
ہنر کے ساتھ ڈگری مسلمانوں کی ترقی کاضامن
ظفر آغا
دہلی کے مشہور انگریزی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ میں پچھلے ہفتہ عراق کے حالات پر ایک رپورٹ چھپی تھی جس کا تعلق وہاں کے حالات سے کم اور عراق میں کام کرنے والی ہندوستانی نرسوں کے تعلق سے زیادہ تھا۔ خبر یہ تھی کہ موجودہ سیاسی حالات میں جب کہ عراق میں غیر ملکی کام کرنے والے افراد عراق چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں تو ان حالات میں کیرالہ کی وہ چار نرسیں جو عراق اپنے اپنے گھر چھٹی پر آئی ہوئی تھیں وہ چاروں اب واپس عراق جانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ خبر کے مطابق ان چاروں نرسوں کی معاشی حالت اچھی نہیں ہے۔ چونکہ عراق میں ان کو تنخواہیں بھی اچھی ملتی ہیں اس لیے اپنے اہل خانہ کی پرورش انجام دینے کے لیے وہ چاروں کیرالہ کی نرسیں عراق کی سنگین صورت حال کے باوجود واپس عراق جائیں گی۔
’انڈین ایکسپریس‘ کی اس رپورٹ کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ حالات کی مجبوری نے ان نرسوں کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ اچھی تنخواہ کے عوض وہ اپنی جان دائو پر لگا کر بھی عراق جانے کو تیار ہیں۔ لیکن اسی رپورٹ میں ہندوستان کے باہر نرسوں کو جو تنخواہ مل رہی ہے اس کا بھی ذکر ہے۔ عراق عرب دنیا کا وہ ملک ہے کہ جہاں پر دوسرے عرب ممالک کے مقابلے باہر سے کام کرنے آنے والوں کو تنخواہیں کافی کم ملتی ہیں۔ لیکن عراق میں بھی ایک نرس نرسنگ کا محض ڈپلومہ کرنے کے بعد 50 ہزار سے 60 ہزار تنخواہ حاصل کر سکتا/سکتی ہے۔ اس کے برخلاف اگر کسی نرس کے پاس نرسنگ کی گریجویشن ڈگری ہو تو اس کو یورپ اور امریکہ جیسے ممالک تک میں نہ صرف جلد نوکری مل جاتی ہے بلکہ اس کی تنخواہ ایک لاکھ روپے اور ا س سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
میں نے یہ لمبی تمہید یہاں اس لیے باندھی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ’انڈین ایکسپریس‘ کی اس رپورٹ میں ایک اہم سبق چھپا ہوا ہے۔ وہ سبق یہ ہے کہ اس اکیسویں صدی میں اگر کسی شخص کے پاس کوئی ہنر ہے تو اس کی قدر و قیمت نہ صرف اس کے اپنے ملک میں بلکہ دنیا بھر میں بڑھ جاتی ہے۔ لیکن اس اکیسویں صدی میں محض ہنر ہی کام آنے والا نہیں ہے۔ اگر خالی ہنر ہے تو ایک سڑک کے کنارے کام کرنے والے مسلم میکینک کی طرح وہ شخص کسی طرح اپنی زندگی بسر کر لے گا لیکن اگر ہنر کے ساتھ ساتھ اس شخص کے پاس اس ہنر کی ڈگری بھی ہے تو اس شخص کے روزگار کے لیے یورپ اور امریکہ تک کے دروازے کھل جائیں گے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس کی آمدنی فی ماہ ایک لاکھ روپے سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں ہنر کی کوئی کمی نہیں ہے۔ آج بھی سارے ہندوستان میں مسلم کاریگر کی وقعت سب سے زیادہ ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہنر کے ساتھ ساتھ اس کے پاس کسی قسم کی ڈگری نہیں ہے۔ ڈگری آئے تو آئے کہاں سے؟ وہ عموماً ٹھہرا جاہل، اپنی دستخط کرنے سے بھی معذور! ایسے حالات میں ڈگری کیسے ملے؟
یعنی دور حاضر میں کامیابی کے لیے ہندوستانی مسلمان ترقی کی پہلی سیڑھی تو بہت آسانی سے چڑھ جاتا ہے لیکن آگے کی منزلیں حاصل کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے۔ مسلمان میں بلا کی صلاحیت ہے۔ اس کو طرح طرح کے ہنر آتے ہیں۔ وہ بہترین کاریگر ہوتا ہے، ماہر الیکٹریشین ہوتا ہے، غضب کا میکینک ہوتا ہے۔ اسی طرح مسلم نائی، مسلمان باورچی، مسلم کپڑا بننے والا اور طرح طرح کی روایتی دستی صنعت میں مسلم کاریگر کا سکہ جما ہوا ہے۔ لیکن وہ یہ تمام کام اس لیے کرتا چلا آ رہا ہے کہ یہ اس کا پشتینی کام ہے یا پھر مجبوری کے تحت وہ کبھی موٹر میکینک بن جاتا ہے تو کبھی الیکٹریشین بن جاتا ہے لیکن وہ اپنے اس ہنر کے بل بوتے پر کوئی خاص ترقی نہیں کر پاتا ہے۔ اس بات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عموماً ہندوستانی مسلمانوں میں ہنر اور صلاحیت کی کمی تو نہیں ہے اور اس سبب ترقی کی پہلی منزل تو اس کو حاصل ہے، لیکن اس کو اپنی صلاحیت اور ہنر کو مارکیٹ یعنی بازار سے جوڑ کر اپنے ہنر یا صلاحیت کی قیمت بڑھانے کا ڈھنگ نہیں آتا ہے۔ مثلاً آج بڑے شہروں تو کیا چھوٹے شہر کا بھی ایک نائی ہزاروں روپے کما سکتا ہے بشرطیکہ وہ سہی جگہ پر ایک اچھا سا سیلون کھول کر کام کرے، تھوڑی بہت انگریزی کا استعمال کرے اور اس کی دوکان کی سج دھج بہتر ہو تو اسی نائی کی مارکیٹ ویلو ایکدم بڑھ جائے گی اور اس کی آمدنی ہزاروں روپے بہ آسانی ہو جائے گی۔ اب ایک باصلاحیت اور باہنر شخص اپنی مارکیٹ ویلو کیسے بڑھائے!
اس اکیسویں صدی میں اپنی صلاحیت اور ہنر کی مارکیٹ ویلو بڑھانے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ آپ کو ہنر کے ساتھ ساتھ ایک ڈگری بھی حاصل کرنی ہوگی۔ ڈگری حاصل کرنے کے لیے یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ایک کاریگر کسی اسکول میں باقاعدہ داخلہ لے، پھر امتحان پاس کرے اور تب اس کو ڈگری ملے گی۔ بہت سے ایسے ہنر ہیں کہ جس کا سرٹیفکیٹ محض ایک ٹسٹ کے بعد حکومت سے مل جاتا ہے اور پھر اسی سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر ایک کاریگر دنیا میں کہیں بھی کام کر سکتا ہے۔ مثلاً مسلمانوں میں نل اور پانی کی لائن ٹھیک کرنے والے محلوں محلوں پھرتے ہیں جن کو آج کی اصطلاح میں پلمبر کہا جاتا ہے۔ دن بھر محنت کے بعد بمشکل وہ دو وقت کی روٹی مہیا کر پاتے ہیں۔ لیکن کسی پلمبر کو یہ نہیں معلوم کہ یورپ اور امریکہ میں وہی پلمبر لاکھوں روپیہ کما سکتا ہے۔ اس کے لیے اس کو کسی بڑی ڈگری حاصل کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت ہند کی جانب سے Labour Ministry ایک سرٹیفکیٹ دیتی ہے جو کسی بھی شہر میں ایک چھوٹا سا ٹیسٹ دے کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس سرٹیفکیٹ کے ملنے کے بعد ایک پلمبر یا ایک نائی دنیا میں کہیں بھی جا کر اپنے ہنر کی بنا پر بڑی رقم کما کر اپنی اور اپنے اہل خانہ کی زندگی میں انقلاب بپا کر سکتا ہے۔
الغرض، وہ نرسنگ ہو یا پلمبنگ یا پھر نائی گیری یا ککری ایسے سینکڑوں ہنر ہیں جن میں مسلمانوں سے بہتر صلاحیت رکھنے والے افراد ملنا مشکل ہیں، لیکن ان ہنر کے ہوتے ہوئے مسلمان پریشانی اور پسماندگی کی زندگی گزار رہا ہے۔ آج کسی بھی ہنر کی قدر و قیمت ساری دنیا میں اب یورپ اور امریکہ جانے کے لیے محض ڈاکٹر اور انجینئرنگ کی ڈگری ہی درکار نہیں ہے، اگر آپ ایک پلمبر، ایک میکینک یا پھر ایک الیکٹریشین ہیں تو بھی آپ امریکہ تک جا کر لاکھوں کما سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ کیرالہ کی نرسوں کی طرح آپ کے پاس ہنر کے ساتھ ساتھ اس ہنر کے تعلق سے کوئی چھوٹی موٹی ڈگری یا پھر Labour Ministery کا سرٹیفکیٹ بھی موجود ہو۔ اگر آپ نے یہ دونوں اشیاء دستیاب کر لیں تو پھر آپ اپنے محلے کے معمولی نل ٹھیک کرنے والے پلمبر نہیں رہ جائیں گے بلکہ پھر تو آپ کے لیے گلوبل مارکیٹ کھل جائے گی اور آپ دنیا میں کہیں بھی اپنی قسمت آزما سکتے ہیں۔ تو پھر دیر کیوں کرتے ہیں! یہی وہ مہینے ہیں جب کسی بھی ہنر کی ڈگری یا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا وقت ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں معلومات کیجیے اور جلد ڈگری حاصل کر کیرالہ کی نرسوں کی طرح عراق سے امریکہ تک کہیں بھی جا کر اپنی زندگی بدل ڈالیے۔
افسوس کہ ہمارا کاریگر، ہنر مند اور طرح طرح کی صلاحیت رکھنے والا طبقہ اس لائق بھی نہیں کہ وہ اپنے سے ڈگری یا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی انفارمیشن حاصل کر سکے۔ اس کے لیے مسلم معاشرے اور سیاسی اداروں کو آگے آ کر مسلم سماج میں ’انفارمیشن انقلاب‘ بپا کرنا ہوگا تاکہ مسلمان کاریگر صرف عرب دنیا میں ہی نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ تک جا کر اپنی قسمت بدل سکے۔