1960اور 1970کی دہائی کے مایہ ناز کرکٹ کھلاڑی سلیم درّانی سے دانش ریاض کی تفصیلی ملاقات
1960اور 1970کی دہائی کے مایہ ناز کرکٹ کھلاڑی سلیم درّانی سے دانش ریاض کی تفصیلی ملاقات

آپ کی ابتدائی زندگی کیسی رہی،کابل سے ہندوستان تک کا سفر کیسا رہا؟
جواب: یہ 1928-29کی بات ہے کہ میرے دادا نانا افغانستان کے شاہ امان اللہ خان کے یہاں نوکری کیاکرتے تھے جبکہ میرے بڑے ابّا نے جب آٹو موبائل انجینئرنگ مکمل کی تو وہ کراچی منتقل ہوگئے۔میرے ابا عبد العزیز درّانی ہر فن مولا ایک اچھے اسپورٹس مین تھے وہ ٹینس ،فٹ بال اور ہاکی وغیرہ بھی کھیلا کرتے تھے انہوں نے ہندوستان کے لئے دو ٹیسٹ میچ بھی کھیلا تھا۔ہم لوگ کراچی کے رنسوڑ لائن میں رہتے تھے اس وقت سندھ کے اوپننگ بیٹس مین جے نائو مل سے ہمارے گھریلو تعلقات تھے ۔انہوں نے ایک مرتبہ ابّا کو وکٹ کیپنگ اور گول کیپنگ کرتے دیکھ لیا۔اور پھر والد صاحب کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ابّا نے 18برس کی عمر میں ہی رنجی ٹرافی کھیلا یہ اسی وقت کی بات ہے کہ جام نگر(ہندوستان) کی ایک ٹیم آئی جس نے سندھ کے خلاف میچ کھیلا ،ابّا سندھ کی ٹیم کے ممبر تھے ،جب جام نگر کے راجا جام صاحب نے ابّا کو کھیلتے دیکھا تو انہوں نے میرے بڑے ابّا سے گذارش کی کہ وہ اپنے بھائی کو جام نگر لے جانے دیں بالآخر بڑے ابّا نے اجازت دے دی ،ان دنوں ہندوستان پر انگریزوں کا راج تھا اور یہاں آگئے۔اس دوران ابّا نے امر سنگھ،رام جی،منی شنکر وغیرہ کھلاڑیوں کے ساتھ رنجی ٹرافی کھیلا۔1937میں جام نگر کی ٹیم رنجی ٹرافی چیمپئن رہی جس میں ابّا اوپن بیٹس مین اور وکٹ کیپر تھے ،جبکہ اس وقت کے راجا دگ وجے سنگھ جی تھے جنہوں نے ابّا کی کافی حوصلہ افزائی کی۔لہذا گھر کا ماحول ہی اسپورٹس کا تھا۔میری پیدائش کابل میں ہوئی لیکن پرورش جام نگر میں ہوئی جبکہ ممبئی کے انجمن اسلام ہائی اسکول سے میںنے میٹرک کا امتحان پاس کیا ہے۔ممبئی آنے کے بعد ہی مجھے شہرت ملی،کیونکہ میں ممبئی اسکول سے کھیلا کرتا تھا۔جب آل انٹر اسکول کچھ بہار ٹرافی کا میچ 1949میں کلکتہ میں ہوا تو میں فائنل گیم میں شریک تھا جس میں میں نے 6وکٹ لیا تھا۔اسکول سے علحدگی کے بعد میں واپس جام نگر آگیا اور سوراشٹر کے لئے رنجی ٹرافی میں سلیکٹ ہوگیا۔ احمد آباد میں جب سوراشٹر بالمقابل ((VSگجرات پہلی رنجی ٹرافی کا مقابلہ ہوا تو میں نے 16برس کی عمر میں سنچری بنائی جو میرا پہلا ریکارڈ تھا۔1958میں مہارانہ ادے پور نے مجھے اپنے یہاں بلا لیا جہاں میں 20برس ان کی ملازمت میں رہا ۔
سوال: کیا آپ کو امید تھی کہ آپ زندگی میں اتنا لمبا سفر طے کریں گے؟
جواب: جب میں اسکول میں کھیلتا تھا تو اتنے بڑے خواب نہیں تھے،بلکہ جب میں نے 1959میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ میچ کھیلا جس وقت ان کی ٹیم کے کپتان ڈی جی بینو تھے تو اس وقت بھی مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں کچھ بڑا کر رہا ہوں،لیکن یہ بات دلچسپ ہے کہ انگلینڈ کے میلبورن اسٹیڈیم میں میں نے پہلا اور آخری میچ کھیلا۔1973میں میں نے میلبورں میں ہی ٹیڈ ٹیکسچر کا پہلا وکٹ لیا جبکہ ٹونی گراڈے کا آخری وکٹ لیا۔
سوال : آپ کو بالآخر اس سال لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ملا ہے ،اس سلسلے میں آپ کے کیا احساسات ہیں ،کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ بہت تاخیر سے آپ کو ایوارڈ دیا گیا ہے؟
جواب:یہ غلط بات ہے کہ مجھے تاخیر سے ایوارڈ ملا ہے۔لوگ اپنے اپنے حساب سے دیکھتے ہیں ۔میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ یہ ایوارڈ بہت کم لوگوں کو ملا کرتا ہے لیکن BCCIنے مجھے اس لائق سمجھا کہ اس نے مجھ پر نظر کرم کیا ،میں اس سلسلے میں BCCIکا مشکور ہوں حالانکہ BCCIسے میرے خاندانی بہتر تعلقات ہیں۔
سوال: ان دنوں آپ کی کیا مصروفیت ہے؟
جواب: جام نگر میں میری تھوڑی زمین ہے جس کی رکھوالی کرتا ہوں جبکہ Rajasthan Cricket Associationکا میں چیرمن ہوں لہذا زیادہ وقت وہیں گذرتا ہے کیونکہ میں بیس برس مہارانہ ادے پور کے محل میں اور پچیس برسوں سے راجستھان کر کٹ سے جڑا رہا ہوں۔
سوال: آپ نے اپنی اکیڈمی شروع کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
جواب: ہم لوگ خود کر کیٹر ہیں جس کو بڑا کر کیٹر بننا ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو خود تیار کرتا ہے ،میں اکیڈمیوں کو پسند نہیں کرتا البتہ اگر کوئی کھلاڑیوں کی تربیت کے لئے بلاتا ہے تو میں ضرور جاتا ہوں ،اکیڈمی ضرروی ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری ایمانداری ہے۔لوگ بچوں کو تربیت دے کر ان کی ہمت افزائی نہیں کرتے بلکہ اکیڈمیز اب سوائے بزنس کے اور کچھ نہیں ہے،اگر میں کوئی اکیڈمی قائم بھی کرتا تو مفت میں تربیت دیتا۔لوک اچھے ٹیلنٹ کو فری میں نہیں سکھاتے ،میں نے اپنی زندگی میں جو کچھ بھی حاصل کیا ہے اس کے لئے انجمن اسلام اور ضیاء الدین صاحب کا مشکور ہوں کہ انہوں نے مفت میں میری تربیت میں حصہ لیا۔
سوال: بی سی سی آئی کی سلیکشن کمیٹی کا ممبر بننے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
جواب: میں صرف ایک کرکٹر تھا میری اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ میں کسی کمیٹی کا حصہ بنوں ،میں کمیٹیوں کے لئے دعا کرتا ہوں کہ وہ اچھا کرے البتہ میں ہمیشہ صلاح و مشورہ دیتا رہتا ہوں۔
سوال : آپ کے دور میں بہترین کر کٹر کون لوگ تھے؟
جواب:میری ابتداء میں سید مشتاق علی،سی کے نائیڈو ،جن کو ہم نانا ابّا کہتے تھے،(ان کا آخری دور تھا) ویسٹ انڈیز کے سر فرینک وولر،انگلینڈ کے ٹیڈ ڈیکسچر ،سر گیری فوبریس وغیر۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جس وقت نہ تو ٹیلی ویژن تھا اور نہ ہی کچھ اور 50ساٹھ ہزار کا مجمع صرف ان لوگوں کو دیکھنے جاتا تھاالبتہ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ ان کے سامنے بھی مجھے کھیلنے کا موقع ملا۔
سوال: آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ جس طرف سے لوگ سکسر کی مانگ کرتے تھے آپ کا بیٹ اسی طرف سکسر مارتا تھا ،آخر اس کی کیا وجہ تھی؟
جواب: زندگی میں ایسا ہوتا ہے کہ ہم کھیلتے ہیں اور کچھ اچھا کر جاتے ہیں کلکتہ اور مدراس میں ایسا ہوا ہے کہ لوگوں نے مانگ کی اور میرا بلّا اسی طرف اٹھ گیا یہ صرف اللہ کا کرم تھا۔مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ میں نے وکٹ کیسے لی۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ 15بیس بار ایسا ہوا ہے کہ جس طرف سے لوگوں نے آواز لگائی ہے میں نے اسی طرف سکسر مارا ہے،لہذا میں اسے صرف اتفاق مانتا ہوں۔
سوال:1971کے ویسٹ انڈیز ٹور کے بارے میں بتائیں؟
جواب: 1971کا ویسٹ انڈیز کا ٹور تاریخی تھا۔پہلا ٹیسٹ ڈرا ہوگیا جبکہ سیکنڈ ٹیسٹ میں ہم نے ان کو ہرا دیا ۔یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ہم نے ا ن کو انہیں کی سرزمین میں ہرایاتھا۔اس وقت ہمارے پاس ورلڈ کلاس کر کیٹر تھے جیسے سنیل،وشو ناتھ،عابد علی،ایکناتھ سولکر،دلیپ سر دیسائی وغیرہ۔ہوا یو ں کہ 70رن میں ہماری پانچ وکیٹ گر گئی لیکن پھر دلیپ سر دیسائی نے ڈبل سنچری اور ایکناتھ سولکر نے 80رن بنایا اور ہم میچ بچانے میں کامیاب ہوگئے۔
سوال ـ: کیلاش گٹھانی اور ہنومنت سنگھ کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
جواب: کیلاش گٹھانی ایک ٹیلنٹڈفاسٹ بولر تھے لیکن ان کو چانس نہیں ملااور وہ ہندوستان کے لئے نہیں کھیل سکے۔جبکہ ہنومنت سنگھ کو ٹیکنیکلی میں فائنسٹ بیٹس مین مانتا ہوں جب میں سچن کو دیکھتا ہوں تو مجھے ہنومنت سنگھ کی یاد آتی ہے۔
سوال : آپ کے اسکور سو سے زیادہ کیوں نہیں رہے؟
جواب: جتنی میری قابلیت تھی اتنا میں نے اسکور بنایا ،لیکن جہاں جہاں بھی ٹیسٹ میں میں رہا وہاں میرا نام ابھر کر سامنے آیا۔میں Avarageکر کٹر تھا جتنا دنیا سمجھ رہی ہے اتنا نہیں تھا۔
سوال: 1973کانپور ٹیسٹ میچ میں جب آپ کو ڈراپ کیا گیا تو اسٹیڈیم میں آپ کے شائقین نے ’’نو درّانی نو ٹیسٹ‘‘ کا شور بلند کرنا شروع کر دیا آخر کیا ہوا تھا اس وقت؟
جواب: اس کی وجہ یہ تھی کہ میں کلکتہ میں بہترین بلّے بازی کر کے آیاتھا لیکن جب مدراس میں کھیل رہا تھا تو میرے پیر میں چوٹ لگ گئی مجھے رنر لینا پڑا سنیل گواسکر میرے رنر تھے،وہ میچ بھی ہم جیت گئے دوسرے روز ٹیم کانپور جانے والی تھی،BCCIکے سکریٹری کا یہ فرض تھا کہ وہ میڈیا کو بتاتے کہ کیا ہوا ہے لیکن جب انہوں نے پریس کو کچھ نہیں بتایا تو لوگوں کو غلط فہمی ہوگئی اور ممبئی میں بھی لوگوں نے ایسا ہی کیا ،لیکن اس وقت خوف مجھے لاحق ہوگیا کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔
سوال: جب شائقین اس طرح کرتے ہیں تو ایک کھلاڑی کیسا محسوس کرتا ہے؟
جواب: جب لوگوں کو آپ سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں تو آپ کے اوپر دبائو زیادہ ہوتا ہے ،جب کھلاڑی عین مطابق کر جاتے ہیں تو لوگوں کو خوشی ہوتی ہے لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تو شائقین آئندہ بہتری کی امید رکھتے ہیں۔
سوال: آپ کے نزدیک بہتر کپتان کون ہے؟
جواب: منصور علی خان پٹودی میرے چہیتے کپتان رہے ہیں ،ان سے بہتر انسان اور کپتان میں نے نہیں دیکھا،وہ تمام لوگوں کو ایک فیملی کی طرح سمجھتے تھے۔میں نے ان کے ٹیسٹ کی بعض ایسی ایننگز دیکھی ہیں جو بہت کم ہی لوگ کھیلتے ہیںجب ان سے اس سلسلے میں کہتے تو بس اتنا کہتے ،ہاں بس ہوگیا!!کھیل لیا!!۔ان کی خاص بات یہ تھی کہ وہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے ،وہ کہتے تھے۔گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں ……..میرا مشورہ تو یہ ہے کہ منصور علی خان کو کیپٹینسی پر کتاب لکھنی چاہئے۔کرنل سی کے نائیڈو،لالہ امر ناتھ بھی اچھے کپتان تھے۔جبکہ سنیل گواسکر میرا پسندیدہ کھلاڑی ہے۔اس وقت میری عمر 78برس ہے اس وقت یہ لوگ بچے تھے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مہندر سنگھ دھونی وکٹ کپنگ چھوڑ کر بولنگ کرنے لگتے ہیں جس سے بولروں کا مورال ڈائون ہوتا ہے۔میں اسے دھونی کی بہت بڑی غلطی مانتا ہوں۔کیونکہ اگر کپتان وکٹ کیپر ہو اور وہ بولنگ کرے تو اس سے بولروں کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔
سوال: آپ رائٹ ہینڈ بولنگ کرتے تھے لیکن کس کے کہنے پر آپ لیفٹ ہنڈ بولنگ کرنے لگے؟
جواب: میں دونوں ہاتھ سے بولنگ کرتا تھا۔لیکن میرے بابا(پاپا)کہتے کہ تو لیفٹ ہنڈ بولنگ زیادہ اچھا کرتا ہے لہذا اسی سے کیا کر کیونکہ میں ٹینس بھی اچھا کھیلتا تھا۔
سوال: آپ کے وقت میں ڈومیسٹک کرکٹ کا کیا معیار تھا؟کیا یہ درست نہیں کہ اس وقت کے ڈومیسٹک کر کٹ نے اچھے کھلاڑی دئے؟
جواب: یقینا بہت اونچا اسٹینڈرڈ تھا۔ڈومیسٹک کر کٹ میں کو الیٹی تھی،کو الیٹی ابھی بھی ہے لیکن کوانٹیٹی زیادہ ہے کوالیٹی کم ہے۔
سوال: آئی پی ایل کو آپ کیسا دیکھتے ہیں،کیا یہ ہندوستانی کر کٹ کے لئے بہتر ہے؟
جواب:اس وقت آئی پی ایل اور T20کا فارمیٹ بڑھ گیاہے ۔IPLکمرشیل ہے جس سے فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی،آئی پی ایل سے ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ جن لڑکوں کو چانس نہیں ملنا تھا اب ان کو بھی IPLکی مہربانی کی وجہ سے چانس مل رہا ہے ۔یہاں پیسہ بھی مل رہا ہے اور مستقبل بھی روشن ہے ۔لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ IPLاور ملک کے لئے کھیلنے میں بڑا فرق ہے ،دونوں دو الگ الگ معاملہ ہے۔آج جو انگلینڈ میں ہم مار کھا رہے ہیں وہ Complexکا ہی نتیجہ ہے۔ہر آدمی اپنا Intrestدیکھ رہا ہے حالانکہ ایسے میچ ہونے چاہئے جس میں نا چاہ کر بھی لوگ کھیلیں۔
سوال : کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ یہاں کھلاڑیوں کی تربیت کے لئے خاطر خواہ انتظام نہیں ہے؟
جواب: پاکستان کے ایک مشہور بیٹس مین حنیف محمد تھے ان کے لئے پاکستان میں Green wicket, Hard wicket, Bounce wicketبنایا گیا تھا جس کا نتیجہ ہے کہ ظہیر عباس، وسیم راجہ،محسن خان وغیرہ نے نام کمایا۔لیکن ہمارے یہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔
سوال: اگر آپ آئی پی ایل کے دور میں کھیلتے تو کیا ہوتا؟
جواب: پھر میں دھیرو بھائی امبانی سے بھی بڑا آدمی ہوتا کیونکہ یہاں تو پیسوں کا سوال ہے،صرف میں ہی نہیں دوسروں کی بھی یہی حالت ہوتی۔
سوال: اس وقت ہندوستانی کرکٹ کو آپ کیسا دیکھتے ہیں؟
جواب: موجودہ حالات میں ہندوستانی کرکٹ کا تجزیہ کریں تو محسوس ہوگا کہ ہمارے نیشنل سلیکٹر بہت سنجیدہ نہیں ہیں،ہونا تو یہ چاہئے کہ جن لوگوں نے کم از کم پندرہ بیس میچ کھیلا ہو ، ٹیسٹ میچ کا اتار چڑھائو دیکھا ہو ایسے لوگوں کو ہی سلیکٹر بننا چاہئے ۔باقی BCCIمیں سب ٹھیک ہے لیکن سلیکٹر کی سوچ پر تمام چیزوں کا دار ومدار ہے کیونکہ انہیں ہی معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کونسا کھلاڑی کیسا ہے اور کیا نتائج دے سکتا ہے ،مثلاً اگر ٹیم انگلینڈ جا رہی ہو تو سلیکٹر کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہاں کے ماحول میں،آب و ہوا میں کون بہتر پر فارمنس دے سکے گا۔خواہ اس نے کوئی ٹیسٹ میچ ہی نہ کھیلا ہو۔میں نے تین چار برس انگلینڈ میں کر کٹ کھیلا ہے وہاں کب موسم تبدیل ہوجائے کب بارش ہوجائے کچھ بھروسہ نہیں رہتا ،موسم کا کھیل پر بڑا اثر پڑتا ہے۔
سوال : آپ نے فلم میں بھی قسمت آزمائی ہے اور چریتر میں ایکٹنگ کی ہے۔ آخر کیا وجہ تھی؟
جواب: میں تو فلم ایکٹر بھی او ر سائنسداں بھی کچھ بھی بن سکتا تھا کیونکہ میرے اندر صلاحیت تھی ،دراصل بابو رام اشارہ جن کی میں بہت عزت کرتا تھا،انہوں نے کہاکہ مجھے فلم میں کام کرو لہذا میں نے ان کے کہنے پر ایکٹنگ کی۔البتہ بنیادی طور پر مجھے خوبصورت چیزیں پسند ہیں ،فلم میں مجھے خوبصورتی نظر آئی لہذا اس جانب متوجہ ہوا۔پروین بابی کو آج بھی میں یاد کرتا ہوں جبکہ مینا کماری مجھ سے پیار کرتی تھی۔پہلی فلم کمال امرہوی بنانے والے تھے جبکہ سکھ دیو نے بھی مجھے ایکٹر بنانے کی کوشش کی تھی۔لیکن میں فلم ایکٹر نہیں کر کیٹر تھا۔
سوال: آپ نے بڑی کسمپرسی میں زندگی گذاری ہے آخر کیوں؟
جواب: یقینا پیسہ جیون میں بہت ضروری ہے ،البتہ ہمارے زمانے میں Economyتھی ہم بھکاری نہیں تھے ،ہم آج بھی خوش ہیں اور کل بھی خوش تھے۔دان دھرم ہوتا ہے،آپ جو کچھ بھی کمائیں اسے دان بھی کریں ،لیکن یہ میں کہوں گا کہ اس وقت آج کی طرح پیسہ دینے والا کوئی نہیں تھا ورنہ ہم بھی اس پر توجہ دیتے۔
سوال:آپ کو لوگ ددّو کیوں بلاتے ہیں؟
جواب: پیار سے کہتے ہیں بچے،مجھے بھی اچھا لگتا ہے۔
سوال: آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟گھر میں کون لوگ ہیں؟
جواب: گھریلو سوال نہیں…پٹھان گھر یلو بات نہیں کرتا….فی الحال میری والدہ باحیات ہیں جن کی عمر 103برس ہے۔
سوال: آپ کی گرل فرینڈ؟
جواب: بیس پچیس کی تعداد میںہیں…