فساد انگیزی اور تخریب پسندی کا مقابلہ تعمیر پسندی اور بے لوث محبت و اخوت کے جذ بے سے کیجئے
عبدالعزیز
آج ہم جن حالات سے پوری دنیا میں،اپنے ملک میںیا اپنی ریاست میں گذر رہے ہیں اس میں ضروری ہے کہ ہم اپنے اندرونی حالات کا سختی اور انصاف پسندی کے ساتھ جائزہ لیں اور قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں ۔ہمارے اندر جب تک اندرونی تبدیلی پیدا نہیں ہو گی اس وقت کسی چھوٹی یا بڑی تبدیلی کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی ۔میرے نزدیک اندرونی چیلینجز بیرونی چیلینچز سے کم سنگین یا کم اہم نہیں ہیں لہٰذا ہم پہلے اندرونی تبدیلی کی بات کرینگے۔
اخلاق کی بلندی :
اندرونی تبدیلی کرنے کے لئے تین پہلو ضروری ہیں ۔حالات چاہے آسان ہوں یا مشکل ،سازگار ہوں یا نا سازگار ،ہمیں اپنے طرز عمل کو قابو میں رکھتے ہوئے اپنے ذہنی شعور اور اسکی ارتقاء کے ساتھ اخلاق و کردار کی بلندی کی چھونا چاہئے ، ہم کسی حالت میں بھی رد عمل ( Reaction ) کا شکار نہ ہوں ۔عفود و درگذر کا طریقہ اپنائیں جیسا کہ اللہ کا حکم ہے۔ اِدفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا ا لَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہٗ عَدَاوَۃُٗ کَاَنَّہٗ وَلِیُّٗ حَمِیْمُٗ۔(حم السجدہ، آیت ۔۳۴)
’’ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ تمہا را جگری دوست بن گیا ‘‘
اللہ اور اسکے رسول کی تعلیمات میں یہ بات نمایاں طور پر ہے کہ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں یعنی بظاہر ہمارے مخالفین بد ی کا کیسا ہی خوفناک طوفان اٹھائے ہوں جس کے مقابلہ میں نیکی عاجز اور بے بس ہوتی ہو لیکن بدی بجائے خود اپنے اندر کمزوری رکھتی ہے جو آخر کار اسکا بھٹہ بھٹا دیتی ہے ۔اس کے برعکس نیکی خود ہی ایک طاقت ہے جو دلوں کو مسخر کرتی چلی جاتی ہے آدمی خواہ کتنا ہی بگڑا ہو ا ہو، اپنے دل میں اسکی قدر محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔پھر جب نیکی اور بدی آمنے سامنے مصروف پیکار ہوں اور کھل کر دونوں کے جوہر پو ری طرح نمایاں ہو جائیں ایسی حالت میں تو ایک مدت کی کشمکش کے بعد کم ہی لوگ باقی رہ سکتے ہیں جو بدی سے متنفر اور نیکی کے گرِویدہ نہ ہو جائیں ۔قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ بدی کا مقا بلہ محض نیکی سے نہیں بلکہ اس نیکی سے کرو جو بہت اعلیٰ درجہ کی ہو یعنی کوئی تمہارے ساتھ برائی کرے اور تم اس کو معاف کردو تو یہ محض نیکی ہے۔اعلیٰ درجہ کی نیکی یہ ہے کہ جو تم سے برا سلوک کرے تو موقع آنے پر تم اس کے ساتھ احسان کرو ۔ اس کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ بدترین سے بدترین دشمن بھی آخر کار جگری دوست بن جائیگا۔
یقیناََ کچھ خبیث قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو ان پر کوئی چیز اثر انداز نہیں ہوتی ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے ۔
منافقت سے دوری :
دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی چیز پر جب ہم خود نہ عمل کر رہے ہوں تو دوسروں کو اسکی طرف کیسے بلائیں جو خود نہیں کرتے وہ ہدایت نہ کرینگے اس سلسلہ میں بھی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی ہے کہ ’’جو نہیں کرتے ہووہ کیوں کہتے ہو‘‘ ۔
فیض احمد فیض کمیونسٹ تھے مگر ان کی سنئے ؎
ہم شیخ نہ لیڈر ، نہ مصاحب نہ صحافی
جو خود نہیں کرتے وہ ہدایت نہ کرینگے
ذمہ داریاں :
تیسرا اہم پہلو یہ کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر جوا ہم ذمہ داریاں ہم پر ڈالی گئی ہیں ان ذمہ داریوں کو کما حقہ ہم پورا کریں ۔اس میں تعمیر ذات، اہل و عیال کی تعلیم و تربیت ،معاشرہ کی اصلاح و ترقی کے کاموں کے لئے اللہ اور رسول کی طرف سے زبردست تاکید کی گئی ہے ا ور اس ذمہ داری کو پورا نہ کرنے پر عذاب الٰہی سے دوچار ہونے کی بات کہی گئی ہے ۔خود غور کیجئے کہ اگر ہم اپنی ذات کے مطالبہ نہ پورے کر رہے ہوں اپنے گھر کی ذمہ داری نہ نباہ ر ہے ہوں اپنے معاشرے کا حق ادا نہ کر رہے ہوں تو کیسے ہم دوسروں کو مخاطب کر سکتے ہیں خواہ وہ جماعت ہو یا حکومت ۔
ہم جیسے جیسے اپنی کوتاہیوں پر غور کرتے اور اپنی خامیوں پر نظر کرتے جائیںگے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں گے تو یہ چیلینج جو اندرونی ہے بہت بڑا اور اہم نظر آئے گا اسلئے ہمیں اسکا مقابلہ سب سے پہلے کرنا چاہئے۔
بیرونی چیلینجز:
دوسرا چیلینج جو بیرونی ہے اسکا ذکر ہم اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں اس کا مقابلہ کرنے سے ہم کیوں قاصر ہیں اس پر اچھی طرح سے غور و فکر کرنا چاہئے ۔ہم نے اس پر بہت غور کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ مسلمان ہر وقت اور ہر گھڑی صرف اپنے مسائل پر غور و فکر کرتا ہے اور تھوڑی بہت چیخ و پکار بھی کرتا ہے وہ بھی بے ڈھنگے طریقہ سے ،ہلکے پھلکے انداز سے جس کا اثر حکومتوں پر با لکل نہیں ہوتا۔
سارے انسانوں کے مسائل ہمارے مسائل :
اگر ہم اس روش کو بدل دیں اور قرآن و حدیث سے رہنمائی حاصل کریں تو اس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ سارے انسانوں کے مسائل ہمارے مسائل ہیں ہمیں سارے مسائل کے حل کے لئے غور وفکر کرنا چاہئے ۔ غربت، افلاس ، جہالت، بیماری یہ سب کے مسائل ہیں ۔ان کو حل کرنے کے لئے ہم سب سے زیادہ اگر سر گرم عمل ہو جا ئیں تو ہمارے مسا ئل جسے فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے اس میں ایک حد تک کمی واقع ہو جائے گی اور ہماری سیاسی وقعت اور وزن غیروں کی نظر میں جوکچھ بھی نہیں ہے وہ بھی بڑھ جائے گی ۔ یہ کام کیسے ہوگا اسکی بھی رہنمائی نہایت واضح انداز میں قرآن مجید میں اور اللہ کے رسولﷺ کے ارشاداتِ گرامی میں موجود ہے ۔جو بات ہم بتانے جا رہے ہیں یہ خود اتنا بڑا اور اہم موضوع ہے کہ اس پر کافی روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سبق کو مسلمان بھلا چکے ہیں ۔علامہ اقبال نے اس سبق کو یاد دلانے کی بھر پور کوشش کی تھی ان کی بات ہم بعد میں کہیں گے اللہ کی بات سنئے اس نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ
کوا نوا قوامینَ بالقسط ۔۔۔ عدل وانصاف کے علمبردار بنو ۔ضرورت ہے کہ سب سے پہلے ہم عدل و انصاف کو اپنے اوپر لاگو کریں ۔ہم اپنی زندگیوں کو عدل و انصاف کے مطابق ڈھالیں پھر اپنے معاشرے کی تعمیر اس کی بنیاد پر قائم کریں مسلمانوں کو خاص طور پر جاننا چاہئے کہ عدل و انصاف وہ بنیادی مقصد ہے جس کے لئے انبیاء کرام دنیا میں بھیجے گئے تھے ۔
اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے ۔۔
’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا ہم نے کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں ۔‘‘
دوسری جگہ کچھ اس طرح ہے :
’’ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو تم عدل و انصاف کے علمبردار بنو اور اللہ کے واسطے گواہ بنو چاہے اس گواہی یا انصاف کی زد تمہارے والدین یا تمہارے رشتہ دار وں پر پڑتی ہو ‘‘
ایک دوسرے مقام پر کتنی پیاری اور اونچی بات کہی گئی ہے ملاحظہ فرمائیں :
’’ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو تم اللہ کے لئے کھڑے ہو جاؤ انصاف کے گواہ بنو اور تمہیں کسی دوسری قوم کی دشمنی اس بات پر مجبور نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو یہی تقویٰ اور پرہیز گاری کے قریب ترین چیز ہے ۔‘‘
نبی کریم ﷺ کی بات بھی سماعت فرمائیے :
’’ ان لوگوں میں سے جن کو اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا اس کے عرش کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہو گا ۔اِمام عادل بھی ہوگا وہ حکمراں جو عدل و انصاف میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا ۔ہے اسی طرح وہ لوگ جن کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں وہ ہیں جو عدل و انصاف کو اپنی زندگی میں ڈھالتے ہیں ‘‘
انہی فرمودات کو پڑھکر علامہ اقبال نے مسلمانوں کو جگانے کی کوشش کی تھی ؎
سبق پڑھ پھر صداقت کا، عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھسے کام دنیا کی امامت کا
آخری بات یہ کہنا چاہوں گا کہ قیام عدل کے لئے معاہداتی سیاست کی بھی ضرورت ہے جیسے دوسری کمیونٹی یا دوسرے طبقہ والے معاہدہ یا alliance کے ذریعہ اپنی وقعت اور حیثیت بڑھا رہے ہیں ہمیں بھی اس فارمولے یا پالیسی کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔کیرل میں اس کے نتائج اچھے ہیں جہاں کیرل کی طرح مسلم آبادی ہے وہان یہ تجربہ کیا جا سکتا ہے ۔جیسے ہماری ریاست مغربی بنگال میں یہ تجربہ ماضی میں آزادی کے بعد چند مہینوں کے لئے کیا گیا تھا نتائج اچھے نظر آئے ۔بغل کی ریا ست میںبھی ہماری آبادی قابل لحاظ ہے وہاں بھی ایسے مواقع ہیں مگر ہماری کوششوں اور تقریروں سے خواہ وہ سماجی ہوں یا سیاسی فرقہ واریت یا فرقہ وارانہ ماحول کو تقویت نہ پہونچے اسکا خاص خیال رکھنا ہوگا ۔ فرقہ وارانہ ماحول یا فرقہ واریت سے مسلم اقلیت کو سب سے بڑا اور سنگین نقصان پہنچتا ہے جو لوگ ہمارے اندر فرقہ واریت کا ماحول پیدا کرتے ہیں خواہ اندر یا باہر وہ ہمارے سب سے بڑے د شمن ہیں ہمیں ان دشمنوں سے سب سے پہلے مقابلہ کرناہوگا ۔(یو این این)