آندھرا پردیش کے نیلور ضلع میں 1967کو بشیرہ بیگم کی گود میںآنکھیں کھولنے والے ٹویاما الیکٹرک لمیٹیڈ کے چیرمن و منیجنگ ڈائرکٹر مصطفی کمال نے نوعمری میں ہی والد صاحب کا ہاتھ بٹانا شروع کردیاتھا لیکن اب وہ ذاتی تجربات کی روشنی میں ان لوگوں کی معاونت کرنا چاہتے ہیں جو کامیاب صنعت کار یا تاجر بننا چاہتے ہوں ۔دانش ریاض سے ہوئی گفتگو میں انہوں نے نئے صنعت کاروںکی رہنمائی کرتے ہوئے ان اصولوں کو بیان کیا ہے جسے اختیار کرکے تاجر و صنعت کار اپنی تجارت کو فروغ دے سکتے ہیں۔پیش ہیں اہم اقتباسات
سوال:الیکٹریکل انڈسٹری میں TOYAMAنے کافی شہرت حاصل کی ہے ،اس کے پس پردہ کون سے محرکات کار فرما رہے ہیں؟
جواب:TOYAMA Electric Ltdکی داغ بیل والد محترم سید محمدعبد العزیز نے1989میں ڈالی تھی ،انہوں نے Mechanical انجینئرنگ میں گریجویشن کیاتھاجبکہ منیجمنٹ میںاختصاص کے لئے XLRI جمشید پور چلے گئے تھے ۔وہاں سے واپسی کے بعدہی انہوں نے 1971سے 1977تک آزادانہ تجارت شروع کی لیکن اس کے فوری بعد ہی 1977میں انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر تین الگ الگ بزنس میں قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ لیا ،لیکن ساجھے کی ہانڈی کو بیچ چوراہے پر پھوٹنا تھا لہذا ویسا ہی ہوا۔لیکن اس سے جوتجربات حاصل ہوئے وہ سود مند تھے ، آخر جب انہوں نے 1989میں TOYOMAکی بنیاد رکھی تو انڈین ٹیلی کام انڈسٹریز کو Component سپلائی کرنے کا آغاز کیا۔1990میں ہی میں نے کمپیوٹر سائنس میں انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر لی تھی لہذا والدین کا اکلوتابیٹا ہونے کی وجہ سے مجھے والد صاحب کی معاونت کرنی پڑی۔ سات آٹھ برسوں تک محض والد صاحب کے حکم کی تعمیل کرتا رہا اور ان کا اسسٹنٹ بن کر کاروبار کو ترقی دیتا رہا۔لیکن پھر میرے اندر بھی خواہش پیدا ہوئی کہ کیوں نہ کچھ اور کیا جائے لہذا1999میں چھوٹے ٹرانسفارمر PCBکا آغاز کیااسی سال والد صاحب نے switches کی تجارت میں قدم رکھاجسے 2002میں میں نے والد صاحب سے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔2007میں Two links کا آغاز ہوا جبکہ 2008 میں Circuit Breakers کی بنیاد رکھی گئی۔اس طرح Modular switches, Circuit Breakers ، Wiring accessories ، PCB mountable Transformersوغیرہ کی تجارت میں ہماری پیش رفت جاری ہے۔الحمد للہ پورے ہندوستان کے 80شہروں میں ہمارا بزنس پھیلا ہوا ہے۔جبکہ 120ملازمین 15ہزار اسکوائر فٹ پر پھیلے انڈسٹریل علاقہ میں ہمہ وقت مصروف کار ہیں۔
سوال:آپ نے جس وقت تجارت میں شمولیت اختیار کی اس وقت کن مسائل کا سامنا تھا؟
جواب:کالج چھوڑ کر جس وقت میں نے کمپنی میں شمولیت اختیار کی تھی اس وقت پروفیشنلEnvironment کا پتہ نہیں تھا کیونکہ کسی بھی شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے Professionalism کا تجربہ حاصل کرے۔اسی طرح انڈسٹری میں Financeکا بہت بڑا عمل دخل ہے ،مسلمانوں میں میمن برادری اور ہندوئوں میں مارواڑی جس طرح اپنے متعلقین کو مالیاتی معاملات میں manageکرتے ہیں اور سنگین مسائل بھی حل کر لیتے ہیں ان چیزوں کو مجھے سمجھنے میں وقت لگاکیونکہ اگر آپ حکومتی قانون یا ان کے بتائے ہوئے خطوط پر چلنے کی کوشش کریں گے تو کبھی کامیابی نہیں ملے گی۔
سوال:کیا آپ ہندوستان کے جمہوری نظام سے اتفاق نہیں رکھتے؟
جواب:میں ملک کی قدروں کا پاسدار ہوں ،یہاں کے قوانین کی پیروی کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود جو عملی دشواریاں ہیں اسے بیان کر رہا ہوں۔کیونکہ یہاں CAبھی آپ کو ٹیڑھے راستے پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اگر آپ کامیاب Entrepreneur بننا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنا دماغ کھلا رکھنا ہوگاجبکہ قانونی ماہرین کی ٹیم اپنے ساتھ رکھنا ہوگی اور ان سے وقتاً فوقتاً ہی سہی مشورہ کرنا ہوگا۔کیونکہ ہندوسیتان کا منیجمنٹ اسٹائل اور Text Book Management اسٹائل میں کافی تضاد ہے اگر کوئی لگے بندھے اصول کے تحت ہی کام کرتا رہا تووہ کہیں کا نہیں رہے گا۔کیونکہ جب تک آدمی سیٹنگ کو نہیں سمجھتا وہ کسی بھی مسئلے کو نہیں سمجھے گا۔
سوال: تو پھر آپ یہاں کے جمہوری نظام کو کیسا سمجھتے سمجھتے ہیں؟کیا مسلمانوں کے ساتھ تعصب برتاجاتا ہے؟
جواب:ہندوستان کا جمہوری نظام تمام لوگوں کے لئے یکساں ہے کیونکہ سیٹنگ کا فارمولہ تمام لوگوں پر نافذہوتا ہے ،سسٹم یہ نہیں دیکھتا کہ آپ مسلمان ہیں یا ہندویا پھر عیسائی بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ آپ کی سیٹنگ کیسی ہے ۔لہذا سیٹنگ سسٹم ہر ایک کے لئے یکساں ہے۔
سوال:تجارتی نقطہ نظر سے لوگ ہندوستان کی طرف کیوں دیکھ رہے ہیں؟
جواب:اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کا ماحول بہتر ہے جبکہ Entrepreneur کو بہتر مواقع حاصل ہیں۔موجودہ عہد میں چین،ترکی،برازیل ،روس اور پھر انڈیا ،تجارت کو فروغ دینے کے لئے بہترین ممالک ثابت ہو رہے ہیںیہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر Entrepreneur انہیں ممالک میں اپنی تجارت کو فروغ دینے کی کوشش بھی کر رہے ہیں،مثلاً ،جرنلزم،کنسٹرکشن،Real Stateموبائل وغیرہ کے فیلڈ میں کام کرنے کے لئے جس طرح لوگ ان ممالک کا رخ کر رہے ہیںاس کے مقابل کہیں اور مواقع حاصل نہیںہیں۔
سوال:تجارت میں کن اصولوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے؟
جواب:سود کے خلاف ہمیں کام کرنا چاہئے ایک وقت تھا جب جنرل موٹرس نمبر ون تھی لیکن عالمی کساد بازری کے وقت وہ ناکام قرار پائی اور اس کی جگہ TOYOTAنے لے لیا،ٹویوٹا کی تاریخ یہ ہے کہ 1945سے اس کمپنی نے کبھی بھی سود پر کوئی کام نہیں کیا ہے ،جب ایک غیر مسلم کمپنی دنیا کے سامنے مثال قائم کر سکتی ہے تو پھر ہم کیوں نہیں کر سکتے۔آخر کیا وجہ ہے کہ جاپانی دنیا کے بہترین Entrepreneur ہیں ہمیں اس جانب بھی توجہ دینی چاہئے۔اسی طرح اگر ہم Intrestسے ہٹ کر اسلامی فائنانس کے Optionپر توجہ دیں تو اس کے بھی سود مند نتائج بر آمد ہوں گے آخر ملیشیا اور ترکی کے لوگ اسلامی فائنانس پر ہی عمل کر کے ترقی کر رہے ہیں۔اسی طرح اسلام نے مشورہ کو اہم قرار دیا ہے اگر مسلمان مشاورت کے ساتھ تجارت کریں تو اس کی برکتیں بھی حاصل ہوں گی۔
سوال:آپ تجارت کے ساتھ ساتھ سماج کی خدمت کے لئے کیا کرتے ہیں؟
جواب:صرف پیسہ کمانا کبھی ہمارا مقصد نہیں رہا ،یہی وجہ ہے کہ میں ہفتے میں صرف 5دن کام کرتا ہوں سنیچر کا دن دینی کاموں کے لئے وقف ہے جبکہ اتوار کا دن اہل خانہ کے ساتھ گذارتا ہوں،نئے لوگوں کو تجارتی میدان میں سرگرم کرنے کے لئے ہم نے 10کروڑکے فنڈ سے Entrepreneur Development Programکا آغاز کیا ہے اورنوجوانوں کو کامیاب صنعت کار بنانے کی کوشش کرتا ہوں۔
سوال:کوئی ایسا واقعہ جو آج بھی یاد آتا ہو؟
جواب:زندگی میں بہت سارے واقعات یاد آنے والے ہیںلیکن سری نگر سے واپسی کا واقعہ مجھے ہمیشہ یاد آتا ہے۔ہوا یوں کہ میں نے انجینئرنگ کے لئے سری نگر کالج میں داخلہ لیا تھالیکن کسی پریشانی کی وجہ سے مجھے وہاں سے فوری طور پر واپس آنا پڑا ،میری جیب بالکل خالی تھی،پیسے دینے والا کوئی نہیں تھا لیکن میں نے اللہ کا نام لے کر سفر کا آغاز کیا اور لوگوں سے دوستی کر کے جموں چلا آیا ،جموں سے پھر دہلی پہنچا اور وہاں سے بنگلور واپس آگیا اسی دوران لوگوں سے معاملات کرنے کی سدھ بدھ پیدا ہوئی جو ہمیشہ کام آرہی ہے۔
سوال:کیا چیزیں پسند ہیں؟
جواب:اچھا کھانا پسند ہے ،البتہ جس شہر میں بھی جاتا ہوں وہاں کا مقامی کھانا پسند کرتا ہوں