مٹی کو سونا بنانے والا تاجر
سمیع خطیب میڈلے فارمیسی پرائیویٹ لمیٹدکے چیرمن اوربانی سربراہ ہیں،1967میںانتہائی قلیل سرمائے سے شروع ہوئی کمپنی آج مشرق وسطی،یورپ،امریکہ و برطانیہ کے ساتھ سائوتھ افریقہ میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب رہی ہے ۔کمپنی کے مالک سمیع خطیب نے دانش ریاض سے طویل گفتگو کی اور اپنی زندگی کے اہم گوشوں سے روشناس کرایا ……پیش ہیں تفصیلات

میڈلے ہائوس کی پرشکوہ آفس میں بیٹھے سمیع خطیب زندگی کو انتہائی قریب سے دیکھنے کے بعد اب مطمئن نظر آتے ہیں۔اپنی 76سالہ زندگی میں انہوں نے اس خواب کو شرمندئہ تعبیر کر دیا جو ان کے والد محترم عبد المجید خطیب نے دیکھا تھا۔سمیع خطیب کہتے ہیں’’میڈیکل میں میرا داخلہ نہیں ہوا تو والد صاحب نے ڈھارس دلاتے ہوئے کہاتھا کہ تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ایک وقت ایسا آئے گا جب تمہارے یہاں ڈاکٹر کام کریں گے اور تم ان کے سربراہ ہو گے،الحمد للہ آج میرے یہاں ،گریجویٹ ،پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹر کام کرتے ہیں اور میں ان کا سربراہ ہونے کی وجہ سے پوری خبر گیری کرتا ہوں۔‘‘بچپن کی یادوں کو کھنگالتے ہوئے میڈلے کمپنی کے مالک کہتے ہیں’’ہمارے ہاں سات پشتوں تک کسی نے تجارت نہیں کی۔ایوت محل(مہاراشٹر ) کے قلم گائوں میں رہائش پذیر ہمارا گھرانہ کاشتکار گھرانہ تھا ،ٹاٹ پر بیٹھ کر ہی میں نے ایوت محل سے ہائی اسکول پاس کیا پھر کالج کی پڑھائی کے لئے ناگپور چلا گیا اسی دوران کچھ دنوں کے لئے ممبئی آیا اور پھر ممبئی یونیورسٹی سے BScکی ڈگری حاصل کی ،چونکہ ناگپور میں پہلی بی فارما B.pharma)) یونیورسٹی قائم ہوئی تھی لہذا میں دوبارہ وہاں گیا اور بی فارما کے ساتھ ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی۔چونکہ تجارت پہلے سے ہی میرے ذہن پر چھایا ہواتھا اس لئے کبھی سرکاری نوکری کا خیال تک نہیں آیامیرے بڑے بھائی پروفیسر عبد القادر تحصیلدار بننے کے لئے دبائو ڈالتے لیکن میرے ذہن میں کچھ اور تھالہذا ان کی بات مجھے راس نہ آتی،وہ والدہ سے شکایت کرتے کہ اسے کیا ہوگیا ہے یہ تحصیلدار بننا کیوں نہیں چاہتا؟ابھی گھر میں یہ ہنگامہ برپا تھا کہ میں سفر پر نکل گیا۔ اسی دوران میں میڈیکل Representativeبن گیااور گلی گلی خاک چھاننے لگا۔لوگ مذاق اڑاتے کہ تین تین ڈگریاں لے کر بھی یہ راستہ بھٹکتا رہتا ہے لیکن میں اپنی دھن میں لگا رہا،15مہینے First Line Managerرہااس کے بعد second line Managerبنادیا گیا۔چونکہ Franko Indiaفرانسیسی کمپنی تھی لہذا اس کا صدر دفتر ممبئی میں تھا۔کمپنی کے اہلکاروں نے مجھے ممبئی بلا لیااور پھر میں یہیں کام کرنے لگا۔1960سے لے کر1967تک میں ائیر کنڈیشن آفس میں بیٹھ کر کمپنی کا کام کرتا رہا ۔