ہندوستانی معیشت پر حج کے فائدے

دانش ریاض
مذہبی سیاحت تجارتی دنیا میں اب اپنی نئی بلندیوں کو چھوتا جارہا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم دنیا میں کبھی مذہبی سیاحت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا تھابلکہ مذہبی زیارت کی پذیرائی کی گئی تھی لیکن بدلتے ماحول میں مذہبی زیارت نے مذہبی سیاحت کی شکل اختیار کر لی ہے۔اسلام میں تین مساجد کا سفر کرنا مسنون و کار ثواب سمجھا جاتا ہے ۔ماضی میں جبکہ نقل و حمل کے محدود ذرائع تھے لوگ اونٹ ،گھوڑا گاڑی یا خچرو گدھو ںپر سفر کرتے تھےتو مذہبی سیاحت کا تصور بھی معدودم تھا لیکن اب مذہبی اسفار اور مقدس مقامات کی زیارت نے باقاعدہ منڈی کی شکل اختیار کر لی ہے۔اگر وسیع تر تناظر میں دیکھیںتو ایران و عراق کے بعض مقامات کا سفر شیعہ حضرات مذہبی زیارت کے ساتھ ساتھ مذہبی سیاحت کے طور پر ہی کرتے ہیں ۔لیکن اگر ہم مذہبی سیاحت کومحض حج پر ہی مرکوز کردیں تو ہندوستان کے حاجی حضرات ہر برس تین ہزار کروڑ کی دولت سفر حج و مکہ ومدینہ میں قیام و طعام پرخرچ کرتے ہیں سال بھر خصوصاً رمضان المبارک میںعمرہ پر جانے والوں کا اندازہ لگایا جائے تو تین ہزار کروڑ کی رقم کئی گنے میں تقسیم ہو سکتی ہے۔ حج کمیٹی آف انڈیا کےسابق سی ای او شاکر حسین کہتے ہیں’’حج کمیٹی آف انڈیا کے معرفت ہندوستان سے ہر برس ایک لاکھ پچیس ہزار حاجی سفر کرتے ہیں ،جو لوگ گرین کٹیگری میں سفر کرتے ہیں ان سے ایک لاکھ پینسٹھ ہزار روپئے لیا جاتا ہے جبکہ عزیزیہ میں قیام کرنے والوں سے ایک لاکھ پینتیس ہزار روپئے وصول کیاجاتا ہے ۔لہذا اگر دونوں کٹیگری کی رقم ملا دی جائے تو تخمیناً رقم 1500 کروڑ تک پہنچتی ہے۔‘‘جبکہ پبلک ٹور آپریٹ کرنے والے ظفر جمال کہتے ہیں ’’پی ٹی اوکو ہندوستان سے پینتالیس ہزار زائرین کا کوٹہ ہے ۔لوگ بہتر سہولت حاصل کرنے کے لئے ڈھائی لاکھ سے تین لاکھ تک کی رقم خرچ کرتے ہیں لہذا اگر مجموعی رقم کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ رقم تین ہزار کروڑ روپئے تک پہنچتی ہے ۔‘‘حج کمیٹی کےسابق سی ای او سے یہ پوچھے جانے پر کہ آخر اس رقم سے ہندوستان کو کتنا فائدہ ہوتا ہے وہ کہتے ہیں’’جہاں تک آمد و رفت کے لئے ہوائی جہاز کا حصول ہے تو سوائے ایئر انڈیا کے کوئی اس میں شرکت کرنا نہیں چاہتا ۔اگر اسپائس جیٹ،جیٹ ایئر ویز یا انڈیکو ایئر ویز وغیرہ ٹنڈر میں شامل ہوں تو ملکی معیشت کو فائدہ حاصل ہو سکتا ہے لیکن معلوم نہیں کن وجوہات کی بنا پر وہ ٹنڈر کی کارروائی میں شامل نہیں ہوتیںلہذا صرف ایئر انڈیاہی ٹنڈر میں حصہ لیتی ہے جبکہ نصف سے زائدحاجیوں کو سعودی ایئر لائنس سے ہی لایا اور لے جایا جاتا ہے ،لہذا حج کے دوران حجاج کرام جو بھی خرچ کرتے ہیں اس کا راست فائدہ صرف اور صرف سعودی عرب کو ہوتا ہے ہندوستان کو نہیں ۔اگر حج کمیٹی کی طرف سے سعودی عرب میں دی جانے والی رقم کو بھی شامل کرلیں تو ہندوستانی حجاج ہر برس تین ہزار سات سو کروڑ روپیہ کا زر مبادلہ صرف سعودی حکومت کےسپرد کرتے ہیں۔‘‘ لیکن لمرا حج و عمرہ ٹورس کے سربراہ مولانا عبد الرحمن ملّی کہتے ہیں’’ہندوستانی حکومت سبسیڈی کے نام پر مسلمانوں کو گمراہ کرتی ہے جبکہ تین ہزار کروڑ سے زائد کا فائدہ صرف ہندوستانی حکومت کو ہوتا ہے ۔‘‘ملّی کے مطابق ’’ہندوستان میں حج کا پورا کاروبار کئی ارب روپیوں پرمحیط ہے۔محض کلکولیٹر پر تعداد گن کر پورے بزنس کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا،میں یہ سمجھتا ہوں کہ سعودی حکومت کےساتھ ساتھ ہندوستان کو بھی حجاج کرام کے زر مبادلہ سے فائدہ ہوتا ہے۔‘‘
اگر حالیہ ریسرچ سروے کی روشنی میں بین الاقوامی مذہبی سیاحت کا جائزہ لیا جائے تو محققین کا کہنا ہے کہ یہ آٹھہزار سو کروڑ سے متجاوز کر گیا ہے۔مذہبی بیداری کے ساتھ پیسے کی افراط نے بھی لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ وہ برابر حج پر جائیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ضلع تھانے میں ایک کلاسیز کے مالک و مشہور ماہر تعلیم جو ہر برس فریضہ حج ادا کرتے ہیں اور رمضان المبارک میں پابندی کے ساتھ عمرہ کرتے ہیں ، کہتے ہیں’’احادیث رسول ﷺ میں حج و عمرہ کی کثرت سے فضیلت وارد ہوئی ہے لہذا جو صاحب حیثیت ہے اگر وہ ہر برس حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرتا ہے تو کوئی معیوب بات نہیں ہے۔البتہ یہ حقیقت ہے کہ اس سے دونوں ممالک کی معیشت پر خاطر خواہ اثر پڑتا ہے اور یہاں کی معیشت نمو پاتی ہے‘‘۔
البتہ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ حج و عمرہ کے اس مقدس فریضے کی ادائیگی کروانے کے نام پر جہاں حج کمیٹی گنگا اشنان کر رہی ہے اور ہندوستانی معیشت کے ساتھ سعودی حکومت کو فیض پہنچا رہی ہے وہیں پرائیویٹ ٹور آپریٹرس کے خزانے بھی کافی بھرتے جارہے ہیں اگر بدعنوانی کرنے والے ٹور آپریٹرس کو بھی شامل کر لیا جائے جو دھوکہ دے کر عازمین حج سے موٹی رقمیں وصولتے ہیں لیکن عین موقع پر پہلو تہی اختیار کر کے اپنا پلّو جھاڑ لیتے ہیں تو مذکورہ رقم میں مزید اضافے کا امکان ہے۔سماجی کارکن مقصود احمد کہتے ہیں’’پبلک ٹورس آپریٹر وں کی بدعنوانیوں کا اگر جائزہ لیا جائے اور دھوکہ دے کر جس طرح حج کے نام پر وہ لوگ رقمیں وصول کرتے ہیں اسے ملحوظ خاطر رکھا جائے تو صرف پی ٹی اوز کی رقم ہی کئی کروڑ روپئے میں تبدیل ہوجاتی ہے جس سے نہ صرف ہندوستان کی معیشت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ حکومت اور اس کے کارندوںکو اس کا راست فائدہ ملتا ہے‘‘۔
معاملہ خواہ ہندوستانی معیشت میں نمو کا ہو سعودی حکومت کے خزانے میں اضافے کا حقیقت یہ ہے کہ حج وعمرہ کا جو فریضہ کبھی خالصتاً مذہبی رنگ اختیار کئے ہوئے ہوتا تھا اب اس نے تجارتی روپ لے لیا ہے۔اگر صرف مکۃ المکرمہ کے بازار کا ہی جائزہ لیں تو زائرین کے مطابق دنیا کے تمام سامان وہاں موجود نظر آئیں گے حتی ٰ ’’Made in China ‘‘کا ٹیگ اب بیشتر سامان پر نظر آجائے گا۔حال ہی میں سفر حج سے لوٹے ایک زائر کہتے ہیں’’سعودی عرب کے بازاروں ،حتیٰ کہ مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ کے شاپنگ مالس میں ایسی چیزیں کھلے عام فروخت کی جاتی ہیں جس کا کہ عموماً پابند شرع مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتا۔مغربی ممالک کے ساتھ ایشیائی اور یوروپی ممالک کے پروڈکٹس کا جس طرح بے تحاشہ استعمال وہاں کیا جاتا ہے اور زائرین جس طرح منہ مانگی قیمتوں پر وہاں سامان خریدتے ہیں کسی اور بازار میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔‘‘
مختلف لوگوں کے بیانات کی روشنی میں اب یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مقدس فریضے کی دائیگی اب صرف خلوص و للہیت کے لئے نہیں ہے بلکہ تجارتی عناصر نے بھی بھر پور انداز میں اپنے قدم جما دئے ہیں۔لیکن کیا اس پورے معاملے پر ہندوستانی معیشت کو فائدہ ہو رہا ہے ،یقیناً یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *