
میچول فنڈ س میں مسلمانوں کے لئے سرمایہ کاری کے مواقع
عرفان شاہد
Mutual Fund میچول فنڈ کو اردو میں باہمی فنڈ بھی کہہ سکتے ہیں ۔یہ ایک امریکی اصطلاح ہے جسے یورپ کے اندر (Unit Trust)یونٹ ٹرسٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عام طور سے معیشت میں دو طرح کی کمپنیاں ہوتی ہیں۔ ایک وہ کمپنی جو پیداوار میں مصروف رہتی ہے اور دوسری وہ جوسرمایہ کاری کرتی یا کرواتی ہے۔ میچول فنڈ کا شمار دوسرے قسم کی کمپنیوں کے درمیان(Intermediary) انٹرمیڈئری حیثیت سے کام کرنا ہے۔میچول فنڈ دراصل ایسے سرمایہ کاری کی کمپنی ہوتی ہے جو چھوٹے چھوٹے بچت کاروں کے پیسے کو یکجا کرکے خود سے کمپنیوں کے شیرز،ڈبنچرس اور بونڈس وغیرہ خریدتی ہے اور اس طرح جو منفعتیں حاصل ہوتی ہیں اسے اپنے چھوٹے چھوٹے حصہ داروں میں تقسیم کر دیتی ہے۔بسا اوقات چھوٹے چھوٹے سرمایہ کار جو شیئر مارکیٹ کے بارے میں بہت زیادہ علم نہیں رکھتے اور اس بات پر بھی قادر نہیں ہوتے کہ وہ کسی بڑی اور اچھی کمپنی کے شیئرز کو خرید سکیں وہ اس کا سہارا لیتے ہیں لہذا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہمیچول فنڈ (Mutual Fund) ایسے چھوٹے چھوٹے سرمایہ کاروں کو نفع سے ہمکنار کرنے کا بہترین ادارہ ہے۔بلا شبہ میچول فنڈ س میں بہت سارے تعلیم یافتہ اور تجربہ کار لوگ ہوتے ہیں جو اعلی پیمانے پر شیئر مارکیٹ کا مطالعہ کرتے ہیں جو کسی عام آدمی کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔
عام طور پر شیئر مارکیٹ کے مقابلے میں میچول فنڈ س میں نفع یا فائدے کی شرح کم ہوتی ہے لیکن اسی درجہ تک میچول فنڈ میں نقصانات کے امکانات بھی بہت کم ہوتے ہیں۔
ساخت اور نوعیت کے اعتبار سے میچول فنڈ کی بہت ساری قسمیں ہیں۔ لیکن یہاں بنیادی طور پر دو قسموں کا ذکر کرنا بہتر ہوگا۔
Closed endبند ساخت کا میچول فنڈ Open end کھلے ساخت کا میچول فنڈ
1۔Closed end کے میچول فنڈ کو ہم بند ساخت کے میچول فنڈ کے نام سے جانتے ہیں۔بند ساخت کے میچول فنڈ مارکیٹ میں صرف ایک ہی مرتبہ اپنے یونٹ اسکیم کو جاری کرتے ہیں اور کچھ خاص مدت کے بعد اس اسکیم کو بند کر دیتے ہیں اگر کوئی شخص اس میچول فنڈ کے یونٹ یا حصص کو خرید نا چاہتا ہے تو وہ اسے پرائمری مارکیٹ (ابتدائی بازار) سے نہیں خرید سکتا ہے اس کو خریدنے کے لئے (Secondary Market) ثانوی بازار کا رخ کرنا پڑے گا۔
2۔ اسکے بر خلاف (Open end)کھلے ساخت کے میچول فنڈ میں جب چاہیں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں،کیونکہ کھلے ساخت کے میچول فنڈس میں کسی خاص مدت کے لئے کوئی طے شدہ اسکیم نہیں ہوتی ۔ ان کے نئے اور پرانے یونٹس کو ہمیشہ خرید ا اور فروخت کیا جا سکتا ہے ۔آج کل ہندستان میں میچول فنڈکا دائرہ بہت وسیع ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہر سال نئے نئے میچول فنڈ وجود میں آرہے ہیں غیر مسلم قومیں اس میدان میں بہت تیزی سے آگے آ رہی ہیں۔ بنچ مارک میچول فنڈ، سندرم میچول فنڈ، کوٹک مہندرا میچول فنڈ اور ٹاٹا میچول فنڈس اس کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ ہندستان میں مسلمانوں کی آبادی 25%فی صد کے قریب ہے۔ اس 25% فیصد میں بھی صرف 5%فیصد لوگ تعلیم یافتہ یا مالدارہیںلیکن اس کے باوجود ان کے پاس کوئی اسلامی طرز کا میچول فنڈنہیں ہے۔ جہاں پر لوگ شرعی طور پر سرمایہ کاری کر سکیں۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔ اگر یہاں پر اسلامی طرز کے میچول فنڈ کی کوشش کی گئی ہوتی تو اس کی اجازت ضرور مل گئی ہوتی بشرطیکہ اس میدان میں کام کرنے والے لوگ تعلیم یافتہ ،مالدار اور ایماندار ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں بہت سارے علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ بچت کرنا( Saving) زیادہ پسند کرتے ہیں اور اسلامی طور طریقے سے سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن چونکہ کوئی بہتر سہولت موجود نہیں ہے اسلئے وہ سودی بینکوں کا سہارا لیتے ہیں۔کچھ لوگ اس میدان میں کام کرنے کے لئے تیاری کر رہے ہیں۔اللہ تعالی انہیں کامیاب کرے۔ بہر کیف یہ کام بہت ہی صبر آزما اور پیچیدہ ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس میدان میں آئیں اور محنت و ایمانداری کے ساتھ کام کریں۔اس کام کے لئے انہیں ایک ادارہ قائم کرنا ہوگا جہاں سے ماہرین کی ایک ٹیم پیدا ہو سکے جو معاشیات و فائنانس کے ساتھ دینی علوم بالخصوص قرآن و حدیث پر بھی گہری نظر رکھتے ہوں۔
ہندوستان میں میچول فنڈ کا دروازہ بہت پہلے سے ہی کھل چکا ہے تاکہ چھوٹے چھوٹے سرمایہ کاربھی اپنے رقم کو شیئر بازار میں لگا سکیں۔
ہندوستان میںسب سے پہلے سرمایہ کاری میچول فنڈ۱۹۶۴ میں قائم ہوا جسے Unit Trust of India کے نام سے جانا جاتا ہے اور آج بھی موجود ہے۔
مختصر یہ کہ میچول فنڈ مسلمانوں کے لئے جائز نہیں کیونکہ میچول فنڈ میں لگا ہوا سرمایہ بہت ساری ایسی کمپنیوں میں جاتا ہے جسکی ساخت اسلام میں حرام ہے۔ مسلمان صرف ایک ہی میچول فنڈ میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں جسے TATA ٹاٹا کمپنی نے بالخصوص مسلمانوں اور جین دھرم کے پیروکاروں کے لئے بنایا ہے۔اس میچول فنڈ کو (TSEF) ٹاٹا سلیکٹ اکویٹی فنڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ ایک اور میچول فنڈ ہے جسکو Taurusنے قائم کیا ہے جس کا نام (Taurus Ethical Funds)ٹورس اتھیکل فنڈس ہے۔
مسلم حضرات بھی میچول فنڈس میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں بشرطیکہ میچول فنڈس کا اپنا ذاتی سرمایہ کاری کا طریقہ اسلام کے طریقہ تجارت سے مخالف نہ ہو ۔ بیرون دنیا اور عرب ممالک میں بہت سارے میچول فنڈس قائم کئے گئے ہیں جو اسلامی طریقہ تجارت سے مطابقت رکھتے ہیں جیسے ایمان میچول فنڈس،امانتہ میچول فنڈس ٹرسٹ ، ڈاو جونس اسلامی فنڈس وغیرہ۔
ہندوستان میں بھی دو میچول فنڈس قائم کئے گئے ہیں جو اسلامی قوانین تجارت سے ہم آہنگی کا اقرار کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک TSEF (TATA SELECT EQUITY FUNDS) ٹاٹا سلیکٹ اکویٹی فنڈس ہے اور دوسرے کو (TAURUS ETHICAL FUNDS) ٹورس اتھیکل فنڈس کہتے ہیں۔ لیکن فی الوقت راقم الحروف کو ان کی ساخت کا گہرا علم نہیں ہے کہ وہ کیسے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ میں نے کچھ برس پہلے ان کی سرمایہ کاری اسٹریٹجی کا مطالعہ کیا تھا اور معاملہ کو تسلی بخش پایا تھا۔ اس وقت کیا پوزیشن ہے اس کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ اس لئے گزارش ہے کہ جو لوگ اس میدان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں ان کو خط لکھ کر یا ای میل کرکے پتہ لگا لیں کہ ان کا شریعہ ایڈوائزر کون ہے اور اس نے ان فنڈس کو کیسے ترتیب دیا ہے اور اس میں کتنے شریعت کے بنیادی قوانین کا لحاظ رکھا گیا ہے۔
واضح رہے کہ شریعہ اسکالر دونوں علوم سے واقفیت رکھتا ہے یعنی وہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ معاشیات اور فائنانس کے علم سے بھی واقف ہوتا ہے۔ دونوں میں سے کسی بھی علم کی عدم موجودگی میں وہ صحیح طریقے سے شرعی قوانین کو جدید تجارتی اصولوں پر منطبق نہیں کر سکے گا۔لہذا یہاںیہ واضح کرتا چلوں کہ فی الوقت کچھ لوگ مسلم عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے اس طرح کا کام کرتے پائے جارہے ہیں کہ کچھ مولانا حضرات کی ٹولی جمع کر لی ہے جو نہ تو دین کو جانتے ہیں اور نہ ہی دنیا کو پہچانتے ہیں لیکن وہ شرعی فتوے دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں لہذا تجارتی امور میں شرعی مشورے کے لئے ہمیں انہیں لوگوں سے رجوع کرنا چاہئے جو دینی علوم کے ساتھ ساتھ معاشیات اور فائنانس،انگریزی اور عربی زبان کا علم رکھتے ہوں اور اسلام کے ساتھ جدید تجارتی نظام کے پیچ وخم سے بھی واقف ہوں ۔ یقینا ہمارے معاشرے میں بہت سارے علماء علم دین میں بحر العلوم کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن انہیں جدید تجارتی نظام اور فائنانس کا علم نہیں ہوتا ہے اس لئے ان سے نکاح ، طلاق، روزہ، حج،زکوۃ کے مسائل سے متعلق تو ضرور رجوع کرنا چاہئے کیونکہ اس میدان میں ان کو دسترس حاصل ہے لیکن جہاں تجارت اور فائنانس کی بات آئے تو ہمیں انہیں لوگوں سے رجوع کرنا چاہئے جو دونوں علوم میں گہری واقفیت رکھتے ہوں۔ الحمد للہ آج ہمارے درمیان اس طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں جو ہماری رہنمائی اس میدان میں بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