7برس کے اس عرصے میں مجھے شدت سے یہ احساس ہونے لگا کہ اگریہیں 9بجے صبح سے شام کے 5بجے تک کام کرتا رہا تو میں کچھ نہیں کر پائوں گا لہذا میں نے کمپنی سے استعفی دے دیا۔میرے فرانسیسی منیجنگ ڈائرکٹر مائیکل پوسٹل نے مجھے بہت سمجھایا کہ نوکری مت چھوڑو ۔Price Controlکا دور ہے تمہیں اپنے ہر پروڈکٹ کے لئے دہلی جانا پڑے گااور تم پریشان ہو جائو گے لیکن میں نے جو طے کرلیا تھااس سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں تھا۔چونکہ تجارت کا شوق بچپن سے تھا لہذابچپنے میں میں آم بیچا کرتا تھا ایک وقت تو ایسا آیا کہ مجھے تمام آم مفت میں اس خوف سے تقسیم کرنے پڑے کہ کہیں یہ خراب نہ ہوجائیں۔ان چیزوں کو دیکھ کروالد صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر میرا بیٹا مٹی بھی بیچے تو وہ سونے کے بھائو فروخت ہوگا۔ خیر…. استعفی کے بعد 1967میں میں نے Madlyکمپنی کی بنیاد ڈالی۔اس وقت میرا کل سرمایہ صرف 62ہزار روپیہ تھا جوسابقہ کمپنی کی طرف سے ملا تھا۔1971میں( MHFC)مہاراشٹر اسٹیٹ فائنانس کارپوریشن نے تکنیکی ماہرین کے لئے Technicianاسکیم شروع کی تھی لہذا حکومت نے مرول (اندھیری)میں پہلی فیکٹری قائم کرنے کے لئے ایک لاکھ 98ہزار کی امداد کی۔اسی زمانے میں میں نے جمنا لال بجاج منیجمنٹ کالج سے Managementکی ڈگری حاصل کی۔حکومت کی طرف سے دی گئی رقم بھی ناکافی قرار پائی کیونکہ آڈرس تھے،پروڈکشن کی سہولت تھی لیکن Working Capitalنہیں تھاجس کی وجہ سے پریشانی ہوتی تھی۔Dena Bankسے ہمارے معاملات تھے لاکر میں ہماری چیزیں رہتی تھیں لیکن ادائیگی کے بعد ہی کچھ نکالنے کی اجازت تھی۔اہلیہ کے زیور گروی رکھ کر میں نے Dena بینک سے قرض لیا اس وقت دوستوں نے بھی ساتھ نہیں دیا،بینک سے جو شخص ہمارے یہاں آتا ٹیکسی کا کرایہ بھی ہمیں ہی ادا کرنا ہوتا ۔ایسی صورت میں یہ دھڑکا لگا رہتا کہ کسی بھی دن سب کچھ بند کرنا پڑے گا۔ لیکن اسی دوران مرول گائوں میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی برانچ کھلی۔بینک کے ڈیولپمنٹ آفیسر سبرامنیم ہمارے پاس آئے اور انہوں نے پرپوزل پیش کرتے ہوئے کہا کہ فنانس اب آپ کا مسئلہ نہیں رہابلکہ یہ ہمارا مسئلہ ہوگا،سردست آپ MSFCسے 44ہزار حاصل کر لیں اور اس کا(Latter (لیٹر اسٹیٹ بینک کو دے دیں ،آخر ہم نے اس پر عمل کیا اور اس طرح 1973میں ساڑھے چار لاکھ کی رقم بینک سے حاصل ہوئی۔اس واقعہ نے میرے اندر خود اعتباری پیدا کردی اور پھر کام آگے بڑھتا رہا۔آج 37سال سے میں اسٹیٹ بینک سے ہی اپنے کام کر رہا ہوں‘‘۔25 سے زائد ممالک میں Madly کے برانچز کھولنے والے سمیع خطیب کے مطابق’’ہماری دو فیکٹری دمن ایک اورنگ آباد میں جبکہ 3لاکھ اسکوائر فٹ پر مشتمل ایک بڑی فیکٹری جموں میںہے جہاں ریسرچ اینڈ دیولپمنٹ نیز اینٹی بایوٹیک یونٹ ہے جبکہ دبئی کی فیکٹری ہمارے صاحبزادے سہیل خطیب سنبھالتے ہیں،2ہزار سے زائد افراد ہمارے یہاں ملازم ہیںجبکہ 13 سو سے زائد Medical Representative ہیں۔امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ سائوتھ افریقہ اوربرازیل کے لئے Accreditation کی کوششیں چل رہی ہیں۔ہمارے پروڈکٹ کو کافی پسند کیا گیا ہے ،مختصر مدت میں ہی ہم کارپوریٹ دنیا میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں،ہم اپنے بورڈ آف ڈائرکٹر سریندر کمار شرما کو اب اپنا پہلا سی ای او(CEO (نامزد کرنے والے ہیں،جس کی تیاریاں چل رہی ہیں‘‘۔تین بیٹا اور ایک بیٹی (سروش خطیب،ساحر خطیب،سہیل خطیب اور صبا خطیب)کو اپنے پیروں پر کھڑا دیکھ کر خوشی کا اظہار کرنے والے سمیع خطیب کہتے ہیں’’میرے بچوں نے اسے بحسن و خوبی آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے جدید دور کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے وہ نئی بلندیاں چھونا چاہتے ہیں‘‘۔ہندوستانی جمہوریت سے نالاں گھوڑے کو اپنا محبوب رکھنے والے سمیع خطیب اپنے پوتوں کی شکایت کرنا بھی واجب سمجھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں’’بچپن میں جب والد صاحب آتے تو ہم بھائی بہن کھڑے ہوکر ان کا خیر مقدم کرتے لیکن اب جب ہم اپنے پوتوں کے کمرے میں جاتے ہیں تو صرف ہائے دادا کی آواز پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے ایسا نہیں ہے کہ انہیں محبت نہیں ہے لیکن وہ طور طریقہ جو ہمیں سکھایا گیا تھا یہ بچے ان سے عاری نظر آتے ہیں”۔ایفائے عہد کو پسند کرنے والے اورانا کو ناپسندیدگی سے دیکھنے والے خطیب کے مطابق’’گھوڑے کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ برد بار اور تحمل مزاج ہوتا ہے اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ میں نے1980 میںایم ایف حسین سے گھوڑوںکی پینٹنگ خریدی اور اب یہ آفس کے ہر کونے میں آپ کو نظر آئیں گے۔ان خصوصیات کا حامل اب تک کوئی اور جانور مجھے نظر نہیں آیاـ‘‘۔ہندوستانی جمہوریت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ہندوستان میں کرپشن جمہوریت کی لعنت ہے 5یا چھ پارٹیاں مل کر حکومت چلاتی ہیں،اکثر لیڈران بدعنوان ہیں ،ماریشس کے راستے کالا دھن آرہا ہے ،مجھے یاد ہے کہ جب مجھے 3ہزار 6سو روپئے کا امپورٹ لائسنس ملا تھا تو ہم نے جشن منایا تھالیکن آج کالا بازاری کے ذریعہ جو کچھ بھی چاہیں امپورٹ کر لیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔عوام اور لیڈر کے مابین دوریاں پیدا ہو گئی ہیں،عام آدمی اگر جرم کرتا ہے تو اسے فوری سزا دے دی جاتی ہے لیکن اگر لیڈرقتل بھی کرتا ہے تواسے رہائی مل جاتی ہے۔لہذا جب تک یہ دوہرا معیار کم نہیں ہوگا اس وقت تک عام آدمی ترقی نہیں کر سکتا‘‘۔