رفعت میں مقاصد کو ہمدوش ثریا کر

عبدالحفیظ فارو قی

اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کی۔ آسمان، زمین، چاند، ستارے، پہاڑ، سمندر، دریا، مختلف قسم کی نباتات، حیوانات اور انسان کو پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات پر ایک سنجیدہ اور غور و فکر کرنے والا انسان نظر ڈالتا ہے تو اس کے دل میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہوگا اور ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو کیوں پیدا کیا ہے، ان کے کیا کیا مقاصد ہیں؟ قدیم زمانے میں انسان کو ان سوالات کے جوابات ہوسکتا ہے کسی حد تک آئے ہوں گے اور کچھ نہ بھی آئے ہوں گے لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کی روزافزوں ترقی کے سبب ان کے جوابات اب انسان کو بڑی حد تک ملتے جارہے ہیں۔ قرآن میں ہے کہ بندہ پکار اُٹھتا ہے ’’اے ہمارے رب تو نے یہ سب فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے۔‘‘ (آل عمران119)۔ یعنی کائنات کی کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی گئی ہے۔
سورج ہمیں روشنی اور تپش دیتا ہے جو حیوانا اور نباتات کی بقاء کے لیے لازمی ہے دوسرے یہ کہ سورج اور چاند کے ذریعہ انسان وقت کو دنوں ، مہینوں اور سالوں میں تقسیم کرکے تاریخ اور ریکارڈ کی سہولت سے اپنی ایک معاشرتی ضرورت پوری کرتا ہے۔ سمندر کے پانی کو سورج کی تپش بھاپ میں تبدیل کرتی ہے۔ پھر یہ بھاپ بادل کی شکل میں ہوائوں کے ذریعے مختلف علاقوں میں پھیل کر سازگار حالات پاکر بارش کی شکل میں انسانوں، حیوانوں اور مقامات کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ نباتات اور حیوانات انسان کی غذا، کپڑا، علاج کا سامان کرتے ہیں۔ کچھ حیوانات انسان کی سواری کے بھی کام آتے ہیں۔ انسان کے لئے ضروری ہے کہ ان نباتات، حیوانات اور دوسرے جمادات کا استعمال اپنے ان مقاصد کے لیے کریں جو ثابت کریں کہ ان کا استعمال ان کے اصل مقصد تخلیق کے مطابق ہورہا ہے۔ کیونکہ انسانو ں نے کم علمی اور جہالت کی وجہ سے اللہ کی مخلوقات کا ان کے مقصد تخلیق کے خلاف بھی استعمال کیا ہے اور کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لوہا پیدا کیا جس سے انسان جنگلی جانوروں اور دوسرے دشمنوں سے بچائو کے لیے ہتھیار بناتا ہے اوراپنے معاشرہ کی دیگر ضروریات بھی پوری کرتا ہے تو یہ لوہے کے مقصد تخلیق کے مطابق ہوا۔ یہی اعلیٰ و ارفع مقصد ہے۔ لیکن اگر اس ہتھیار سے بے گناہ انسانوں کا قتل عام کرے تو یہ اس کے مقصد تخلیق کے خلاف کام ہوا۔ سورج کو اس کے پیدا کرنے والے خدا کی طرف سے انسانوں کے لیے انسانوں کی مختلف ضروریات کی تکمیل کرنے والا نہ مان کر انسان اس کی پوجا شروع کردے کہ یہ خود پیدا کرنے والا اور انسانوں کے اوپر اقتدار اور اختیار والا تسلیم کرلے تو یہ اس مقصد تخلیق کے خلاف کام ہوا۔ ستاروں کو اللہ تعالیٰ کے کام میں کسی بھی درجہ میں دخیل، قسمتوں کے بنانے بگاڑنے یا اس کی خبر دینے والا تسلیم کرکے اس کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور غلام نہ مانا جائے وغیرہ وغیرہ۔ کائنات کے خالق نے اپنے کلام کے ذریعہ انسانوں کو تعلیم دی ہے کہ ’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں؟ (لقمان :30)
انسان بھی اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے ا ور ا س کا شرف یہ ہے کہ وہ اشرف المخلوقات ہے۔ آخر اس کے بھی تو پیدا کرنے کا کوئی مقصد ہوگا۔ اس سوال کا جواب انسانوں، فلاسفہ، دانشوروں سے نہ پوچھیں بلکہ اس کے خالق سے ہی پوچھیں تواللہ کا ہدایت نامہ قرآن یہاں بھی ہماری رہنمائی فرماتا ہے۔ ’’وہ وقت یا کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘ (البقرہ:30)
انسان زمین پر خلیفہ ہے۔ حضرت آدمؑ پہلے خلیفہ تھے اور ان کے بعد ان کی صالح اولاد۔ خلیفہ کسی کی ملک میں اُس کے دیے ہوئے اختیارات اور ہدایات کے مطابق اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرکے اس کے نظم کو چلائے۔ خلیفہ اس کا نائب ہوتا ہے۔ اس کی غیر موجودگی میں مالک یا بادشاہ نہیں ہوجاتا۔ کیونکہ اس کا اقتدار اور اختیار عطا کردہ ہوتا ہے اس کا ذاتی نہیں ہوتا کہ اپنی مرضی چلانا شروع کردے بلکہ اپنے مالک کی مرضی کے مطابق ہی چلانا ہوتا ہے اور ا گر اس نے اس ملک کا انتظام چلانے میں اپنی خواہش اور اپنی مرضی چلائی تو یہ اس مالک کے ساتھ غداری ہوگی اور غداری کی سزا معلوم ہے۔ کیونکہ آخر میں اس خلیفہ کو اس کا مالک اس کے احتساب کے لیے بلانے والا ہے ا ور وہاں اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ اس نے اپنی تخلیق کے مقصد کے ساتھ کتنی وفاداری اور کتنی غداری کی۔ دنیا میں رہ کر اس نے اعمال سے کیا ثابت کیا کہ اللہ کا خلیفہ تھا یا مطلق العنان، بے لگام اور اپنے خالق سے سرکشی کرنے والا انسان۔ یعنی اگر اس نے اپنی زندگی اللہ کے بتائے ہوئے طریقے سے گذاری تو اس نے اپنی زندگی ارفع مقصد کے تحت گذاری۔ اس پر انعام و اکرام کی بخشش ورنہ جہنم میں جلنے کی سزا۔
اس حوالے سے ہمیں اپنی زندگی کا بے لاگ جائزہ لینا چاہیے۔ ہمارے کام ہماری دوڑ دھوپ اور سرگرمیوں کا مقصد اعلیٰ و ارفع ہے یا پست اور حقیر۔ آج دنیا میں انسانوں کا جو حال ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ ظلم و ستم، قتل عام، کمزوروں کو عزت اور وقار کی زندگی سے محروم کردینا اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کی بھاری اکثریت کو اپنی زندگی کے اصل مقصد کا شعور ہی نہیں۔ انفرادی طور پر ہم اپنی زندگی کوہنسی خوشی سے گذار دنیا چاہتے ہیں یہی انسانوں کی زندگی کا مقصد بن چکا ہے۔ کتنا حقیر اور پست ہے یہ نظریۂ زندگی۔ اچھا کھانا، اچھا پینا، اچھا گھر اور عیش کی زندگی گذارنے کے لیے دیگر وسائل کی فراہمی کی تگ ودو اور کاوشیں ۔ اپنی اور اپنی اولاد کی ضروریات کے بعد آنے والی نسلوں کے لیے وسائل کی فراہمی اور بس! اچھی تعلیم و تربیت کا بھی حصول اسی ایک مقصدکے لیے ہوگیا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ اسی سے دنیا میں عزت شہرت اور قوت حاصل ہوگی اور ہمیں کیا چاہیے!
سب سے بڑا ظلم انسان نے تعلیم کے ساتھ کیا ہے۔ تعلیم انسان کے انفرادی و اجتماعی ارتقاء کے لیے ناگزیر ہے۔ تعلیم انسان کو اس کائنات کے خالق اور خود خالق کے ساتھ اس کا رشتہ اور اس کا مقام اور حیثیت کا تعین کرتا ہے۔ آج تعلیم کو اس کے برخلاف مادی ضرورتوں کی تکمیل کا وسیلہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ تعلیم کا پست ترین مقصد ہے۔ اس موقع پر 1920 ء؁ میں مولانا آزاد کا مدرسہ عالیہ کلکتہ کا دورہ جس میں مہاتما گاندھی بھی موجود تھے، اس موقع پر تعلیم کے اس بدلتے ہوئے مقام کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مولانا نے اپنے خطاب میں فرمایا ’’ہندوستان میں سرکاری تعلیم نے جو نقصانات ہمارے قومی خصائل کو پہنچائے ان میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ تحصیل علم کا مقصد اعلیٰ ہماری نظروں سے محجوب ہوگیا۔ علم خدا کی ایک پاک امانت ہے۔ اس کو صرف اس لیے ڈھونڈھنا چاہیے کہ وہ علم ہے۔ لیکن سرکاری یونیورسٹیوں نے ہم کو ایک دوسری راہ بتائی ہے۔ وہ علم کا صرف اس لیے شوق دلاتی ہیں کہ بِلا اس کے سرکاری نوکری نہیں مل سکتی۔ بس اس ہندوستان میں علم کو علم کے لیے نہیں بلکہ معیشت کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ بڑی بڑی تعلیمی عمارتیں جو انگریزی تعلیم کی نوآبادیاں ہیں کس مخلوق سے بھری ہوئی ہیں۔ مشتاقانِ علم اور شیفتگان حقیقت سے؟ نہیں، ایک مٹھی گیہوں اور ایک پیالہ چاول کے پرستاروں سے۔ جن کو یقین دلایا گیا ہے کہ بلا حصول تعلیم وہ اپنی غذا حاصل نہیں کرسکتے۔‘‘ یہ ہے مقصد تعلیم کی پستی کا حال! آج ہماری یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں سے ہر سال بڑھے سکھوں کی کھیپ کی کھیپ نکل رہی ہے لیکن اس سے وطن عزیز کو فائدہ پہنچانے والے، تعلیم سے خود کو فائدہ پہنچانے والے لوگ کتنے ہیں؟ اور عوام کو غریبی، محرومی اور مایوسی کے غار میں ڈھکیلنے والے کتنے ہیں؟ معلوم ہے۔
مقصد کی رفعت اور پستی کے فرق کو سمجھنے کے لیے ایک حدیث پیش ہے۔ حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا ’’فرمایا رسول اللہؐ نے اعمال کا دارومدار نیت پر ہے، اور آدمی کو وہی کچھ ملے گا جن کی اس نے نیت کی ہوگی ۔ تو (مثلاً) جس نے اللہ اور رسول کے لیے ہجرت کی ہوگی اس کی ہجرت واقعی ہجرت ہوگی ا ور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے، یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہوگی تو اس کی ہجرت دنیا کے لیے یا عورت کے لیے ہی شمار ہوگی‘‘ (بخاری، مسلم) آدمی کسی کام کی نیت کرتا ہے اسی وقت اس کا مقصد متعین ہوجاتا ہے کہ وہ بلند ہے یا پست۔ علامہ اقبال مرحوم نے بلندی ( رفعت) کو بانگِ درا میں نظم ’’ دعا‘‘ کے ایک شعر کے مصرع اولیٰ میں ہمدوشِ ثریا ( بلند ترین تارے کے برابر) کی شاعرانہ ترکیب سے جذبہ اور خواہش کو حسن کا جامہ پہنا دیا ہے۔
اجتماعی سطح پر بھی ہمارا وہی حال ہے۔ دنیا میں ایک گروہ دوسرے گروہ پر، ایک قوم دوسری قوم پراور ایک ملک دوسرے ملک پر ہر طرح کی سبقت چاہتا ہے۔ دنیا میں اپنی مرضی کی بالادستی دوسروں پر تھوپنا چاہتا ہے۔ تعلیم ، سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنی قوت بڑھانے کا وسیلہ بنا کر دوسروں کی حق تلفی، ناانصافی، ملکہ غارت گری، قتل عام سے بھی باز نہیں آتا۔ انسان کی زندگی اجتماعیت سے عبارت ہے۔ یہ صحیح ہے کہ انسان کے انفرادی و اجتماعی مسائل اس کی اجتماعی مساعی سے ہی حل ہوسکتے ہیں۔ اس کا منظم ہوکر جدوجہد کرنا لازمی ہے۔ انسان تنظیمیں بناتا ہے۔ کچھ انسان کے معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لیے ، کچھ تعلیمی، کچھ سیاسی مسائل کے حل کے لیے۔ کچھ کا مقصد اپنے ہم زبانوں، کچھ کا اپنے علاقوں، کچھ اپنی برادری کے اصلاح و فلاح او ران کے ایمپاورنٹ کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہیں۔ اسی طرح سیاسی پارٹیاں اپنے ملک یا ایک مخصوص اور ان کے ہم خیال لوگوں کی فلاح اور بہبود کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ لیکن اگر ان تمام کے قیام کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا حصول نہیں ہے تو ان تمام کے مقاصد حقیر اور پست ہیں۔ ان تمام مختلف تنظیموں کا مقصد بالعموم انسانوں کی فلاح و بہبود ہونا چاہیے۔ اگر ان کا مقصد دوسرے گروہ پر بالا دستی قائم کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنا ہوتو یہ مقصد کی رفعت اور بلندی ہوگی اور یہی انسانوں کے مقصد تخلیق کی تکمیل کرنے کا راستہ ہوگا۔ اس پیغام کو لے کر مسلم افراد اور جماعتوں اور تنظیموں کے شعور کو جگانا ہوگا ورنہ دنیا کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ دنیا مسائل کا جنگل بنتی جائے گی اور مسلمان اللہ تعالیٰ کے یہاں اس سوال کا کوئی جواب نہیں دے پائیں گے کہ دنیا میں اپنے مقصد تخلیق کو حاصل کرنے کے لیے کیا کیا کرکے آئے ہو۔؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *