
کیا آپ سستا مکان بنانا چاہتے ہیں
ممبئی میں جبکہ سستے مکانات کے لئے لوگوں کا تگ و دو جاری ہے،کچھ ایسے لوگ ہیں جو سستے مکانات کی تعمیر کا جائزہ لے رہے ہیں۔غیر قانونی مکانات کی تعمیر کے درمیان اگر سستے مکانات فراہم کئے جائیں تو کیا لوگ اسے قبول کریں گے پیش ہے ہاورڈ سنکوٹاکی رپورٹ
یو ں تو یہ ایک قیاسی بلاگ کے طور پر شروع ہو ا تھا لیکن اب یہ پیشہ ورانہ اور ڈیزائن کا چیلنج بن گیا ہے اور اس بات کا پورا امکان ہے کہ یہ عالمی پیمانے کی سماجی اور اقتصادی تحریک بن جائے گا ۔
برسوں پہلے کی بات ہے جب وجے گووند راجن ہندوستان میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی ڈگری حاصل کر نے کے لئے پڑھائی میں مصروف تھے ۔وہ اپنے گھر سے بس اسٹاپ جانے کے لئے جھگی جھونپڑی کے ایک علاقہ سے گزرتے تھے ۔بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح انہوں نے بھی غریبی کو براہ راست دیکھنے کا یہ تجربہ فراموش نہیں کیا ہے ۔
اب گووند راجن نیو ہیمپشائر میں ڈارٹ ماؤتھ کالج میں انٹر نیشنل بزنس کے پرو فیسر ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ’’جن لوگوں کو آپ دیکھ رہے ہیں وہ بہت اچھے لوگ ہیں،لیکن وہ ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں پھنس گئے ہیں ۔ گھر مناسب نہ ہوں تو صفائی ستھرائی بھی مناسب نہیں ہو تی ۔ لوگ بیمار ہو جاتے ہیں ، کام نہیں کر سکتے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ لوگ اتنے پیسے نہیں کما سکتے جو مناسب گھر بنانے کے لئے یا اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے کافی ہو ں۔‘‘
بلاگنگ اورنیٹ ورکنگ
2010میں گووند راجن نے ترقیاتی امور کے ایک صلاح کار کرسٹین سرکار کے ساتھ ہارورڈ بزنس ریویو ویب سائٹ پر ایک بلاگ پوسٹ کیا جس میں ایک سیدھا سادا لیکن چیلنجوں بھرا سوال پوچھا گیا ۔ جو یہ تھا کہ :کیا یہ ممکن ہے کہ دنیا کے غریب ترین لوگوں کوفی یونٹ 300 ڈالر کی لاگت سے عمدہ مکان رہنے کے لئے فراہم کیا جائے؟
ان لوگوں نے کچھ رہبر اصول ضرور پیش کئے ،لیکن اسی کے ساتھ بنیادی ضابطے بھی پیش کئے ۔جیسے کہ یہ کہا کہ اس طرح کے مکان بنانے میں مقامی طور پر دستیاب ایسا مال استعمال کیا جائے جس کی پیداو ار بڑے پیمانے پر ہو سکتی ہو ۔ صاف پانی ، سینی ٹیشن کی سہولت اور بجلی فراہم کی جائے ۔ماحولیاتی تحفظ اور لیاقت برداشت کے پیمانے اپنائے جائیں اور ایسے ڈھانچے تیار کئے جائیں جو نہ صرف زبردست بارش بلکہ زلزلے تک میں کھڑے رہنے کے اہل ہوں۔اور آخر میں یہ کہ یہ سارا کام صرف300 ڈالر میں کیا جائے ۔
گووند راجن نے کہا کہ ’’یہ بلاگ صرف ایک فکری تجربہ تھا۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس تجربہ کی بنیاد نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات محمد یونس کے اس اظہار خیال پر مبنی تھی کہ جب لوگ غریبی سے باہر نکلتے ہیں تو وہ اکثر صورتوں میں مکان بناتے ہیں اور جس کی قیمت تقریباً 370 ڈالر ہو تی ہے ۔’’ہم لوگوں نے صرف اسی 370کو گھٹا کر 300کر دیا ہے ۔‘‘
ابتدائی بلاگ پر اس قدر توجہ مرکوز ہوئی کہ بلاگ کے مصنفین نے ایک سماجی میل جول ویب سائٹ ( www.300house.com )شروع کیا اور لوگوں کو بحث میں حصہ لینے کے لئے دعوت دی ۔ 2500 سے زائد آر کی ٹکٹوں ، انجینئروں ،ڈیزائنروں ،بلڈروں ، ڈیولپمنٹ ماہرین ،ماہرین تعلیم اور تجارتی نمائندوں نے اس بحث میں شرکت کی ۔
ڈیزائن کا چیلنج
اس پہلے بلاگ کے کئی ماہ بعد گووند راجن اور سرکار نے 300ڈالر کے مکان کے لئے عالمی ڈیزائن مقابلہ کا اہتمام کیا ،جس کے لئے 300 سے زائد اندراجات آئے۔ ان میں ایک اہم صنعت کار کفیل کمپنی انگر سول رینڈ بھی تھی جس نے اس مقابلے کی انعامی رقم کا بھی اعلان کیا۔ گووند راجن نے کہا کہ ’’اصل معاملہ قیمتوں کا اتنا نہیں تھا ۔ ہم لوگ یہ چاہتے تھے کہ لوگ کچھ اس طرح سوچیں کہ جیسے وہ مریخ پر پہنچ گئے ہیں ۔فرض کریں کہ ہمارے پاس ایک سفید کاغذ ہے ۔ یہ300 ڈالر کا مکان حقیقی معنو ں میں اس کااستعارہ ہے کہ غریب آدمی تک صحت ،صفائی اور دیگر بنیادی سہولتیں پہنچ سکتی ہیں۔ ‘‘
300ڈالر ہاؤس کمیونٹی سے وابستہ لوگوں کے جو ووٹ آئے ان کو ملا کراور ماہر ڈیزائنروں کی ایک آزادکمیٹی کی مدد سے ایسے 16 لوگوں کی فہرست بنائی گئی جن کو فائنل مقابلے میں شرکت کا حقدار قرار دیا گیا ۔فائنل میں آنے والوں کے درمیان25000 ڈالر کے مجموعی انعامات تقسیم کئے گئے ۔ ان میں سے او پر کے6 جیتنے والوں کو اسکالر شپ کی صورت میں 15000ڈالر د ئے گئے تا کہ وہ اپنے تصور کو حقیقت کا روپ دے سکیں ۔
اسی کے ساتھ ڈارٹ ماؤتھ کالج میں ٹک اسکول آف بزنس کے طلبا نے مقامی لوگوں کے علاوہ سرکاری افسروں اور تجارتی نمائندوں سے مل کر ہندوستان میں 300 ڈالر کا مکان بننے کی عملی صورت کا جائزہ لینے کے لئے ممبئی اور رائے پور کادورہ کیا ۔
دوسرے چیلنج
ایسا نہیں ہے کہ 300ڈالروں کے مکان کے منصوبے کاہر طرف سے شورِ تحسین کے ساتھ خیر مقدم کیا گیا ہو ۔ترقیاتی ماہرین اور بین الاقوامی رضاکار تنظیموں نے بڑے اعتراضات بھی اٹھائے ۔ ان میں ایک اعتراض یہ تھا کہ ایک مکان سے، خواہ وہ کتنا ہی سستا اور اچھے ڈیزائن کا بنا ہوا کیوں نہ ہو، ایسے 1.5 بلین لوگوں کے رہائش کا مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا جن کے پاس خاطر خواہ مسکن نہیں ہے ۔ اس میں کامیابی صرف ایک جامع طرز عمل سے مل سکتی ہے ۔ یونیور سٹی آف کیلی فورنیا ، برکلے میں شہری منصوبہ بندی کے ایسو سی ایٹ پرو فیسر جیسن کاربن نے اپنے بلاگ پر لکھا کہ ’’ مکان سازی ، آراضی کے حقوق ، اقتصادی امکانات ، صنفی حقوق ، صحت اور سلامتی کے درمیان رسمی سمجھوتہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے پیچیدہ تعلقات اس راہ میں ایک مسئلہ بن سکتے ہیں۔‘‘
دیگر اعتراضات اچھی نیت کے غیر ارادی نتائج پر مرکوز ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ایسے مکانات کے لئے پہلے سے تیار کیاگیا سامان بہت بڑی تعداد میں استعمال کیا جائے گا اور اس کے نتیجے میں چاہے بغیر بھی روزگار کے مقامی مواقع کم ہو جائیں گے ۔
آن لائن بحث میں حصہ لینے والے دیگر حامیوں کے ساتھ گووند راجن اور سرکار نے اپنے رد عمل میں اس خیال سے پورا اتفاق کیا کہ ایک ’’کلیور باکس‘‘ کا ڈیزائن بنا لینا اکیلے ہی اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔
سرکار اپنی عوامی نمائندگیوں میں بار بار کہتے ہیں کہ آخر کار مکان اصل مسئلہ نہیں ہے ۔بلکہ خدمات کے ایک ہمہ گیر ماحولیات دوست نظام کی ضرورت کی طرف زور دیتا ہے ،جس میں سینی ٹیشن سے بجلی کی فراہمی اور صحت و تعلیم کی سہولتیں تک شامل ہیں اور یہی وہ چیزیں ہیں جو مل کر غریبی کانہ ختم ہونے والا چکر توڑ سکتی ہیں ۔
انہوں نے اس معاملہ میں نجی زمرے ،سرکاری تنظیموں اور غیرسرکاری تنظیموں کو شریک کر نے کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔ سرکار نے کہا کہ ’’ہم لوگ یہ نہیں چاہتے کہ یہ محض ایک خیراتی کام ہو۔ ‘‘ انہوں نے اس موقع پرایک عام کہاوت دہرائی ’’آپ اپنے آپ کو چندہ دے کر غریبی سے باہر نہیں لا سکتے۔ ‘‘
تصور سے نقش اول تک
300 ڈالر کے مکان کا مقابلہ جیتنے والے 6 لوگوں نے اس چیلنج کو الگ الگ طریقوں سے قبول کیا ۔ یوں تو ان میں سے ہر کسی نے اس پر زور دیا کہ بازار میں آسانی سے مکمل طور پر دستیاب اشیا اور مقامی مزدوروں کا استعمال کیا جائے ،لیکن فہرست میں سب سے اوپر رہنے والے اندراج میں جرمنی کے پٹی اسٹوٹر نے اس طرف اشارہ کیا کہ بالائی دیوار ہائپر ویٹل یعنی 20سینٹی میٹر لمبی جالی دار ٹیوب سے بنائی جائے جو مٹی اور پانی کے ملغوبے میں ڈبائی گئی پیال یا لکڑی کے ٹکڑوں سے بنائی جاتی ہے۔
جیتنے والے ایک اور اندراج میں ،جو کہ آر کی ٹیکچر کامنس کے ایرک ہو کاا ندراج تھا ، مٹی کے کمپریسڈ بلاک استعمال کر نے کی بات کی گئی اور ایسے چھوٹے ادارے قائم کر نے پر زور دیا گیا ،جن کے ذریعہ مقامی باشندوں کو اپنے گھر تعمیر کر نے میں تعمیرات سے متعلق روزگار فراہم کیا جاسکتا ہو ۔ اس تجویز کے مطابق کم و بیش 100 خاندانوں پر مشتمل ایک یونٹ بنائی جائے جو کہ مٹی کے بلاک اور چھت کے ٹائل بنانے کی صنعت میں حصہ لیں اور منافع میں بھی حصہ دار بنیں ۔
ایک الگ صنعتی زمرہ میں جیتنے والی کمپنی ممبئی کی کثیر قومی کمپنی مہندرا اینڈ مہندرا ہے جس کے ڈیزائن میں کئی دوسروں کی طرح تعمیر میں بانس کے استعمال اور بجلی کے لئے شمسی پینلوں کے استعمال کی بات کی گئی ہے۔
مقابلہ میں جیتنے والے یہ لوگ ڈارٹ ماؤتھ کے کیمپس میں جمع ہوئےجہاں اپنے اپنے ڈیزائنوں کا نمونہ بنایا، جن کی قدر و قیمت کا تعین باہر کے ماہرین سے کرایا گیا ۔ اس دوران ڈارٹ ماؤتھ اپنے یہاں سے ٹیچروں ،انتظام کاروں اور گریجویٹ طلباکی ایک ٹیم ہیتی بھیجتی رہی جہاں وہ لوگ ایک پورا ایسا نمونہ گاؤں تعمیرکرنے کے امکانات کا جائزہ لیتےرہے ،جو ایک کارگر برادری کے طور پر ارتقا کر سکے ۔
گووند راجن کا خیال ہے کہ300 ڈالر سے مکانات کی تعمیر ایک قسم کی معکوس سوشل انجینئرنگ ہے ،جس میں معیاری اوپر سے نیچے کے ماڈل کی بجائے اختراعی اور اقتصادی اہرام کی نچلی سطح سے اوپرجانا ہے اور ان کے خیال کے مطابق اس کی عالمی منڈی 5 ٹریلین ڈالر کی ہے ۔گووند راجن اور سرکار نے اپنے بلاگ پر ڈھیر ساری تحریروں میں سے ایک میں لکھا ہے کہ ’’ اس میدان میں کاروبار کے قدم رکھنے کے بعد ہم تمام لوگ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ پیش قدمی دو سطحوں پر کامیابی حاصل کرے اور ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ دونوں سطحیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ یعنی ایک تو منافع اور دوسری انسانی حالت میں بہتری ۔
ہاورڈ سنکوٹا، امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے قلمکار اور ایڈیٹر ہیں۔