پروفیسر جمیل چودھری
آئیے آج میڈیا کے جھگڑوں اور دہشت گردی کے مسائل سے ہٹ کر چند لمحے ایکGeniusکے ساتھ گزارتے ہیں۔”کتنا کند ذہن لڑکا ہے۔جو اب کیوں نہیں دیتا؟نالائق”یہ الفاظ ٹیچر نے گرجتے ہوئے کہے۔مسلۂ یہ تھا کہ وہ جواب جلدی نہیں دینا چاہتا تھا۔کوشش ہوتی تھی کہ جو جواب وہ دے وہ معقول اور صحیح ہو۔اسکی غیر معمولی سنجیدگی اور خاموش طبیعت کا ذکر گھر میں بھی ہوتا تھا۔رشتہ داروں کے سامنے ایک دن ماں نے کہا”اس ٹیچر نے کیا سمجھ رکھا ہے میرے بیٹے کو۔میاں دیکھ لینا میرا بیٹا ایک دن پروفیسر بنے گا پروفیسر!چچا نے بڑا زور دار قہقہہ لگایا۔یہ لڑکا اور پروفیسر!پھر ایک دن آیا کہ وہ سچ مچ پروفیسر بن گیا۔دنیا کا سب سے نامور پروفیسر۔
جب پیٹنٹ آفس میں کلرک کی نوکری کے لئے انٹرویو ہوا پوچھا گیا”کیا آپ یہ کام کرسکیں گے؟ حسب معمول اس نے جواب دینے میں اتنی دیر لگادی کہ قریب تھا کہ اسکی درخواست ہی ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جائے اور کسی دوسرے کوبلا لیا جاتا۔لیکن کچھ دیر بعد نوجوان نے سر ہلا کر کہا ”جی ہاں میرا خیال ہے کہ میں یہ کام کرسکوں گا”۔وہ شروع ہی سے فوری جواب دینے کی بجائے سوچ سمجھ کر جواب دینے کا عادی تھا۔اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ شروع ہی سے دماغ استعمال کرنے کا عادی تھا۔
جون 1905ء کی کوئی تاریخ تھی جب لوگوں نے دیکھا کہ ایک نوجوان لفافہ بغل میں دبائے تیزتیز قدم اٹھاتے ڈاک خانہ کی طرف جارہاتھا۔ڈاک خانے میں لفافے کا وزن کیا گیا بہت سے ٹکٹ لگانے پڑے ۔باریک حروف میں لکھا ہوا یہ مقالہ ایک جرمن سائنسی رسالے کے لئے لائپزیگ بھیجا جارہاتھا۔اس مقالے میں نوجوان نے اپنے نظریے اور تحقیقات کا نچوڑ پیش کیاتھا۔اسے پتہ نہیں تھا کہ اسکی تحقیقات سے سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب عظیم برپا ہونے والا ہے۔جب وہ گھر لوٹا اس کے پاؤں لڑ کھڑا رہے تھے۔مسلۂ یہ تھا کہ اس مقالے کو مکمل کرنے کے لئے اسے دن رات محنت کرنا پڑی تھی۔پھر وہ دن آیا کہ مقالہ شائع ہوگیا۔اس کے ساتھ ہی یورپ کے علمی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا۔بڑے بڑے سائنس دان اسکے خیالات و نظریات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔اسکی باتیں بالکل ہی نئی تھیں۔لوگ پوچھنے لگے کہ سائنسدان کون ہے؟۔جواب ایک ہی تھا”آئن سٹائن سوئٹزر لینڈ کے شہر برن کے پیٹنٹ آفس میں ایک کلرک ہے۔
جب شہرت عام ہوئی تو زیورخ یونیورسٹی والوں کو شرم محسوس ہوئی کہ ایسا ذہین شخص اور ایک دفتر کی کلرکی۔لیکن اسے یونیورسٹی میں براہ راست پروفیسر نہیں رکھا جا سکتا تھا۔پڑھانے کا تجربہ ضروری تھا۔اس نے اپنے شہر برن کی یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کردیا۔ کچھ دنوں بعد آئن سٹائن زیورخ یونیورسٹی میں پروفیسر بن گئے۔یونیورسٹی کی پروفیسری میں اس کا دل نہ لگا۔ لیکن اس نے زیورخ یونیورسٹی میں لیکچر دینا جاری رکھا۔اپنے کپڑوں سے متعلق وہ شروع ہی سے بے پروا رہتا۔ بیوی ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہتی۔”اری پگلی کپڑوں سے کیا ہوتا ہے اس ٹوئیڈ کے سوٹ میں کیا خرابی ہے؟ یہ نہ ہوگا تو کوئی اور سوٹ ہوگا؟تم بازار سے گوشت خرید کر لاتی ہو تو کیا خوبصورت تھیلی سے گوشت لانے سے زیادہ مزیدار ہوجاتا ہے؟”اس نے بلند قہقہہ لگایا۔بیچاری بیوی اپنا سامنہ لیکر رہ گئی ۔آئن سٹائن کی عالمی شہرت چڑھتے سورج کی طرح بڑھتی گئی۔تو زیورخ سے اسے پراگ یونیورسٹی بلا لیاگیا لیکن اس کا دل تو صرف اپنے نظریہ اضافت کی طرف تھا۔غوروفکر میں کھوئے ہوئے آئن سٹائن کو اپنی بیوی کی تیز مزاجی اور ضد اچھی نہ لگتی تھی۔اسے طلاق دے دی گئی۔اور اپنے چچا کی لڑکی ایلزا سے شادی کرلی۔
ایلزا نے بھی کوشش کی کہ وہ اپنے سائنسدان خاوند کے لباس کی ہئیت کزائی کو تبدیل کرے۔لیکن وہ بھی ناکام رہی۔اس کی توجہ تو صرف اپنے نظریہ اضافت(Relativity Theory)کی طرف تھی۔وہ مزید تحقیقات میں مصروف رہے اپنا دوسرا مقالہ پیش کیا۔یہ پہلے کی نسبت زیادہ تہلکہ خیز ثابت ہوا۔ان کے نظریات کے سامنے نیوٹن کی سائنس معدوم ہوتی جارہی تھی۔مختلف تجربات سے اس کے نظریات صحیح ثابت ہورہے تھے۔اب اس کا نام علمی حلقوں سے نکل کر عام لوگوں میں بھی آگیا۔اشتہاربازوں نے آئن سٹائن اور اس کے نظریے کو استعمال کرنا شروع کردیا۔”آئن سٹائن پائپ””اضافیت سگار”بازار میں آگئے۔
ایک لیکچر کے لئے اسے پیرس مدعو کیاگیا۔پروگرام میں پیرس کے تمام سائنسدان شرکت کررہے تھے۔آئن سٹائن ایک تھرڈ کلاس میں سفر کررہے تھے۔وہ ریل سے اترکر پیدل ہی خراماں خراماں ہال کی طرف چل دیئے۔اسقبالیہ کمیٹی کے ارکان انہیں ریل کے فسٹ کلاس میں تلاش کرتے کرتے بے حال ہوگئے تھے۔ایک دفعہ وہ پراک یونیورسٹی میں مدعو کئے گئے ۔یونیورسٹی کے صدر نے دوستوں کو کھانے پر بلایا۔گرم جوشی سے استقبال ہوا۔تقریریں بھی ہوئیں۔آئن سٹائن سے بھی کہا گیا کہ کچھ کہیں۔انہوں نے اٹھتے ہی کہا”صاحبومیرا خیال ہے کہ میں تقریر کرنے کے بجائے وائلن بجا کر سناؤں تو آپ زیادہ محظوظ ہونگے۔آئن سٹائن نے آدھ گھنٹے تک سائنسدانوں کو وائلن کی دھنوں سے خوش کئے رکھا۔سائنس پر کوئی بات نہیں کی۔یہاں سے یہ پتہ چلتا ہے کہGeniusلوگوں کی عادات و اطوار دوسروں سے مختلف ہوتی ہیں۔تعصب اور تنگ نظری کی وجہ سے اسے اپنا ملک جرمنی چھوڑنا پڑا۔وہ عمر کے آخری حصے میں امریکہ منتقل ہوگئے۔پرنسٹن میں آئن سٹائن کا دفتر تحقیقی انسٹیوٹ میں ہی تھا۔پہلے دن جب وہ دفتر پہنچے تو اس سے پوچھا گیا کہ آپ کو دفتر کے لئے کیا سامان چاہیئے۔آئن سٹائن نے عادت کے مطابق سوچ کر دیرسے جواب دیا۔ایک تو بلیک بورڈ اور کھریا مٹی لے آئیں۔ایک میز اور چند کرسیاں ۔کچھ کاغذ پنسل۔بس یہ کافی ہونگے مگر ہاں میں بھول ہی گیا۔ایک ردی کی بڑی سی ٹوکری۔سمجھے نا؟ردی کے لئے بڑی سی نوکری۔کلرک نے پوچھا!۔ہاں ہاں بڑی سی ۔بھئی بات یہ ہے جن کاغذوں پر میرے حسابات غلط ہوا کریں گے۔آخر میں انہیں کہاں پھینکوں گا؟۔اور تم کو معلوم نہیں میں غلطیاں بہت کرتا ہوں۔یہ تھے سچ اور حقیقوں کی دنیا میں رہنے والے عظیم نابغہ آئن سٹائن۔وہ خود ہی تسلیم کررہے ہیں کہ میرے حساب کتاب بہت غلط ہوتے ہیں۔ انہیں یہ احساس تھا کہ ایٹمی قوت کا تصور ان کے ایک مقالے سے پیدا ہواتھا۔وہ ایٹم بم بنانے کے عمل میں کبھی بھی شریک نہ رہاتھا۔خیالات کے لحاظ سے وہ امن کاپجاری تھا۔اسی لئے مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے نظریات اچھے لگتے تھے۔اس خط پر وہ بہت افسوس کیا کرتاتھا۔جو اس نے صدر امریکہ روزویلٹ کو ایٹم بم کے بارے لکھا تھا۔دوسرے سائنسدانوں کی کوششوں سے ایٹم بم بنا اور جاپان کے2شہروں پر اسکی زندگی میں ہی استعمال ہوا۔وہ اپنے ضمیر پر بوجھ محسوس کرتے تھے۔وہ عسکری کاروائیوں کا مخالف تھا۔جس علاقے میں وہ رہائش پزیر تھے۔سکول جاتے ہوئے بچے اور بچیاں اسے سلام کہہ کر آگے بڑھتے تھے۔پھر 18 اپریل1955ء کی تاریخ آگئی۔وہ اس سے پہلے ہی ہسپتال میں داخل ہوچکے تھے۔نرس نے دیکھا کہ اسے سانس لینے میں دقت ہورہی ہے۔وہ ڈاکٹر کو بلانے دوڑنے والی تھی کہ مریض نے اسے کچھ کہنا چاہا۔وہ سرہانے کے بالکل قریب آگئی۔آئن سٹائن بہت دھیمی آواز سے کچھ کہہ رہاتھا۔آواز خاموش ہوگئی۔فطرت کے رازوں کا انکشاف کرنے والا خود اس عالم میں پہنچ گیا۔آئن سٹائن کے آخری الفاظ جرمن زبان میں تھے اور نرس جرمن نہیں جانتی تھی۔کچھ پتہ نہیں کہ وہ آخر میں کونسا نقطہ بیان کرگیا۔نمبر12۔مرسر۔اسٹریٹ کی سفید رنگ کی کوٹھی میں ہرسال18۔اپریل کو آئن سٹائن کے سٹڈی روم میں رات بھر روشنی جلتی رہتی ہے۔جب آئن سٹائن فوت ہوا تو7.1/2گھنٹے بعد ہی اس کا دماغ اس کے جسم سے علیحدہ کرکےPreserveکرلیاگیا تھا۔اب تک ہزاروں سائنسدان اس پر ریسرچ کرچکے ہیں۔سائنسی مطالعے یہ ظاہرکرتے ہیں کہ جب انسان تقریر یا تیز زبان استعمال کررہاہوتا ہے۔اس وقت دماغ کا معمولی ساحصہ ہی زیر استعمال ہوتا ہے۔اس کے برعکس جب انسان ریاضی اور وسعت مکانی(Spatial)استعمال کررہا ہوتا ہے۔تو دماغ کا زیادہ حصہ استعمال کررہا ہوتا ہے۔کچھ لوگوں کی تحقیق کے مطابق آئن سٹائن کے دماغ میںGilal Cellsکافی زیادہ تھے۔یہ سیل جاننے اور یاد کرنے کے عمل کو تیز کرتے ہیں۔عام آدمی دماغ کا(.67)فیصد تا 1.5))فیصد استعمال کرتا ہے۔آئن سٹائن نے(2.28)فیصد حصہ استعمال کیا۔کچھ عرصے بعد اس کے دماغ کے کئی حصے کرلئے گئے تھے تاکہ بہت سے لوگ ریسرچ کرسکیں۔بیسویں صدی کےGeniusکے دماغ پر ریسرچ اب بھی جاری ہے۔
بہ شکریہ نئی بات