اسلام میں روزہ کی فرضیت کے تدریجی مراحل اور بعض عصری مسائل

ڈاکٹر محمد عارف عمری

مذہب اسلام کی عمارت جن بنیادی ستونوں پر استوار کی گئی ہے ان میں ایک اہم ستون روزہ ہے، روزہ کو عربی میں صوم کہتے ہیں جس کے لفظی معنی رکنے اور چپ رہنے کے ہیں، بعض روایتوں میں روزہ کو ’’نصف صبر ـ‘‘سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، یعنی ضبط نفس، ثابت قدمی اور استقلال کا ملکہ روزہ سے پیدا ہوتا ہے، شریعت کی اصطلاح میں ایک متعینہ مدت تک کھانے ، پینے اور ازدواجی تعلقات سے اپنے آپ کو روکے رکھنے کا نام روزہ ہے۔ البتہ اس کے آداب میں دل اور زبان کو ہر طرح کی برائیوں اور نفسانی خواہشات سے محفوظ رکھنا بھی شامل ہے۔
قرآن مجید کی تصریح کے مطابق روزہ مذہبِ اسلام کے ساتھ مخصوص عبادت نہیں ہے بلکہ اسلام سے پہلے بھی جملہ مذاہب کے مجموعہ ء احکام کا ایک جزء ہونے کا شرف اسکو حاصل رہاہے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔
یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلٰی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (سورہ بقرہ : ۱۸۳)
اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پر ہیزگار ہوجاؤ۔
اس آیت شریفہ میں کَمَا کُتِبَ عَلٰی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْکی تصریح اس بات کی غماز ہے کہ یہ روزہ کا ابتدائی حکم ہے یعنی سابقہ اقوام وملل کے عرف و دستور کے موافق اہل ایمان کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ۔ چنانچہ سابقہ امتوں میں روزہ کا کوئی متعین مہینہ نہیں تھا بلکہ متفرق ایام میں روزہ رکھنے کا رواج تھا بالخصوص یوم عاشوراء کا روزہ یہود اور اہل عرب کے نزدیک معروف تھا، اسی بنا پر قرآن مجید نے روزہ کے ابتدائی حکم میں اس شق کی وضاحت یوں کردی۔
اَیَّاماً مَعْدُوْدَاتِِ (بقرہ : ۱۸۴) چند روز ہیں گنتی کے
البتہ سابقہ امتوں میں روزہ کی فرضیت عمومی تصور سے خارج سمجھی جاتی تھی اور صرف مذہبی پیشوا یا عورتیں ایام مخصوصہ کے روزہ کا اہتمام کرتے تھے۔ اس تصور کی نفی کرتے ہوئے قرآن مجید نے جملہ اہلِ ایمان کو روزہ کا پابند بنایا ہے، صرف مریض اور مسافر کے لئے یہ گنجائش رکھی کہ وہ مخصوص ایام کے بجائے حالت صحت واقامت میں ان روزوں کی قضاء کرلیں۔ ارشاد باری ہے:
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضاً اَوْ عَلیٰ سَفَرِِ فَعِدَّۃٌ مِنْ اَیّامِِ اُخَرَ (سورہ بقرہ : ۱۸۴)
پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا مسافر تو اس پر ان کی گنتی ہے اور دنوں سے۔
اسی طرح سابقہ امتوں کا دستور غالباً یہ بھی رہا ہوگا کہ اصحاب ثروت روزہ رکھنے کے بجائے ایک مسکین کو کھانا کھلاکر روزہ کا فدیہ اداکردیتے رہے ہونگے، چنانچہ روزہ کے ابتدائی حکم میں اس شق کو بھی باقی رکھا گیا لیکن اہلِ ثروت مومنوں کو یہ ترغیب بھی دی گئی کہ:
وَاَنْ تَصُوْمُوا خَیْرٌلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (سورہ بقرہ : ۱۸۴)
اور روزہ رکھو تو بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔
روزہ کا ابتدائی حکم کب اور کہاں نازل ہوا، اس بارہ میں کچھ کہنا مشکل ہے، قرین قیاس یہ ہے کہ یہ حکم مکہ مکرمہ میں نازل ہوا ہوگا کیونکہ عہد مکی میں آنحضرت ﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھا ہے۔ مدینہ کے ابتدائی زمانہ میں سابقہ امتوں کے طرز پر روزہ رکھے جانے کی تصریح کتب احادیث میں موجود ہے۔
