سرمایہ داری سے ایک جنگ
اس مسئلے سے پوری دنیا اُلجھی ہے۔ ہمارے اقبال بھی اس سے کس طرح نبرد آزما رہے ہیں: ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں، ابلیس نے کیادرست نتیجہ نکالا تھا۔
خیر میں آج کل ہر روز ایسی تحریریں پڑھتا ہوں جس میں اس نظام پر الجھاوے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایک بک سٹال میں کھڑا کتابوں پر اچٹتی نظر ڈال رہا تھا تو ایک کتاب کے موضوع نے متوجہ کیا:” سرمایہ داری کو سرمایہ داروں سے بچائیے“۔ دو ماہرین معاشیات نے جن میں ایک ہند نژاد تھا ، ایک تجزیہ کر رکھا ہے کہ اس نظام سے خود اس نظام کو کتنا بڑ اخطرہ ہے۔ میں نے یہ کتاب اٹھا لی اور سوچنے لگا گزشتہ چھ سات برس میں اس طرح کتنے لوگوں نے اعتراف گناہ کیا ہے۔ 2008ءکے بحران کے بعد تو لگتا تھا کہ سرمایہ داری کی لٹیا اب ڈوبا ہی چاہتی ہے۔ تاہم اندر کے لوگ یہ خبر بھی لائے کہ اس نظام کے چاہنے والے اور اس سے فائدے اٹھانے والے اسے ڈوبنے نہیں دیں گے۔ اسے بچانے کے لئے سر توڑ کوشش کریں گے اور ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ نظام کو بچا لیا گیا۔ اس بات کی پروا نہیں کی گئی کہ اس اقدام کی بھینٹ کیسی کیسی خلق خدا چڑھا دی گئی ہے۔ اسے فنانشل سیکٹر کا بحران کہہ کر ٹال دیا گیا، تاہم ایسے بھی لوگ تھے جو آئندہ کسی بحران سے بچنے کے نسخے تجویز کرتے رہے۔ ماہرین یہ بھی بتاتے رہے کہ اس نظام کے اندر ایسی طاقت ہے کہ یہ اپنی اصلاح خود کر لیتا ہے۔
یہ جو سرمایہ دارانہ نظام ہے،اس کا جدید ترین نام آزاد منڈی کی معیشت ہے۔ آج اس حوالے سے میں دو افراد کے اقوال زریں پڑھ رہا تھا۔ چلئے اسے کوئی اور غیر جذباتی سا نام دے دیجئے۔ ماہرین معیشت کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک بات تو برطانیہ کے مرکزی بینک کے سربراہ نے کہی اور دوسری امریکہ کے سا بق صدر بل کلنٹن نے۔ دونوں باتیں ایسی ہیں جو اس نظام کے اندر کے تضاد کو ظاہر کرتی ہیں۔ بینک آف انگلینڈ کے کینیڈین گورنر مارک کارے، لگتا ہے ذرا پریشانی کے عالم میں یہ تبصرہ کیا کہ جس طرح ہر انقلاب اپنے بچوں کو نگل جاتا ہے، اسی طرح منڈی کی بے قابو بنیاد پرستی اس سماجی سرمایے کو چاٹ رہی ہے جو سرمایہ داری کی طویل المدتی حرکیات کے لئے ضروری بھی ہے۔ میرے خیال میں سرمایہ داری پر اس سے زیادہ خوبصورت تبصرہ ممکن نہیں ہے۔ یہ اس شخص کا تبصرہ ہے جو نہ صرف اس نظام کی آغوش میں پلا بڑھا، بلکہ وہ اب اس نظام کو اپنی آغوش میں پال پوس رہا ہے۔ اس نے اس رائے کا اظہار اس لئے نہیں کیا ہے کہ اسے’ سماجی سرمایے‘ یا سماج سے محبت ہے، بلکہ اسے ڈر ہے کہ یہ میسر نہ ہوا تو سرمایہ داری کی حرکت خود رک جائے گی۔ اور وہ ایسا نہیں چاہتا۔
اصل میں مغرب کے معیشت دان جو اس نظام کی خامیوں سے واقف ہو چکے ہیں، وہ بھی نہیں چاہتے کہ یہ نظام اپنی خامیوں کے بوجھ تلے دب کر مر جائے۔ وہ روز کچھ نہ کچھ راستے نکالتے رہتے ہیں، اگرچہ انہیں بھی پتا ہوتا ہے کہ اس کا فائدہ بھی انہی کو پہنچتا ہے جو اس نظام کے اصل زلّہ گیر ہیں۔ لقمے انہی کے منہ میں جاتے ہیں جن کا دسترخوان ہے۔ اور خلق خدا پکارتی رہتی ہے، اک زلّہ گیر مائدہ لطف ہم بھی ہیں۔ یہ معیشت دان جو حل بتاتے رہتے ہیں، وہ صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ بھئی دیکھو معاشرتی تفریق بڑھتی جا رہی ہے، ڈر ہے تمہارے خلاف بغاوت ہو جائے گی، یا یہ پسے ہوئے لوگ اس نظام کو مضبوط کرنے کے ارادوں سے تہی دست ہو جائیں گے، ایک ایسا مستقبل پیدا ہو رہا ہے جو تمہارے ہاتھ میں بھی نہ ہوگا اور تمہاری خواہش زرگری کا بھی مخالف ہوگا۔ کچھ کرو، تاکہ یہ نظام بچ سکے۔
اس کانفرنس میں بھی بینک آف انگلینڈ کے گورمرنے سمجھایا کہ یہ جسے سماجی سرمایہ کہہ رہے ہیں، وہ دراصل وہ طاقت ہے جو آدمی کو اپنے اور اپنے خاندان کے لئے کمانے سے اوپر اٹھاتی ہے اور اس کے اندر یہ خواہش پیدا کرتی ہے کہ وہ اجتماعی اطوار پر خود کو سمجھیں اور مل جل کر کام کرنے کا جذبہ پیدا کریں۔ اس میں کوئی بات قابل اعتراض نظر نہیں آتی، مگر انگریزی میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں مثلاًCollaborateوغیرہ وہ سب معاشی تعاون کی طرف اشارے کرتے ہیں۔ ان کی بات کے پیمانے اور اشاریے اقتصادی ہیں اور ہونے بھی چاہئیں۔ اس کا ان حوالوں سے کوئی واسطہ نہیں جو ہمارے ہاں استعمال ہوتے ہیں۔ وہ کیا ہیں ؟ یہ کہ آدمی کچھ وہ کام بھی کرے جو ذاتی منفعت سے بلند تر ہوں اور ان کا مقصد مالی فائدہ کمانا نہ ہو۔ یہ بالکل دوسری بات ہے۔ یہ معاشرتی اور سماجی سے زیادہ انسانی اور تہذیبی ہے۔
بہرحال ہم اس بحث کی طرف پلٹتے ہیں۔ ان لوگوں کے اندر ایک احساس جرم ہے کہ یہ نظام اتنا خود غرض ہوگیا ہے کہ دوسرے بھائی بندوں کا خیال ہی نہیں رکھتا۔ اس حوالے سے طرح طرح کی باتیں کرتے رہتےہیں۔ مثلاً کارپوریٹ سوشل رسپانسبلیٹی (آر ایس آر) یعنی کارپوریٹ سیکٹر کو سماجی ذمہ داریوں کے لئے بھی کچھ رقم مختص کرنا چاہئے۔ انہوں نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ امریکہ میں حالیہ گریجویشن کرنے والوں میں40فیصد بے روزگارر ہےہیں یا اپنے علم و ہنر سے کم تر ملازمتیں کر رہے ہیں اور یورپ میں50فیصد نوجوان اس عذاب میں مبتلا ہیں۔ مطلب یہ بتانا ہے کہ دیکھنا ہمارے ہاتھ سے ورک فورس بھی نکل رہی ہے اور باغی بھی پیدا ہو رہے ہیں۔
اس پس منظر میں بل کلنٹن نے ایک بڑے مزے کی بات کی۔ کہنے لگے کہ بھئی چیونٹیوں، مکھیوں، دیمک اور انسان میں ایک قدر مشترک ہے جو ان کو زندہ رکھے ہوئے ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب اجتماعی زندگی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ دیکھنا انسان کا یہ وصف چھن جائے تو پھر انسان کا باقی بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اوپر میں نے جس کتاب کا تذکرہ کیا، اس میں ایک مزے کی بات یہ ہے کہ یا تو ہمیں ذرا زیادہ ہمدرد سرمایہ داری نظام دے دو یا ایک ایسی اشتراکیت جس کے پیچھے منڈی کی قوت ہو۔ ویسے دنیا میں دونوں ماڈل موجود ہیں۔ دنیا چین کے ماڈل کا اسی سنجیدگی سے مطالعہ کر تو رہی ہے اور یورپ کے سکینڈے نیوین ماڈل کو اس نظر سے دیکھ رہی ہے۔ سچ پوچھئے کہیں راستہ نہیں مل رہا۔ بڑے بڑے نقاد پیدا ہوتے ہیں، مگر اصل مقصد اس نظام کو بچانا ہوتا ہے۔
ایک دلچسپ بات معلوم ہوئی کہ جب ’اینمل فارم‘ شاید1984ءمیں شائع ہوئی تو اس کا ایک مقدمہ بھی تھا جو مصنف نے لکھا تھا۔ یہ مقدمہ اس کے اولین ایڈیشن میں شائع نہ ہوا۔ اس لئے کہ کتاب کو تو کمیونزم کے خلاف استعمال کیا جانا مقصود تھا، اس مقدمہ میں تو خود برطانیہ کے نظام پر بھی تنقید تھی۔ یہ کیسے برداشت کی جا سکتی تھی۔ یہ کوئی پرانی بات نہ تھی۔ انیسویں صدی کا نصف تھا۔ اب جا کر یہ مقدمہ دریافت ہوا ہے۔ اسے بعض لوگو ں نے شائع کر دیا ہے۔ میں اس کی تلاش میں ہوں۔ مل ہی جائے گا۔ یہ آزادی کے دعوے دار کس کس طرح کی احتیاط کرتے رہے ہیں۔ ادھر اس نظام کے نقاد، سو طرح سے کیڑے نکالیں گے، مگر دل میں یہی تمنا ہوگی کہ کسی طرح یہ نظام بچ جائے۔ پھر بھی اس کے اندر کے تضادات اتنے زیادہ ہیں کہ ہر بار نئے مسائل لے کر سامنے آجاتے ہیں۔ روز نئی تنقید بھی ہوتی ہے۔ خود اہل مغرب نے اسی کے مقابل کیا کیا خواب دیکھے۔ کمیونزم اور فاشزم اسی سرمایہ داری ہی کا ردعمل تو تھا۔ ہمارے اقبال کتنے دانا تھے کہ اس طرح کے تمام ردعمل دیکھے۔ ان پر ہمدردی سے غور کیا اور بالآخر انہیں رد کر دیا۔ ایسے لوگ بھی تھے جو کسی ایک کے اسیر ہوگئے، کمیونسٹ پارٹی نے برصغیر میں کیسی جڑیں پکڑیں ، ہمارے کیسے کیسے ذہین لوگوں نے ہٹلر کے مجسمے کو سلیوٹ کیا۔ اقبال ان سب سے کنی کترا کر نکل گئے۔ یہ بھی نہیں کہ ان کی اچھائیوں کو پرکھا اور دیکھا بھی نہیں۔ ہاں، ایک مفاہمتی رویہ ایسا تھا جو ذر اجان دکھاتا تھا۔ وہ اشتراکی جمہوریت یا جمہوری اشتراکیت کا رویہ تھا، ایک فلاحی ریاست کا خواب تھا۔ اوپر میں نے جو قول نقل کیا ہے کہ ہمدردانہ سرمایہ داری یا منڈی سے قوت پکڑنے والی اشتراکیت ،وہ ایسی ہی کوششیں ہوں گی، مگر شاید اس سے کہیں دور ہیں۔
یہ آج بھی انسانی روح کا بنیادی سوال ہے کہ وہ کیسے ایسا اقتصادی نظام وضع کرے جو سب انسانوں کے دکھ درد کا مداوا بن سکے۔ رہ گئے ہم، تو ابلیس کی بات یاد آتی ہے: ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں۔ اقبال بھی اس سے کیسے کیسے لڑا ہے۔ اور آج بھی ہم ایک حالت جنگ میں ہیں، اقبال کے ساتھ مل کربھی، اس سے ہٹ کر بھی۔
بہ شکریہ نئی بات