محمد علاء الدین ندوی
خدا کی بے شمار نعمتوں میں سے ادب بھی ایک خدائی عطیہ ہے ، ادب ہمیشہ سے انسانی زندگی کے ساتھ جڑا رہا ہے اور جڑا رہے گا ، ادب کسی خاص قوم، خاص زمانہ،اور خاص واقعہ کے حصار میں محدود نہیں رہ سکتا ،و ہ تو ہمیشہ سے انسانی احساسات و جذبات کے ساتھ مربوط رہاہے ، وہ بے حد معززاور لطیف فن ہے، جو قلب و روح کو جلا بخشتا ہے ا ور لذت و منفعت عطا کرتا ہے ، اس کا دامن اتنا ہی وسیع ہے ،جتنی وسعت حیات انسانی میں رہی ہے اور آیندہ ہونے کا امکان باقی رہتا ہے ، وہ اظہار خیال کا پہلا اثر انگیز اور پر کشش ذریعہ ہے ،میوزک اور آرٹ کا مرحلہ بعد میں آتا ہے، بلکہ ادب میں خود میوزک اور آرٹ سمویا ہوا ہوتا ہے۔
ادب سرچشمۂ قوت ہے اور ادب آفریں بھی،وہ مخزن صلاحیت ہے اور صلاح و فساد انگیز بھی ،وہ انسانی شعور کی ایسی حسین پیشکش ہے جس میں ادیب اپنے ذہن و خیا ل پر ابھرنے والے مادی و معنوی حقائق کی شکلوں کو اپنی شعوری تحسین کا ری اور اپنے تجربے کے حوالے سے پیش کرتاہے۔
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ارشاد فرماتے ہیں
’’جب ہم اسلامی ادب کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ادب کی وسعت کو تنگ کرنا نہیں چاہتے، بلکہ ہمارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کے ساتھ لباس کو گندہ نہ کیا جاے اور اس لباس میں کہیں گندگی آجاے تو اس کو ہاتھ کے اشارہ سے بتایا جاے ، اس سے چمٹ کر اپنے کو پراگندہ نہ کیا جاے ، اسلام نے ادب کو اسی خوبی و احتیاط کے دائرہ میں رکھنا پسند کیا ہے اور اس کا حکم دیا ہے۔ادب میں دلوں کو متوجہ کر لینے کی جو طاقت ہے اس کی وجہ سے مختلف زبانوں اور سوسائیٹوں میں اس سے جمہور و عوام کو متأثر کرنے کا کام بھی لیا جاتا رہا ہے ،اس کی مثالیں برے اور اچھے دونوں مقاصد کے لئے تاریخ میں ملتی ہیں،فرانس کے انقلاب میں روسو اور کمیونسٹ اور وولیٹر کے ادب کا کتنا بڑا حصہ ہے؟کمیونزم کو متعدد ملکوں کے عوام میں پسندیدہ بنانے میں کمیونسٹ ادیبوں نے ادب سے کتنا کام لیا ؟اور اس وقت بھی یورپ کی ثقافت و تہذیب کو عام کرنے میں مغرب زدہ ادب کی کتنی خدمات ہیں ؟اس سے اسلام کی تاریخ میں اصلاح و دعوت کے کاموں میں کتنی مدد لی گئی؟ ‘‘
ادب ایک انسانی اور سماجی فریضہ ہے، دراصل ادیب اپنی زندگی اور ماحول سے اپنے احساس و شعور کی طاقت سے کچھ لیتاہے پھر اپنی شخصیت کے شعوری تجربے اور فنی حسن و جمال کا پرتو ڈال کر اسکو واپس لوٹا دیتا ہے ،یہیں سے ادیب اور شاعر کی شخصیت و انفرادیت جلوہ گر ہوتی ہے ،اس انفرادیت کو کسی طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔
ادب حکمت،دانائی،اور نبض شناسائی کے جوہر سے بھی مالامال ہوتا ہے، اس لئے ادیب پر اپنے سماج کے انحرافات و امراض کے خلاف صحتمند رویہ اپنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،ہم ہوں یا دنیا کا کوئی بھی باادب و با مقصد انسان ،ادب کو ادیب کے تصور زندگی اور مقصد حیات سے جدا نہیں کیا جا سکتا،دین کا مقصد اگر انسانی رویوں کو درست کر کے اسے دونوں جہانوں میں کامرانیوں سے ہم کنار کرنا قرار پاتا ہے ،تو ادب ادبی صدقت، جمال،خیر اور حق کی سمت تحسین کاری کی کوشش کا نام ہے۔
ادب اسلامی کا پوداتصور اسلامی کی کشت زار پر اگتا ہے ،تصور اسلامی کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہے جس قدر وسعت اور ہمہ گیری خود اسلام میں پائی جاتی ہے،تصور اسلامی کی یہ وسعت ادب اسلامی کو زندگی کا وسیع کینوس فراہم کرتا ہے،تاہم وہ ادب کو مقصد نہیں وسیلہ سمجھتا ہے،وہ اسلامی مفہومات و تصورات اور اصول و اقدار کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے، مگر وہ وعظ و ارشاد،دعوت و تبلیغ اور عمدہ اخلاق و فضائل کی براہ راست تلقین نہیں کرتا۔قطعا ضروری نہیں ہے کہ ادب اسلامی ،اسلام کے عقائد و حقائق ،اس کی تعلیمات اور اس کے اکابر و عظماء کو موضوع گفتگو بنائے،بلکہ وہ تو انسان ،زندگی اور کائنات کو تصور اسلامی کے زاویہ سے دیکھتا ہے،اوراپنے شعوری تجربے کو ادبی جمالیات اور فنی نزاکتوں کے حوالے سے پیش کرتا ہے۔
مولانا ڈاکٹر سعید الاعظمی ندوی فرماتے ہیں :
’’اسلامی ادب پوری زندگی پر محیط ہے ، زندگی اور کائنات میں پیش آنے والے حالات و وقعات پر اس کی گرفت کبھی کمزور نہیں پڑتی ، وہ واقعات کا فنی انداز میں تجزیہ کرتا ہے اور اپنے گرد و پیش کے حالات پر اپنا اثر ڈالتا ہے اور اپنے پرتوِ جمال سے فکر و خیال کو صحت بخش غذا فراہم کرتا ہے اور ہر طرح کے تخریبی عناصر سے ذہن و دماغ کو پاک کرتا ہے‘‘۔
ادب ایک فطری قوت کا نام بھی، کیونکہ انسانی جذبات یا سماج کے دکھ، درد کا گہرا ادراک ادیب و شاعر سے زیادہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا،حقیقت میں ادیب ہی جگ بیتی کو آپ بیتی بنا کرپھر اس میں خلوص کی مٹھاس اور صداقت کی طاقت بھرتا ہے اور جمالیاتی لطف و لذت کے ساغر میں رکھ کر پیش کرتا ہے تاکہ ادب ایک طرف تو زندگی کا آئینہ بن جائے اور دوسری طرف اس زندگی کومثبت رویہ کے راستے پر ڈالنے میں وسیلے کا کام کرے۔مگر ہمیں یہ نکتہ فراموش نہ کرنا چاہئے کہ ادب اسی وقت تک انسانی فطرت اور سماجی زندگی کی صحیح عکاسی ،بلکہ صحیح خدمت کرتا ہے جب تک انسانی فطرت انحرافات کا شکار نہیں ہوتی،اسلامی تصور زندگی سے جو لوگ محروم رہتے ہیں ان کے لئے فطرت سے انحراف آسان ہو جاتا ہے،اگر ادیب ہی خود انحرافات کا شکار ہو جائے تو پاکیزہ فطرت،صحت مند اور مقصدی و تعمیری ادب کی تخلیق نہیں ہو سکتی۔
اسلامی ادب ایمان کی سرزمین پر اگتا ہے، کیونکہ جب تک آدمی کاایمان و یقین اور اسلامی نظام زندگی کا واضح تصوراس کے فکر و عمل کا سرچشمہ بنا رہتا ہے ،تب تک تو وہصحیح انسانی فطرت پر قائم رہتاہے، اگر اس سے محروم ہوتاہے تو فطرت سے دور جا پڑتا ہے،آج اگر سماج میں منحرف ادب کی گرم بازاری ہے، تو اس کی وجہ یہی ہے کہ لوگ( بشمول ادباء و شعراء یا ان میں اکثرو بیشتر) دین فطرت سے منحرف ہو گئے ہیں اور منحرف تصور زندگی کے علمبردار بن گئے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ منحرف ادب منحرف سماج اور منحرف انسان کی نمایندگی کر رہا ہے۔ اگر ببول کے درخت سے کانٹے پیدا ہوتے ہوں تو یہ عین ا س کی فطرت کے مطابق ہے، احمق و نادان ہے وہ شخص جو اس ببول کے درخت سے سیب کی آس لگاے بیٹھا رہے ۔
چونکہ دنیا کا سب سے پاکیزہ فطرت انسان اورواحد فطری نظریۂ حیات کا پیغامبر محسن انسانیت کی ذات والا صفات تھی اس لئے ان کی زبان مبارک سے جس ادب عالی کا ظہور ہوا ہے، وہ اعلی درجہ کا فطر ی اورانسانی ادب ہے ،اسی ادب کو ہم ادب اسلامی کا شاہکار اور قرآنی ادب کا عکس جمیل کہتے ہیں ، پھر اس دائرہ میں ہر اس ادیب و شاعر کو اپنے نظریۂ حیات کا شاعر و ادیب سمجھتے ہیں جو کم از کم تصوراسلامی اورعام انسانی اخلاقی قدروں کے خلاف بغاوت پر آمادہ نظرنہ آتا ہو۔
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ نے کیا خوب ارشاد فرمایا:
’’ادب، ادب ہے ، خواہ وہ کسی مذہبی انسان کی زبان سے نکلے ، کسی پیغمبر کی زبان سے ادا ہو ، یا کسی آسمانی صحیفہ میں ہو ، اس کے لئے شرط یہ ہے کہ بات اس انداز میں کہی جاے کہ دل پر اثر ہو ، کہنے والا مطمئن اورسننے والا لطف اٹھاے ۔ حسن پسندی تو یہ ہے کہ حسن جس شکل میں ہو اسے پسند کیا جاے ، بلبل کو پابند نہیں کر سکتے کہ اُس پھول پہ بیٹھے اِس پھول پر نہ بیٹھے،لیکن یہ کہاں کی حق پسندی ہے کہ اگر گلاب کا پھول کسی میخانہ کے صحن میں اس کے زیر سایہ کھلے تو وہ گلاب ہے اور اگر کسی مسجد کے چمن میں کھلے تو پھر اس میں کوئی حسن نہ ہو ،کیا یہ اس کا جرم ہے کہ اس نے اپنے نمود اور اپنی جلوہ نمائی کے لیے مسجد کا سہارا لیا ؟