیا کے کسی گوشہ یا ملک سے اگر کوئی ہندو ہندوستان آتا ہے تو ہندوستان اس کا خیر مقدم کرے گا لیکن کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو انہوں نے قبول نہ کرنے کا عندیہ دیا ہےکیا یہی بی جے پی کا سیکولرزم ہے؟بی جے پی نے اتر پردیش کی کمان امیت شاہ کے ہاتھ میں دی ہے جو ضمانت پر رہا ہوا ہے۔عدالت نے اس پر گجرات میں داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی۔جب گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی تو وہ وزیر داخلہ تھایعنی مسلمانوں پر ظلم کے جو بھی پہاڑ توڑے گئے اس کا ذمہ دار وہ بھی ہے۔اب یہی کوشش وہ اتر پردیش میں کر رہا ہے۔مظفر نگر فسادات میں اس کے کردار کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔مظفر نگر فسادات کا ملزم حکم دیو کو پارٹی لوک سبھا کا انتخاب لڑا رہی ہے ۔مسلمانوں کے خلاف جاٹوں کو کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ جب فسادی جیل سے چھوٹے تو آگرہ میں بلا کر تمام فسادیوں کی پذیرائی کی گئی۔پارٹی میں جو جتنا بڑا فسطائی ہے وہ اتنا ہی مقبول ہے۔انہوں نے سر عام کہا ہے کہ اگر ان کی حکومت بنی تو وہ مسلمانوں سے ووٹ دینے کا حق چھین لیں گے۔لہذا ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی سیکولر ہے۔
سوال : بی جے پی نے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لئے تمام ہتھکنڈے اختیار کئے ہیں لیکن سیکور پارٹیوں میں بکھرائو نظر آرہا ہے۔آخر ایسا کیوں؟
جواب:ہمیں افسوس ہے کہ لوک سبھا انتخابات سے قبل ایک بڑے سیکولر محاذ کے لئے قومی سطح پر این سی پی نے کوشش کی تھی۔لیکن وہ تشکیل نہیں پاسکااس کا مقصد صرف اتنا تھا کہ قومی سطح پر سیکولر ووٹوں کی تقسیم کو روکا جاسکے۔
سوال: اس وقت جامع مسجد کے شاہی امام احمدبخاری نےکانگریس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔کیا اس کی وجہ سے ہندوئوں کا ووٹ متحد نہیں ہوگا؟
جواب: سب سے پہلے تو آپ لفظ شاہی ہٹائیں ،اب نہ کوئی شاہ ہےاور نہ بادشاہ۔احمد بخاری ایک ایسے امام ہیں جو جامع مسجد کی امامت بھی نہیں کرتے لیکن اس کی روائیلیٹی کھاتے ہیں۔اس وقت کانگریس پارٹی کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور بے پیندی کے لوٹے کو اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہئے۔دراصل بخاری مسلمان کے نام پر کلنک ہیںان کی حیثیت تو یہ ہے کہ وہ چاندنی چوک کے ووٹروں کو بھی کسی پارٹی کوووٹ دینےپر آمادہ نہیں کرسکتے ۔جامع مسجد کے فٹ پاتھ پر جولوگ اپنا کاروبار کرتے ہیں وہ لوگ تک تو بخاری کی بات نہیں مانتے لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کانگریس کا ناعاقبت اندیشانہ فیصلہ ہے۔جو بخاری اپنے داماد کو سہارنپور سے کامیابی نہ دلوا سکے وہ کانگریس کو ووٹ کیسے دلوائیں گے؟یہ ناقابل اعتبار اس طرح بھی ہیں کہ یہ २2004میں واجپئی حمایت کمیٹی کے رکن تھے۔
سوال : آخر علما کرام بھی تو بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور مختلف پارٹیوں کو ووٹ دینے کی اپیل کر رہے ہیں؟
جواب: اس وقت علما کرام کو محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئےتاکہ فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار میں آنے سے روکا جاسکے اور وہ کسی بھی طرح کا فائدہ حاصل نہ کر لیں۔
سوال : ملک میں سیکولر حکومت قائم ہو اس کا ہر شخص خواہش مند ہے لیکن کانگریس نے بھی تو اقلیتوں کے لئے کچھ نہیں کیا ہے؟
جواب: ملک کی موجودہ صورتحال اور نریندر مودی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے مسلمانوں کو کانگریس این سی پی الائنس کو ووٹ دینا چاہئے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کانگریس کا کردار مایوس کن رہا ہے۔وہ فرقہ وارانہ فساد مخالف بل،یکساں مواقع کمیشن بل وغیرہ کو قانونی شکل دینے میں ناکام رہی ہے۔
سوال : این سی پی نے آخر کوئی مسلمان امیدوار کیوں نہیں دیا؟
جواب: یہ ایک غلط پروپگنڈہ ہے کہ این سی پی نے مسلمان امیدوار نہیں دیا ہم نے ایڈوکیٹ مجید میمن اور طارق انور صاحب کو پہلے ہی راجیہ سبھا بھیج دیا ہےتاکہ مسلمانوں کی آواز پہنچائی جاسکے۔لہذا پارٹی کےچھ ممبران میں دومسلمان ہیں۔
سوال: یہ سوال لوگوں کے درمیان گردش کر رہا ہے کہ انتخابات کے بعد این سی پی بی جے پی میں شامل ہوجائے گی آخر اس کی کیا حقیقت ہے؟
جواب: پارٹی سپریمو شرد پوار کو کانگریس نے جن حالات میں نکالاتھا وہ انتخابی موسم کا ماحول تھا ۔مہاراشٹر میں اس کے بعد کئی انتخابات ہوئے لیکن وہ کہیں نہیں گئے۔१ 1999؁ میں پارلیمنٹ اور اسمبلی دونوں کا ساتھ ساتھ انتخاب ہوا وہ سینا بی جے پی کے ساتھ جا سکتے تھے لیکن اس وقت بھی انہوں نے سیکولر طاقتوں کو مضبوط کرنے کاکام کیا۔یہاں تک کہ جب بابری مسجد کی شہادت کے بعد رام پور میں کانگریس پارٹی کا اجلاس ہوا تو انہوں نے کہا تھاکہ کانگریس اپنی ذمہ داری میں ناکام رہی ہے اسے معافی مانگنی چاہئے۔جب ملک میں دہشت گردانہ واقعات پیش آنے لگے اور سمجھوتہ ایکسپریس،مالیگائوں دھماکہ،اجمیر شریف دھماکہ میں مسلمانوں کو گرفتار کیا جانے لگا تو انہوں نے کہا کہ ان دھماکوں میں مسلمان شامل نہیں ہو سکتے لہذا ہندو انتہا پسندوں کی بھی تفتیش ہونی چاہئے۔یہ وہ بیان تھا جس کے نتیجہ میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر،کرنل پروہت وغیرہ کی گرفتاری عمل میں آئی۔اسی کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اقلیتوں کو اقتدار میں حصہ داری ان کی آبادی کے تناسب سے ملنا چاہئے۔اردو کے فروغ کے لئے انہوں نے کوششیں کیں،انہوں نے کہا کہ جن ضلعوں میں ۱۵فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے وہاں اردو پڑھنے کا انتظام کیا جائے۔پولس اسٹیشن ،ریونیو ڈپارٹمنٹ میں اردو ملازمین کا تقرر کیا جائے۔مہاراشٹر میں اقلیتی کمیشن کا قیام،مولانا آزاد فائنانشیل کارپوریشن کا قیام،ملت نگر کی تعمیر،وغیرہ جمہوری محاذ حکومت کا ہی کام ہے جو شرد پوار کے ایما پر ہوا ہے۔لہذا ان تمام چیزوں کے بعد کوئی بی جے پی میں کیوں شامل ہوسکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *