ایک اسکول جہاں قائد تیار کئے جاتے ہیں

فضلانی گلوبل لاکیڈمی نے مختصر مدت میں ہی اپنی شناخت قائم کر لی ہے۔جنوبی ممبئی میں واقع اس ادارے نے سیکڑوں ایسے فارغین دئے ہیں جو آج سماج میں کچھ بہتر کارنامہ انجام دے رہے ہیں ۔پیش ہے آرزو شوکت علی کی اجمالی رپورٹ

فضلانی اسکول کی بلڈنگ کا بیرونی منظر
فضلانی اسکول کی بلڈنگ کا بیرونی منظر

فرح چشمہ والا اپنی بچی کی پڑھائی سے بہت مطمئن ہیں،انہیں امید ہے کہ ان کی بچی زندگی میں کچھ بہتر کرے گی۔جب ان کی پرامید باتیں سماعت سے ٹکراتی ہیں تو وہ فضلانی گلوبل اسکول کا تذکرہ کئے بغیر نہیں رکتیں،وہ کہتی ہیں کہ جب سے ان کی بچی نے مذکورہ اسکول میں قدم رکھا ہے اسی وقت سے اس کے اندر بہتر تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔یہی کچھ حال پوربی ووہرا کا ہے وہ کہتی ہیںکہ’’بطور ماں FLAGکے ساتھ میرا سفر کافی خوشگوار رہا ہے۔یہ تو میرے بچے کے لئے اس درخت کی طرح ہے جس کی جڑیں زمین میں دور تک چلی گئی ہوں۔دراصل اسکول نے میرے بچے کو بنیادی اور بہتر تعلیم سے آراستہ کیا ہے‘‘۔گفتگو تھوڑی مزید دراز ہوتی ہے تو شاملی بھگت کے خیالات بھی سننےکو ملتے ہیں۔ان کی باتیں جہاں ذمہ داران کے تگ و دَو کو مہمیز دیتی ہیں وہیں اسکول انتظامیہ بھی اپنے کارناموں پر خوشی کے آنسو بہاتے نہیں کتراتا ۔شاملی کہتی ہیں ’’کسی بھی ادارے کی ترقی و کامیابی کا دار و مدار اس کی قیادت اور اس کے ذمہ داران پر ہوتا ہے، خوش قسمتی سے فضلانی گلوبل اسکول کے ذمہ داران اپنی ذات میں انجمن ہیں،یہی وجہ ہے کہ وہاں کے طلبہ بھی بلندیوں کو سر کرنا چاہتے ہیں۔براہ راست مکالمہ اور بلاجھجھک رابطہ ہمیں ان کا گرویدہ بنا دیتا ہے اور ہم اس اسکول کی تعریف کئے بنا نہیں رہ پاتے۔‘‘
دراصل جس مقصد کے تحت کہ ہمارے بچے عالمی ضرورتوں کو پورا کرنے والا بنیںاور بین الاقوامی تقاضوں کو پورا کریں ،وہ نہ صرف اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں،بلکہ عالمی شہری کا کردار ادا کریںساتھ ہی ان کی اعلیٰ صلاحیتوں سے پوری دنیا مستفید ہو،مذکورہ اسکول اپنے پیغام کو بہ خوبی عام کررہا ہے۔ ’’فضلانی لاکیڈمی گلوبل‘‘کے چیرمین ڈاکٹرعبدالقادر فضلانی کہتے ہیں’’دراصل کوئی لیڈر پیدا نہیں ہوتا بلکہ وقت و حالات لیڈر پیدا کیا کرتے ہیں۔فضلانی لاکیڈمی گلوبل کی بھی خواہش یہی ہے کہ وہ آئندہ نسلوں کے لئے لیڈر پیدا کرے۔ساتھ ہی بچوں کی صلاحیتوں کی اس طرح آبیاری کی جائے کہ موجودہ دنیا میں وہ لوگوں کی راہبری کا کام انجام دے سکیں۔ ہم نے اپنے نصب العین میں اس بات کو شامل کیا ہے کہ ہماری توجہ ایسے افراد تیار کرنے پر ہو جو ملکی و عالمی ضرورتوں کا پورا کرنے کا داعیہ رکھتے ہوں۔ FLAGنے اپنا نصاب تعلیم اس طرح ترتیب دیا ہے کہ موجودہ دنیا کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے تکنیکی ضرورتوں کی تکمیل کی جائے جہاں تمام طرح کے پروفیشنل استعداد کو بروئے کار لایا جاسکے۔‘‘ڈاکٹر فضلانی کے مطابق’’ہم نے مذکورہ اہداف کو حاصل کرنے کے لئے ایسے اساتذہ کا تقرر کیا ہے جن کی نظر پوری دنیا کو محیط ہو۔ہمارے یہاں ایسے قابل ،تجربہ کار ،دوررس نگاہ رکھنے والے اساتذہ ہیںجو نہ صرف موجودہ دور کا ہمہ وقت تجزیہ کرتے رہتے ہیں بلکہ پیش آئندہ مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے طلبہ کو کس طرح تیار رہنا چاہئے اس کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔چونکہ روز بدلتی دنیا میں روزانہ ایسی تبدیلیاں ہو رہی ہیں کہ اگر بر وقت طلبہ کو اس سے آگاہ نہ کیا جائے اور اس کے مطابق تیار نہ کیا جائے تو ان کے پیچھے رہ جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے ۔لہذا ہم طلبہ و طالبات کو ہرمحاذ پر کامیاب و کامران دیکھنے کے لئے انہیں ہمہ وقت تیار رکھتے ہیں۔‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ FLAGنے جس قلیل مدت میں اپنی شناخت قائم کی ہے اس کی نظیر کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔دراصل ادارہ طلبہ،اساتذہ ،جملہ ذمہ داران کے ساتھ والدین کو بھی اپنی تمام سرگرمیوں میں شامل کرتا ہے جس سے تمام لوگ کھلے طور پر طلبہ کی فلاح و بہبود کے لئے نئے نئے آئیڈیاز پیش کرتے ہیں اور اس میں رنگ بھرنے کے لئے اپنا بھی بھرپور تعاون پیش کرتے ہیں۔اسی طرح جب نئے طلبہ ادارے کا حصہ بنتے ہیں تو قدیم طلبہ ان کی رہنمائی کا کام کرتے ہیں اور ادارے کے قواعد و ضوابط سے آگاہ کرتے ہیں۔

فضلانی اسکول کی بلڈنگ کا بیرونی منظر
فضلانی اسکول کی بلڈنگ کا بیرونی منظر

اس وقت جبکہ تعلیم محض معاش کا ذریعہ بن گیا ہےانتظامیہ اسے اپنی جاہ و حشم کی جاگیر سمجھتا ہےجہاں اخلاقی قدریں پامال ہوتی جارہی ہیں وہاں FLAGجیسے ادارے قوم و ملک کی بقا کی ضامن بنتے جارہے ہیں۔عامر عثمانی ؒ کے الفاظ میں کہ ؔ
قدم قدم کھلے ہوئے ہیں مکر و فن کے مدرسے
مگر یہ میری سادگی تو دیکھئے کہ آج بھی
وفا کی درس گاہوں کا نصاب ڈھونڈھتا ہوں میں
جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں
شاید FLAGاس کی عملی تعبیر پیش کر رہا ہے۔ممبئی کے قلب میں واقع یہ عالمی ادارہ نہ صرف نام کی وجہ سے عالمی ہے بلکہ اپنی خدمات کے اعتبار سے بھی اسے عالمی درجے کا قرار دیا گیا ہے۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ انگریزی زبان کی بین الاقوامی ضرورتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے جہاں اسے برتا جاتا ہے وہیں طلبہ اپنی مادری زبان سے بھی آگاہ ہوں اور اس زبان کو بھی اہمیت دیں اس کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔FLAGکی دوسری خاصیت یہ ہے کہ جنوبی ممبئی کا یہ وہ قدیم ادارہ ہے جسے آئی بی ڈپلومہ اسکول کا اعزاز حاصل ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جہاں یہ (IB) Primary Years Programme International Baccalaureate (PYP)کے لئے آفیشیل ذمہ دار ہے وہیںIGCSE Programmeکے لئے بھی طلبہ کی تیاریاں کراتا ہے۔طلبہ کے اندر تعلیمی ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے مختلف طرح کے طریقے اختیار کئے جاتے ہیں۔طلبہ و اساتذہ کے مابین راست معاملہ ہو جبکہ طلبہ بآسانی پریشانیاں بیان کر سکیں اوراساتذہ تمام طلبہ کو خصوصی وقت دے سکے اس کی خاطر جہاں چھوٹے کلاس میں محدود طلبہ کی تعداد رکھی گئی ہے وہیں اساتذہ کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ ہر طالب علم سے اس کےمسائل جاننے کی شش کریں اور اسے حل کریں۔اگر کوئی طالب علم کسی مضمون میں کمزور ہے تو اس پر خصوصی توجہ ہو تاکہ وہ بہتر سے بہتر کرسکے۔چونکہ طالب علم اپنے مسائل اسی وقت بیان کرے گا جب وہ اپنے اساتذہ سے گھلا ملا ہو۔لہذا طلبہ و اساتذہ کے مابین دوستانہ ماحول کو فروغ دینےکی کوشش کی گئی ہے تاکہ طالب علم بغیر کسی خوف و جھجھک کے اپنی بات بیان کر سکے۔ان تمام کے ساتھ ہی جو بہتر سہولت فراہم کی گئی ہے وہ طلبہ اساتذہ اور گارجین کے مابین رابطے کی کوشش ہے ۔اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ تمام لوگ یکجا ہوں اور مشترکہ طور پر خوشگوار فضا تیار کریں۔ادارے کے کوآرڈینیٹر عباد صدیقی کہتے ہیں’’الحمد للہ ہمارا ادارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔یہاں کے فارغین دوسری جگہوں پر جاکر ہمارا نام روشن کر رہے ہیں،انہیں یہ احساس ہے کہ جو کچھ انہوں نے اس ادارے سے حاصل کیا ہے وہ ان کی منزل کو مزید آسان بنانے میں کام آئے گا۔شاید یہاں کام کرنے والوں کا خلوص،والدین کی توجہ اور طلبہ کی محنت ہی ہے جس نے اسے تمام اداروں میں ممتاز رکھا ہے۔اللہ کا کرم ہے کہ تمام لوگ یہاں کے طریقہ تعلیم سے مستفید ہوتے ہیں اور اپنے اداروں میں اسے نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ہر مذہب کو ان کے مذہب کے مطابق تعلیم دینے والا یہ ادارہ قومی یکجہتی کی بھی عظیم مثال پیش کر رہا ہے۔عباد صدیقی کے مطابق’’ہر مذہب کے والدین یہاں کی تعلیم سے بہت ہی خوش نظر آتے ہیں چونکہ انہیں ایک ہی جگہ ایک ایسی تعلیم مل جاتی ہے جس کی پوری دنیا میں قدر ہے تو وہ اس بات سے مطمئن نظر آتے ہیں اگر ان کے بچے نے یہاں بہتر طور سے تعلیم حاصل کر لی تو پھر وہ زندگی کے دوڑ میں کبھی پیچھے نہیں رہے گا۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *