
مودی حکومت کی پہلی ’کڑوی خوراک‘، ریل کرایہ میں 14.2 فیصد اضافہ
٭ سب کچھ الٹا ہو رہا ہے: راشد علوی ٭ عوام کو ووٹ دینے کا انعام دیا گیا: اجے ماکن
٭ یہ کم سے کم اچھے دنوں کا آغاز نہیں: نتیش کمار ٭ اچھے دن نہیں، مہنگے دن آ گئے ہیں: لالو پرساد
نئی دہلی: (یو این بی): آج مرکزی حکومت نے ریل کرایہ میں اضافہ کا اعلان کر دیا۔ وزارت ریل نے جہاں ایک طرف مسافر کرایہ میں 14.2 فیصد کا اضافہ کیا وہیں مال ڈھلائی کرایہ میں 6.4 فیصد اضافہ کا اعلان کیا گیا ہے۔ بڑھا ہوا ریل کرایہ 25 جون سے نافذ کیا جائے گا۔ یہ اعلان آج وزیر ریل سدانند گوڑا نے کیا ہے۔ سرکاری ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ریل کرایہ میں اضافہ کی تجویز گزشتہ یو پی اے حکومت کی ہی تھی لیکن لوک سبھا انتخابات کے سبب اسے نافذ نہیں کیا جا سکا تھا۔ ریل کرایہ میں اضافہ کا براہ راست اثر اس میں سفر کرنے والے لاکھوں لوگوں پر پڑے گا۔ اس فیصلے سے ریلوے کو 800 کروڑ روپے کے فائدے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ واضح ہو کہ آئندہ 9 جولائی کو ریل بجٹ پیش ہونا ہے اور اس سے قبل ہوئے ریل کرایہ میں اضافہ کو سیاسی و سماجی طبقوں میں حیرت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ عوام بھی پریشان ہے کہ اچانک بڑے پیمانے پر ریل کرایہ میں اضافہ کی کیا ضرورت تھی جب کہ مودی حکومت نے غریبوں کو آسانیاں فراہم کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔
اچھے دن کا وعدہ کر کے اقتدار میں آنے والی نریندر مودی حکومت کے اس فیصلے پر سیاسی ہستیوں نے اعتراض ظاہر کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر راشد علوی نے ریل بجٹ سے قبل کرایہ میں اضافہ کو غلط روایت قرار دیتے ہوئے اس کی سخت تنقید کی اور کہا کہ ’’سب کچھ الٹا ہو رہا ہے۔ حکومت نے جو وعدے کیے تھے اس کا برعکس نظر آ رہا ہے۔ بجٹ سے پہلے کرایہ بڑھانا انتہائی غلط ہے۔ بہتر یہ ہوتا کہ پارلیمنٹ میں بڑھے کرایہ کو پیش کیا جاتا اور اس پر بحث ہوتی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’مال بھاڑا میں اضافہ کے سبب چیزوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونا یقینی ہے، یعنی عوام پر مہنگائی کی مزید مار پڑنے والی ہے۔‘‘ کانگریس کے میڈیا انچارج اجے ماکن نے اس سلسلے میں کہا کہ ’’عوام کو مودی حکومت نے ووٹ دینے کا انعام دیا ہے۔ اس وقت جب کہ مانسون سے کسان پریشان ہیں، پیاز وغیرہ کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، بجلی و پانی بحران کا سامنا ہے تو اضافی بوجھ عوام پر ڈالنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کانگریس حکومت کے فیصلے کی تنقید کرتی ہے۔‘‘ ریل کرایہ میں اضافہ سے متعلق سابق وزیر اطلاعات و نشریات منیش تیواری سے ان کی رائے پوچھی گئی تو انھوں نے کہا کہ ’’کل تک عام آدمی کی بات کرنے والی حکومت آج عام آدمی پر بوجھ بڑھانے کا کام کر رہی ہے۔ حکومت کی ’کتھنی اور کرنی‘ میں فرق ایک مہینے کے اندر ہی واضح ہو چکا ہے۔ یہ وہی این ڈی اے ہے جو یو پی اے کے ذریعہ کیے گئے سبھی فیصلوں کی مخالفت میں کھڑی ہو جاتی تھی۔‘‘
بہار کے سابق وزیر اعلیٰ اور جنتا دل یو کے سرکردہ لیڈر نتیش کمار نے حکومت کے اس فیصلے کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ کم سے کم اچھے دنوں کا آغاز نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ساری باتیں ریل بجٹ کے دوران کی جانی چاہئیں تھیں اور وزیر ریل کو خود ساری باتوں کو سامنے رکھنا چاہیے تھا۔ ریل بجٹ سے ٹھیک پہلے کرایہ میں اضافہ کرنا صحیح روایت نہیں ہے اور اس قدم سے عوام کے لیے اچھے دنوں کی شروعات نہیں ہو سکتی۔ راشٹریہ جنتا دل کے سربراہ اور سابق وزیر ریل لالو پرساد یادو نے بھی مودی حکومت کے فیصلے کو غلط ٹھہرایا اور طنز آمیز لہجہ میں کہا کہ ’’اچھے دن نہیں، مہنگے دن آ گئے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ مودی نے انتخابات سے قبل عوام کو اچھے دنوں کا ’جھانسہ‘ دیا تھا لیکن اب حقیقت سب کے سامنے ہے۔ لالو یادو نے مرکزی حکومت پر حملہ آور ہوتے ہوئے کہا کہ ’’عوام کی چھاتی پر مودی نے پہلی توپ چلائی ہے۔ اچھے دن کا سبز باغ دکھانے والی حکومت کی حقیقت سب کے سامنے آ گئی ہے۔ میری جانکاری میں آج تک اتنا زیادہ کرایہ کبھی نہیں بڑھا تھا۔ دراصل بی جے پی چند لوگوں کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے اور عوام کا اسے کوئی خیال نہیں ہے۔‘‘
بہر حال، بی جے پی کے ترجمان سید شاہنواز حسین نے حکومت کے فیصلے کا بچائو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ریل مسافروں کو تحفظ اور سہولت فراہم کرنا چاہتی ہے جس کے لیے کرایہ میں اضافہ کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں بچا تھا۔ انھوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ یہ فیصلہ یو پی اے حکومت کا ہی ہے لیکن انتخابات کی وجہ سے اس کو نافذ نہیں کیا جا سکے۔ نامہ نگاروں سے شاہنواز حسین نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اچھے دن لانے کے لیے کچھ سخت فیصلے بھی لینے ہوں گے اور اس سے عوام کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