“جمہوریت، سیکولرزم اور سماجی ہم آہنگی کی طرف ہندوستان کے بڑھتے قدم”

ممبئی: ـ’’جمہوریت، سیکولرزم اور سماجی ہم آہنگی کی طرف ہندوستان کے بڑھتے قدم ‘‘دستاویز ہمارے معزز اسکالروں اور کارکنوں کے ذریعہ تحریر کردہ بہترین مضامین کا تکملہ ہے۔ یہ انتہائی اہم دستاویز ہندوستان کے مشہور تنوع، اس کی معروف کثرت ثقافت اور شمولی کردار کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ کس طرح دوسروں کو قبول کرنے کا جذبہ اور ایک ہی مقام پر مختلف ثقافتوں کے انضمام کی صلاحیت نے ہماری خوبصورت اور مالامال جامع ثقافت کو جنم دیا ہے۔ان خیالات کا اظہار وزڈم فاؤنڈیشن کی ڈائرکٹر جنرل زینت شوکت علی نے پریس کلب میں منعقدہ سیمینار کو خطاب کرتے ہوئے کیا۔ 

ڈاکٹر زینت شوکت علی ،انل دھارکر،کمار کیتکر،مولانا ظہیر عباس رضوی دستاویزکا اجرا کرتے ہوئے
ڈاکٹر زینت شوکت علی ،انل دھارکر،کمار کیتکر،مولانا ظہیر عباس رضوی دستاویزکا اجرا کرتے ہوئے

انہوں نے کہا کہ ’’دہشت گردی جو کہ سب سے سنگین جرائم میں سے ایک ہے، اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی بہر صورت مزمت کی جانی چاہئے۔ ملک کی سلامتی ایسا معاملہ ہے جس سے سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ دہشت گردی کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی دائرہ، اس سے سختی کے ساتھ نمٹنا چاہئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث اور بے قصور لوگوں کی جان لینے والے افراد سے نمٹنے کے لئے سخت قوانین بنائے جائیں۔ اس کے مرتکبین کو سلاخوں کے پیچھے ڈھکیلا جائے اور ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔ دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ہمسایہ ممالک سے اس موضوع پر گفتگو کی جائے۔ طالبانی انتہا پسندوں کے ذریعہ ہرات میں عیسائی پادری کو اغوا کئے جانے کے افسوسناک واقعہ کی مذمت ہونی چاہئے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ’’ کئی مشہور اور بارہا ہنگامہ خیز واقعات کے درمیان تقریبا نصف صدی پر محیط طاقتور ہندوستان کے تخیئل کا سہرا اس کے مضبوط سیکولر، جمہوری اور تکثیری تصورات کی موجودگی کو ہی جاتا ہے۔ مستقبل کی طرف ہندوستان کا سفر پر امن طریقہ سے جاری رکھنے کے لئے اعلیٰ اخلاقی معیاروں پر سختی سے عمل پیرائی انتہائی لازمی ہے۔ مختلف طبقات کے مابین حساس رویہ پیدا کرنے کے لئے ترقی پسند سیکولر تنظیمیں قومی انضمام، انجذاب اور سماجی ہم آہنگی پر توجہ مرکوز کرکے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ہندوستانی رائے دہندگان کی تواقعات میں بے حد اضافہ ہوا ہے، جیسا کہ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں دیکھا گیا۔ جمہوریت صرف انتخابی جوڑ توڑ کا نام نہیں ہے۔ جمہوری اقدار کا دائرہ شہری حقوق، اظہار خیال کی آزادی، حریت، آزاد پریس، قانون کی حکمرانی اور مضبوط عدلیہ تک وسیع ہے۔ توقعات کی سیاست مثلاً اچھی حکمرانی، ترقی، بنیادی ڈھانچہ، اقتصادی کامیابی اور نمو کو متوازن کرنے کے لئے انہیں شمولیت، سبھی شہریوں کے لئے مساوی حق اور امن سے جوڑنا ہوگا، تاکہ ہندوستان کو ترقی کے اعلیٰ ترین مقام تک پہنچایا جا سکے۔ ہندوستانی سیاست کے احیاء کا ہدف صرف اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے جب اس کے شہری اس کا مستقبل تابناک بنانے کے لئے مساوی کردار ادا کریں اور اس کے لئے شمولیت انتہائی ضروری ہے۔‘‘
پریس کلب میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے سامنے چیلینج تخیئل کو چنگاری دینا اور اس آگ کو دوبارہ بھڑکانا ہے جس نے جنگ آزادی میں ہم سب کو ایک ساتھ لا کھڑا کیا تھا اور جب تمام مذہبوں، ثقافتوں، طبقوں اور ذاتوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر ایک واحد اکائی کی طرح بات کی تھی۔ ہماری قوم اور تہذیب کا وہی فیصلہ کن لمحہ تھا۔یہ بات صاف رہے کہ ہندوستان کی سیکولر جموریت کی حفاظت یا فرقہ واریت کے خلاف جدوجہد کسی بھی صورت میں تشدد کی دوسری صورتوں سے نہیں کی جانی چاہئے۔ ہندوستان کی سیکولر جمہوریت کے تحفظ اور اس کی تقویت کا واحد راستہ یہی ہے کہ سماجی، تہذیبی اور مذہبی خانوں میں بٹے لوگوں کے درمیان مضبوط تعلقات استوار کئے جائیں۔سوشل میڈیا کا استعمال نفرت انگیزی کی تشہیر کے لئے نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تسلیم شدہ نارواداری کا مقابلہ کیا جائے اور پرنٹ یا الکٹرونک تحریر کے ذریعہ نفرت پر مبنی مواد، ای میل وغیرہ کو روکنے اور انہیں قابل سزا قرار دینے کے لئے سخت قوانین وضع کئے جائیں۔ 4 جون 2014 کو “بغیر کسی وجہ یا اشتعال کے، وحشیانہ طور پر اقلیتی برادری کے ایک نوجوان کی سفاکانہ موت” کی خبر سے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہيں۔ملک کے ناقدین کو بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ اس نے 65 سے زائد سال قبل آزادی حاصل کرنے کے بعد سے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ 1980 کے بعد سے معاشی ترقی دنیا میں سب سے تیز رفتار معیشتوں کے مابین رہی ہے؛ خواندگی، تعلیمی اندراج، شرح پیدائش واموات، نیز جنس کے تعلق سے سماجی اشاریے میں بتدریج بہتری آئی ہے۔ ہندوستان کے معاشی جائزہ پر مبنی رپورٹ 2013-2014 بتاتی ہے کہ ریاست مہاراشٹر کی آمدنی میں 13.8 فی صد کی اوسط شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ چہ جائیکہ محترمہ سونیا گاندھی کانگریس پارٹی کی قیادت کرتی ہیں، لیکن بی جے پی کی حکومت میں سمیتا مہاجن پارلیمنٹ میں دوسری خاتون اسپیکر کے طور پر نمایاں ہیں۔ نئی حکومت کے پاس بھی کابینہ میں چھ خواتین ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ دوسری جانب، اسی ریاست میں (عام طور سے) خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ 3 جون 2014 کو ریاستی مقننہ میں پیش کی گئی اقتصادی جائزہ رپورٹ 2013-2014 کے مطابق 2012 میں خواتین کے خلاف جرائم کی تعداد 17,800 تک جا پہنچی ہے جس میں سنگین جرائم جیسے عصمت دری، اغوا، یرغمال بنانا، جہیز کی وجہ سے اموات نیز غیر اخلاقی اسمگلنگ شامل ہیں۔ اس سلسلے میں ہم یہ تجویز پیش کرتے ہيں کہ فرقہ وارانہ اور مہدوف تشدد کے انسداد سے متعلق ایک ٹھوس بل (انصاف اور معاوضہ تک رسائی) کا پارلیمنٹ میں پاس ہونا ضروری ہے۔قانون کے سامنے حق مساوات کا احترام، تحفظ اور اس کی تکمیل نیز قانون کے مساوی تحفظ کی خاطر مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں پر ذمہ داریاں عائد کی جائیں کہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال غیرجانبداری اور غیر امتیازی طریقہ سے کریں تاکہ مہدوف تشدد بشمول درج فہرست ذات وقبائل، مذہبی ولسانی اقلیتوں، خواتین وبچوں کے خلاف عام تشدد کا انسداد کیا جاسکے جو انڈین یونین کی کسی بھی ریاست میں، انڈین یونین کی کسی بھی لسانی اقلیت کے خلاف ہو، تاکہ سیکولر جمہوریت کا پرچم بلند رہے؛ تاکہ ان کمزور ترین طبقات کو مؤثر تحقیقی، تادیبی اور ایکٹ کے تحت مقدمات کی سماعت کرکے انصاف اور تحفظ تک مساوی رسائی یقینی بنائی جاسکے اور مناسب تحفظ فراہم کیا جاسکے؛ تاکہ از سرنو بحالی کے لئے امداد اور اصلاح دستیاب کرائی جاسکے، اور تاکہ فرقہ وارانہ اور مہدوف تشدد کے شکار تمام افراد کو بازآبادکاری اور معاوضہ فراہم کرایا جاسکے؛ نیز یہ اس سے منسلک یا اتفاقی معاملات کے لئے بھی ہے۔اسی پس منظر میں “جمہوریت، سیکولرزم اور سماجی ہم آہنگی کی طرف ہندوستان کے بڑھتے قدم” پر بحث انتہائی ضروری ہے۔ اس کا مقصد ہندوستان کو تبدیل کرنا ہے اور ایسا کرنے کے لئے ایک شخص پر لازم ہے کہ وہ آج کے مسائل کے حل تلاش کرے۔ صرف تنقید یا ترش روئی ایک محرک تو ہے لیکن یہ بذات خود حل نہیں ہے۔ عذاب کے پیغمبروں کو خارج کر دیا جانا چاہئے۔ ہم سب مل کر ہندوستان کو آگے لے جائيں۔‘‘
مشہور صحافی کمار کیتکر انل دھارکر،رام پنیانی کے علاوہ مولانا ظہیر عباس رضوی اور مولانا اطہر علی نے بھی خطاب کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *