
رزق حلال کمانے کے مزاج میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے
ڈاکٹر شبیب رضوی کا شمار علم دوست لوگوں میں ہوتا ہے ممبئی یونیورسٹی سےبزنس پالیسی اینڈ ایڈمنسٹریشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والےرضوی فائونڈیشن
گروپ آف کمپنیز کے مالک نے بین الاقوامی معیشت سے تفصیلی گفتگو کی ۔پیش ہیں اہم اقتباسات
باندرہ میں واقع رضوی فائونڈیشن کی آفس ان سیکڑوں ضرورت مندوں کا مرکز ہے جو اپنی زندگی بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ عمارت کی نچلی منزل میں ملازمین کے لئے الگ الگ
کیبن بناہوا ہے جن میں سے ایک ڈاکٹر شبیب رضوی کے لئے مختص ہے۔موصوف یوسف حسن رضوی گروپ آف کمپنیز کے منیجنگ ڈائرکٹر ،ہندوستان کے سب سے بڑے YoKo Sizzlers سلسلہ کے مالک ہیں ۔انہوں نے تعمیراتی کمپنی میں بھی اپنی خدمات انجام دی ہیں جبکہ بین الاقوامی ٹریڈ کا بھی ہنر رکھتے ہیں۔
۲۶ نومبر ۱۹۶۵کو روئے ارض پر پہلی سانس لینے والے ڈاکٹر شبیب ابتدائی حالات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں’’میری پیدائش علم دوست گھرانے میں ہوئی ہے جبکہ تجارت ورثے میں ملا ہے۔میرے چچا اختر حسن رضوی باندرہ کے مشہور تعلیمی ادارے رضوی کالج کے بانی ہیں ، میرے والد سید یوسف حسن رضوی چونکہ بلڈر تھے لہذا تعلیم سے فراغت کے بعد میں نے بھی اسی پیشہ کو اختیار کیا لیکن بہت جلد اس بات کا احساس ہوگیا کہ اگر صرف اسی بزنس میں قسمت آزمائی کرتا رہا تو تعلیم و تعلم کی دنیا سے دور چلا جائونگا جبکہ رزق کی تلاش میں روزانہ جد و جہد کرنی پڑے گی لہذا والد صاحب کی ایما پرہی ہم نے یوکو سیزلر کا آئوٹ لیٹ شروع کیا جس کی شاخیں الحمد للہ آج پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔
ممبئی یونیورسٹی کو اپنا مادر علمی سمجھنے والے ڈاکٹر شبیب نے یونیورسٹی کا حق بھی ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔انہوں نےمذکورہ یونیورسٹی سے ہی 1977میں جہاں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی وہیںاب وہ وہاں کے پی ایچ ڈی کے طلبہ کی External Refreeکے طور پر رہنمائی کر رہے ہیں۔ساتھ ہی کئی ایک منیجمنٹ کالجیز کے وزیٹنگ فیکلٹی بھی ہیں۔کمیونیٹی کے طلبہ کی بہتر رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے افسردہ نظر آنے والے ڈاکٹر شبیب کہتے ہیں’’آج کمیونیٹی کو Mentoringکی ضرورت ہے ۔ہمارے طلبہ تعلیم تو حاصل کر رہے ہیں لیکن کوئی ان کی رہنمائی نہیں کر رہا ہے سماج میں جو لوگ تعلیمی رہنمائی کا کام کر رہے ہیں المیہ یہ ہے کہ خود انہیں ہی نہیں معلوم کہ رہنمائی کیسے کی جانی چاہئے۔‘‘تجارت میں تجربہ کو اہم قرار دیتے ہوئے شبیب کہتے ہیں ’’اس وقت شارٹ ٹرم تجارت کا ماحول بنتا جا رہا ہے ہماری نئی جنریشن مختصر مدت میں ہی بہت کچھ حاصل کرنا چاہتی ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اکثر تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے یاتو وہ نقصان کا سودا کرتے ہیںیا پھر ناتجربہ کاری میں ایسا کام کر جاتے ہیں جس کا خمیازہ پوری ملت کو بھگتنا پڑتا ہے۔لہذا میرا مشورہ یہ ہے کہ اگر تجارت کرنی ہے تو پہلے تجربہ حاصل کریں ،پیسہ کمانے کی جلد بازی نہ کریں۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ شروع سے ہی مالک بننے کی خواہش دلوں میں جاگزیں رکھیں اور کبھی بھی نوکری کی نیت نہ کریں۔جب شروع سے ہی مالک بننے کا خواب دیکھیں گے تو اس کے لئے آپ کی پلاننگ بھی بھرپور ہوگی اور اس کا خاطر خواہ رزلٹ بھی سامنے آئے گا۔البتہ ان تمام جد و جہد میںاللہ رب العزت پربھروسہ رکھیںاور اس کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔‘‘اس سوال کے جواب میں کہ آخر تعلیم اور تجارت ساتھ ساتھ کیسے جاری رکھی جاسکتی ہے اور آپ نے تجارت کےساتھ ساتھ کس طرح تعلیمی سلسلہ جاری رکھا 1999سے 2012تک بزنس ڈیولپمنٹ اینڈ ہیومن ریسورز کے وائس پریسیڈنٹ رہے شبیب کہتے ہیں’’تعلیم کا حکم اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے دیا ہے لہذا یہ ہماری شرعی ذمہ داری ہے کہ ہم دینی و عصری دونوں تعلیم حاصل کریں اور اس میں نمایاں مقام بنائیں۔آج جو بھی نوجوان اہم عہدوں پر فائزہیں اس میں یقیناً ان کی تعلیم کا اہم رول ہے ۔جہاں تک تجارت کی بات ہے تو اس کا تعلق رزق سے ہے اور رازق اللہ کی ذات ہے تجارت میں انسان کا تعلق براہ راست اللہ رب العزت سے ہو جاتا ہے جبکہ نوکری میں وسیلہ لگا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ تجارت کی بڑی فضیلت آئی ہے حدیث رسول ﷺ ہے التاجر حبیب اللہ،(تاجر اللہ کا دوست ہوتا ہے)۔التاجر کلمجاہد فی سبیل اللہ( تاجر اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد جیسا ہوتا ہے)۔لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے نوجوان محنت کریں اور تجارت کے میدان میںآگے آئیں تو انہیں کامیابی ملے گی لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان محنت نہیں کرتے حالانکہ محنت کا کوئی بدل نہیں ہے۔مشہور مقولہ ہے ’’العامل یعتمد علی عملہ والجاہل یعتمد علی املہ‘‘عاقل اپنے عمل پر بھروسہ کرتا ہے جبکہ جاہل امیدوں پر بھروسہ کرتا ہے‘‘۔لہذا عاقل بنیں جاہل کی پیروی نہ کریں۔اپنی جد و جہد کی داستان بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں’’میں 18سے 20گھنٹے کام کرتا ہوں روزانہ صبح پانچ بجے بیدار ہوتا ہوں جبکہ دیر رات تک مصروفیت رہتی ہےلیکن الحمد للہ صحت بھی اچھی ہے اور تجارت بھی فروغ پا رہا ہے لہذا میرا ایمان تو یہ ہے کہ محنت کا کوئی بدل نہیں ہے۔‘‘بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے ڈاکٹر شبیب کہتے ہیں’’ہمارے نوجوانوں کو کبھی بھی ان لوگوں کی نقل نہیں کرنی چاہئے جن کی تجارت جمی جمائی ہے اگر کوئی ’’الانا‘‘اور’’ فضلانی‘‘کو دیکھتے ہوئے اپنا لائحہ عمل طے کرے اورجب ناکام ثابت ہو توسارا ٹھیکرا کسی اور کے سر پھوڑ کراپنی غلطیوں سے سبکدوش ہونے کی کوشش کرے تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ ’’الانا‘‘اور ’’فضلانی‘‘نے اس مقام کو حاصل کرنے میں جتنی جد و جہد کی ہے اس کا کوئی تصور نہیں کرسکتا بڑی جد و جہد کے بعد ہی لوگ کسی مقام پر پہنچتے ہیں۔لہذا Fast earning کا مزاج لے کر کوئی ترقی نہیں کرسکتا جب تک آپ جد و جہد نہیں کریں گے ،دن رات ایک نہیں کریں گے اس وقت تک کامیابی کی کلید ہاتھ نہیں لگے گی۔افسوس تو یہ ہے کہ رزق حلال کمانے کے مزاج میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے اور سب سے زیادہ شکار ہمارے نوجوان ہیں ۔لہذا ہمارے طلبہ کو چاہئے کہ وہ اسلامی تصور تربیت کو اختیار کریں رزق حلال کمانے کی کوشش کریں اور اس کے لئے بھر پور جد و جہد کریں ۔انشا ء اللہ کامیابی قدم چومے گی اور دنیا بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے گی۔‘‘
۲۶ نومبر ۱۹۶۵کو روئے ارض پر پہلی سانس لینے والے ڈاکٹر شبیب ابتدائی حالات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں’’میری پیدائش علم دوست گھرانے میں ہوئی ہے جبکہ تجارت ورثے میں ملا ہے۔میرے چچا اختر حسن رضوی باندرہ کے مشہور تعلیمی ادارے رضوی کالج کے بانی ہیں ، میرے والد سید یوسف حسن رضوی چونکہ بلڈر تھے لہذا تعلیم سے فراغت کے بعد میں نے بھی اسی پیشہ کو اختیار کیا لیکن بہت جلد اس بات کا احساس ہوگیا کہ اگر صرف اسی بزنس میں قسمت آزمائی کرتا رہا تو تعلیم و تعلم کی دنیا سے دور چلا جائونگا جبکہ رزق کی تلاش میں روزانہ جد و جہد کرنی پڑے گی لہذا والد صاحب کی ایما پرہی ہم نے یوکو سیزلر کا آئوٹ لیٹ شروع کیا جس کی شاخیں الحمد للہ آج پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔
ممبئی یونیورسٹی کو اپنا مادر علمی سمجھنے والے ڈاکٹر شبیب نے یونیورسٹی کا حق بھی ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔انہوں نےمذکورہ یونیورسٹی سے ہی 1977میں جہاں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی وہیںاب وہ وہاں کے پی ایچ ڈی کے طلبہ کی External Refreeکے طور پر رہنمائی کر رہے ہیں۔ساتھ ہی کئی ایک منیجمنٹ کالجیز کے وزیٹنگ فیکلٹی بھی ہیں۔کمیونیٹی کے طلبہ کی بہتر رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے افسردہ نظر آنے والے ڈاکٹر شبیب کہتے ہیں’’آج کمیونیٹی کو Mentoringکی ضرورت ہے ۔ہمارے طلبہ تعلیم تو حاصل کر رہے ہیں لیکن کوئی ان کی رہنمائی نہیں کر رہا ہے سماج میں جو لوگ تعلیمی رہنمائی کا کام کر رہے ہیں المیہ یہ ہے کہ خود انہیں ہی نہیں معلوم کہ رہنمائی کیسے کی جانی چاہئے۔‘‘تجارت میں تجربہ کو اہم قرار دیتے ہوئے شبیب کہتے ہیں ’’اس وقت شارٹ ٹرم تجارت کا ماحول بنتا جا رہا ہے ہماری نئی جنریشن مختصر مدت میں ہی بہت کچھ حاصل کرنا چاہتی ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اکثر تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے یاتو وہ نقصان کا سودا کرتے ہیںیا پھر ناتجربہ کاری میں ایسا کام کر جاتے ہیں جس کا خمیازہ پوری ملت کو بھگتنا پڑتا ہے۔لہذا میرا مشورہ یہ ہے کہ اگر تجارت کرنی ہے تو پہلے تجربہ حاصل کریں ،پیسہ کمانے کی جلد بازی نہ کریں۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ شروع سے ہی مالک بننے کی خواہش دلوں میں جاگزیں رکھیں اور کبھی بھی نوکری کی نیت نہ کریں۔جب شروع سے ہی مالک بننے کا خواب دیکھیں گے تو اس کے لئے آپ کی پلاننگ بھی بھرپور ہوگی اور اس کا خاطر خواہ رزلٹ بھی سامنے آئے گا۔البتہ ان تمام جد و جہد میںاللہ رب العزت پربھروسہ رکھیںاور اس کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔‘‘اس سوال کے جواب میں کہ آخر تعلیم اور تجارت ساتھ ساتھ کیسے جاری رکھی جاسکتی ہے اور آپ نے تجارت کےساتھ ساتھ کس طرح تعلیمی سلسلہ جاری رکھا 1999سے 2012تک بزنس ڈیولپمنٹ اینڈ ہیومن ریسورز کے وائس پریسیڈنٹ رہے شبیب کہتے ہیں’’تعلیم کا حکم اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے دیا ہے لہذا یہ ہماری شرعی ذمہ داری ہے کہ ہم دینی و عصری دونوں تعلیم حاصل کریں اور اس میں نمایاں مقام بنائیں۔آج جو بھی نوجوان اہم عہدوں پر فائزہیں اس میں یقیناً ان کی تعلیم کا اہم رول ہے ۔جہاں تک تجارت کی بات ہے تو اس کا تعلق رزق سے ہے اور رازق اللہ کی ذات ہے تجارت میں انسان کا تعلق براہ راست اللہ رب العزت سے ہو جاتا ہے جبکہ نوکری میں وسیلہ لگا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ تجارت کی بڑی فضیلت آئی ہے حدیث رسول ﷺ ہے التاجر حبیب اللہ،(تاجر اللہ کا دوست ہوتا ہے)۔التاجر کلمجاہد فی سبیل اللہ( تاجر اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد جیسا ہوتا ہے)۔لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے نوجوان محنت کریں اور تجارت کے میدان میںآگے آئیں تو انہیں کامیابی ملے گی لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان محنت نہیں کرتے حالانکہ محنت کا کوئی بدل نہیں ہے۔مشہور مقولہ ہے ’’العامل یعتمد علی عملہ والجاہل یعتمد علی املہ‘‘عاقل اپنے عمل پر بھروسہ کرتا ہے جبکہ جاہل امیدوں پر بھروسہ کرتا ہے‘‘۔لہذا عاقل بنیں جاہل کی پیروی نہ کریں۔اپنی جد و جہد کی داستان بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں’’میں 18سے 20گھنٹے کام کرتا ہوں روزانہ صبح پانچ بجے بیدار ہوتا ہوں جبکہ دیر رات تک مصروفیت رہتی ہےلیکن الحمد للہ صحت بھی اچھی ہے اور تجارت بھی فروغ پا رہا ہے لہذا میرا ایمان تو یہ ہے کہ محنت کا کوئی بدل نہیں ہے۔‘‘بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے ڈاکٹر شبیب کہتے ہیں’’ہمارے نوجوانوں کو کبھی بھی ان لوگوں کی نقل نہیں کرنی چاہئے جن کی تجارت جمی جمائی ہے اگر کوئی ’’الانا‘‘اور’’ فضلانی‘‘کو دیکھتے ہوئے اپنا لائحہ عمل طے کرے اورجب ناکام ثابت ہو توسارا ٹھیکرا کسی اور کے سر پھوڑ کراپنی غلطیوں سے سبکدوش ہونے کی کوشش کرے تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ ’’الانا‘‘اور ’’فضلانی‘‘نے اس مقام کو حاصل کرنے میں جتنی جد و جہد کی ہے اس کا کوئی تصور نہیں کرسکتا بڑی جد و جہد کے بعد ہی لوگ کسی مقام پر پہنچتے ہیں۔لہذا Fast earning کا مزاج لے کر کوئی ترقی نہیں کرسکتا جب تک آپ جد و جہد نہیں کریں گے ،دن رات ایک نہیں کریں گے اس وقت تک کامیابی کی کلید ہاتھ نہیں لگے گی۔افسوس تو یہ ہے کہ رزق حلال کمانے کے مزاج میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے اور سب سے زیادہ شکار ہمارے نوجوان ہیں ۔لہذا ہمارے طلبہ کو چاہئے کہ وہ اسلامی تصور تربیت کو اختیار کریں رزق حلال کمانے کی کوشش کریں اور اس کے لئے بھر پور جد و جہد کریں ۔انشا ء اللہ کامیابی قدم چومے گی اور دنیا بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے گی۔‘‘