اقوامِ سابقہ کے روزے تعداد ایام کے لحاظ سے یقینا کم تھے مگر ان کی شرطیں زیادہ سخت تھیں، یہود کے یہاں یہ معمول تھا کہ روزہ کھولنے کے وقت ایک دفعہ جو کچھ کھاپی لیتے تھے بس وہی جائز تھااس کے بعد اگر سوگئے تو رات کے کسی حصہ میں کچھ کھاپی نہیں سکتے تھے ، احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کے ابتدائی زمانہ میں مسلمانوں کا بھی اسی نظام پر عمل تھا، بعد میں روزہ کے جو نئے احکام نازل ہوئے اس میں تخفیف کی گئی۔ اسی طرح روزہ کے ایام میں بالعموم رہبانیت کا عام ماحول تھااور ازدواجی تعلقات اس کے یکسر منافی تھے۔ اس حکم میں بھی بعد میں رعایت ہوئی۔ الغرض سابقہ امتوں کے دستور کے موافق کچھ دنوں تک روزہ رکھنے کا رواج مسلمانوں میں رہا ۔ اس کے بعد ۲ھ؁ میں باقاعد ہ رمضان کے پورے مہینہ کا روزہ رکھنے کا حکم نازل ہوا اور قدیم عرف و دستور کے برخلاف مسلمانوں کو واضح ہدایات دی گئیں۔ ارشاد باری ہے۔
شَھْرُ رَمْضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدَیً لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنَاتِِ مِنَ الْہُدَیٰ وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمْ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَ مَنْ کَانَ مَرِیْضاً اَوْ عَلٰی سَفَرِِ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامِِ اُخَرَ (سورہ بقرہ : ۱۸۵)
مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن راہ پانے کی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی، سو جو کوئی پاوے تم میں سے اس مہینہ کو تو ضرور روزے رکھے اس کے اور جو کوئی ہو بیمار یا مسافر تو اس کو گنتی پوری کرنی چاہئے اور دنوں سے۔
روزہ کے متعلق یہ آیت شریفہ اور اس کے بعد کی دو آیتیں خالص اسلامی نظام کی آئینہ دار ہیں۔ اور کامل ایک ماہ کے روزہ کی فرضیت کا تعین کرتی ہیں۔ علامہ سید سلیمان ندوی نے اس لطیف نکتہ کو یوں واضح کیا ہے:
’’اسلام نے روزہ کے لئے سال کے بارہ مہینوں میں سے صرف ایک مہینہ کا زمانہ اس کے لئے مقرر کیا ۔ اسی ایک مہینہ کی تخصیص کی بھی ضرورت تھی تاکہ تمام افراد امت بیک وقت اس فر ض کو ادا کرکے اسلام کے نظام وحدت کا مظاہرہ کریں اور اس کے لیے وہی زمانہ موزوں تھا جس میں خود قرآن نازل ہونا شروع ہوا‘‘ ( سیرۃ النبی جلد ۵ ص ۲۹۶)
روزہ کے متعلق اسلام کے تجدیدی حکم نے سابقہ اقوام و ملل کے عرف و دستور میں کہیں کوئی چیز سرے سے ختم کردی اور کہیں اس میں جزوی تبدیلی کی اور بعض مشقتوں کو کم کرکے کچھ نئی چیزیں داخل کردیں۔ چنانچہ یہود کے نزدیک یوم عاشوراء غیر معمولی اہمیت کا حامل دن تھا اور اسی بنا پر وہ اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ شریعت موسوی کے حاملین کے اثر سے اھل عرب بھی اس دن کی عظمت و تقدیس کے قائل تھے۔ اس کے بجائے شریعت محمدی میں نزول قرآن مجید کے آغاز کو بنیاد بناکر ماہ رمضان المبارک کو روزہ کا مہینہ قرار دیا گیا۔ ہنودکے نزدیک روزہ کے ایام میں ازدواجی تعلقات قطعاً ممنوع ہیں۔ اسلام کے مجددانہ حکم نے گھروں میں رہتے ہوئے رات کو اس تعلق کی اجازت دی البتہ حالت اعتکاف میں سابقہ نظام کی متابعت کی تلقین کی۔ رات کے ابتدائی حصہ میں ہی کھانے پینے کی محدود اجازت کو باطل کرکے طلوع سحر تک کھانے پینے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اس طرح قرآن مجید کے اس تجدیدی حکم نے سابقہ شریعت میں ترمیم و تنسیخ کا فریضہ انجام دیا جیسا کہ ارشاد باری ہے۔
مَا نَنْسَخْ مِنْ آَیۃِِ اَوْ نُنْسِھَا نَأْتِ بِخَیْرِِ مِنْھَا اَوْ مِثْلِھَا، اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَئْیِِ قَدِیْرِِ (سورہ بقرہ ۱۰۶)
جو منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا بھلا دیتے ہیں تو بھیج دیتے ہیں اس سے بہتر یا اس کے برابر، کیا تجھکو معلوم نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
بعض محققین علماء کا یہی کہنا ہے کہ نسخ آیات کا مطلب سابقہ شرائع میں تبدیلی اور ان کی جگہ شریعت محمدیہ کے توسط سے نئے احکام کا نازل کرنا ہے۔ اس پس منظر میں روزہ کے احکام میں پائی جانے والی تبدیلیا ں عمدہ مثال کا درجہ رکھتی ہیں۔
الغرض رمضان کے روزہ کی فرضیت والی آیات اسلامی نظام کی آئینہ دار ہیں اور اس سے ماقبل کی دو آیتیں سابقہ امتوں کے عرف و رواج کی عکاس ہیں جن میں جزوی ترمیم کر کے اہلِ ایمان کو مخاطب کیا گیا ہے اور غالبا یہی سبب ہے کہ بعد والی آیات میں فدیۂ صوم کا سرے سے کوئی تذکرہ نہیں ہے جو شریعت محمدی کے اس منشاء کو واضح کرتا ہے کہ اسلام میں امیر و غریب کی کوئی تفریق نہیں ہے، مریض اور مسافر کے علاوہ ہر مکلف شرعی روزہ کا پابند ہے۔ مریض اور مسافر کے لئے بھی فدیہ روا نہیں رکھا گیا ہے بلکہ اور دنوں میں قضاء کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ مالداروں کے لئے فدیہ صوم کا تصور سابقہ نظام کا حصہّ تھا جس کی کچھ دنوں مسلمانوں سے بھی پاسداری کروائی گئی مگر اب نئے اور محکم اسلامی نظام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
بعض عصری مسائل :
۱۔ رویت ہلال کامسئلہ: ماہ رمضان المبارک کے روزہ سے جڑا ہوا ایک اہم مسئلہ رویت ہلال کا ہے۔ بعض لوگ رویت ہلال کے بجائے تحقیق ہلال کی وکالت کرتے ہیں اور اس کے لئے عصری وسائل اختیار کرنے کامشورہ دیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں حدیث شریف کی منشاء کے مطابق ہلال کی اصل کیفیت کی تحقیق مقصود نہیں ہے۔ بلکہ رویت و عدم رویت پر سارا دارومدار ہے اس لئے رویت ہلال کے نظام کو حسب معمول برقرار رکھنا چاہئے۔ البتہ ماہرین کے صلاح و مشورہ سے طول البلد و عرض البلد کے اصول کے مطابق مطالع کی حدبندی ضرور کی جانی چاہئے، یہ تعیین ملکی سرحدوں کے خطوط کے بجائے طبعی اور جغرافیائی پیمانہ پر کی جانی چاہئے۔ اور اس کا ایک عالمی نقشہ مرتب کرکے مشتہر کرنا چاہئے۔ جغرافیائی تقسیم کی بنیاد پر ایک وسیع رقبہ والے ملک میں ایک سے زائد مطلع کی گنجائش پائی جاسکتی ہے۔ اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔
۲۔ رمضان میں فریضۂ زکوۃ کی ادائیگی کا مسئلہ : رمضان کامہینہ روزہ کی مخصوص عبادت کے لئے ہے۔ یہ عبادت غیر رمضان میں نہیں کی جاسکتی ہے۔اور رمضان کے مہینہ میں روزہ کی فرضیت نزول قرآن مجید کی برکت کا ثمرہ ہے، اس مہینہ کو عرف عام میں زکوۃ کا مہینہ سمجھ لیا گیا ہے، جو صریح غلط ہے، رمضان کے بابرکت مہینہ میں صدقات کی کثرت ہونی چاہیے، صدقہ الفطر کی مشروعیت اس مہینہ میں صدقات کے مستحسن ہونے کی بجائے خود ایک بڑی دلیل ہے، مگر زکوۃ تو اپنے مقررہ وقت اور نصاب کے موافق واجب ہوتی ہے۔ اس فریضہ کو صرف رمضان کے مہینہ میں منحصر کردینااور بقیہ پورے گیارہ مہینے زکوۃ سے بے تعلق رہنا درست نہیں ہے۔ رمضان کے بابرکت مہینہ میں استحباب کے مدنظر دیگر مہینوں کے مقابلہ میں کچھ زائد زکوۃ کی ادائیگی تو غنیمت ہے مگر صرف ایک ماہ اور اس میں بھی چند مخصوص ایام اور راتیں متعین کرلینا فریضۂ زکوۃ کی ادائیگی کے آداب کے منافی ہے جس پر علماء کرام اور دانشوران ملت کو غور کرنا چاہیے۔
۳۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں مدارس دینیہ میں تعطیل کا مسئلہ: یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ ماہ رمضان المبارک کا قرآن مجید سے گہرا رشتہ ہے اور مدارس دینیہ قرآن و حدیث کی تعلیم گاہیں ہیں، یہ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ دینی مدارس کے درودیوار جو پورے سال قال اللہ و قال الرسول کی صداؤں سے گونجتے رہتے ہیں اس بابرکت مہینہ میں تعطیلات کے عمومی ماحول کی وجہ سے بے کیف اور بے رونق ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس صورت حال پر بھی علماء و دانشوروں کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، یہ مسئلہ رمضان المبارک میں زکوۃ کی ادئیگی سے غیر معمولی طور پر وابستہ ہے، چنانچہ جب تک اس میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی واقع نہیں ہوگی اس وقت تک اس قضیہ کے حل ہونے کی بظاہر کوئی امید نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *