
نیکیوں کا موسم بہار رمضان المبارک
شمس تبریز قاسمی
فضیلت رمضان
آج ہماری زندگی میں ایک دفعہ پھر نیکیوں کا موسم بہار یعنی رمضان المبارک رحمتوں کی بہار لئے جلوہ فگن ہو گیا ہے ۔ماہ مبارک کے متعلق نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ لوگو! تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے ، مبارک ہے یہ مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے کو فرض اور رات کے قیام کو نفل قرار دیا ہے جس نے رمضان میں نفلی کام کیا، گویا اس نے فرض ادا کیا جس نے ایک فرض ادا کیا اس نے 70فرض ادا کئے یہ صبر کا مہینہ ہے صبر کا جواب جنت ہے۔رمضان غم خواری کا مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے جس نے اس میں روزے دار کو افطار کرایا اس کے گناہوں کی مغفرت کر دی جائے گی۔
دوسری جگہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: رمضان میں آدمی کے ہر عمل میں 10گنا سے 700گنا تک ثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ روزہ میرے لئے ہے ،میں خود اس کی جزا دوں گا‘‘۔ روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی روزے دار کو افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت ملے گی۔فرمایا گیا ہے جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ بے ہودہ اور فحش باتیں نہ کرے، اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ اور جھگڑا کرے توروزہ دار کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔روزے کی فضیلت اہمیت درجات بتانے کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کا احساس بھی دلایا گیا ہے۔
رمضان کے شب وروز کو اللہ کی طاعت وبندگی میں لگانے اوراسے غنیمت جانتے ہوئے اعمال خیر میں صرف کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس سے استفادے کا ہم واضح پروگرام اورنظام الاوقات بنائیں اپنے اوقات کو ڈیوٹی، اہل خانہ ،تلاوت وذکر، سونے جاگنے ،نماز وعبادت اورملنے جلنے میں تقسیم کریں کہ کب ہمیں اہل خانہ کے ساتھ رہنا اوربات چیت ودلبستگی کرنی ہے؟ کب تلاوت کرنی ہے؟ کب ذکرواذکار اورعبادت کرنی ہے؟ کب سونااورکب جاگنا ہے؟ اورکن اوقات میں ملنے جلنے والوں کو وقت دیناہے؟ کب دینی پروگراموں میں حصہ لینا ہے؟ ا ورکب کیا کرنا ہے؟ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارا ہرکام منظم ہو،ہرکام اپنے وقت پر ہو،چاہے اس میںکتنی ہی رکاوٹیں کیوںنہ پیداہوں، اگرہم نے ایسا پروگرام نہیں بنایا اورشب ورروز کی سرگرمیوں کے لئے اوقات مقررنہ کئے بلکہ چھوڑدیا کہ جب جس چیز کے کرنے کا جی چاہاکرلیا تو پھر ہم کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ابھی وقت مقر رکرلیں کہ کب ہمیں کیاکرنا ہے اوراس کے ساتھ ہم یہ بھی اہتمام کریںکہ ہرعمل خیرکے بعد ہرنماز کے بعد اورسونے سے پہلے اوراٹھنے کے بعد کچھ وقت اذکاروتسبیحات کیلئے مختص کردیں۔ بہت سے مسلمان ایسے ہیںجنہیں رمضان اور روزے کے احکام کی واقفیت نہیں ہے۔ انہیںچاہئے کہ رمضان شروع ہونے سے پہلے رمضان کے متعلق ضروری احکام اوراس کے فضائل کاعلم حاصل کرلیں ۔بندہ مامور ہے اوراسے حکم ہے کہ وہ اللہ کی عباد ت کرے اورجوبھی عبادت کرے علم وبصیرت کے ساتھ کرے، اللہ نے بندوں پر جو فرائض وواجبات لازم کئے ہیں اور انہیں جن ضروری اعمال کا پابند بنایا ہے اس کا علم حاصل کرنا ہر بندے پر فرض ہے۔ ان فرائض وواجبات سے ناواقفیت یاجہل قابل قبول عذر نہیںہے اور اللہ اسے محض ناواقفیت کی بنیاد پر نہیں چھوڑے گا بلکہ جہل کے باوجود اس کی عدم تعمیل پر ماخوذ ہوگا۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ رمضان آنے سے پہلے ہی روزے کے مسائل واحکام کا علم حاصل کرلیں تاکہ ان کا روزہ درست اوراللہ کے نزدیک مقبول ہو۔اللہ تعالی فرماتا ہے:
فَاسْاَلُواْ اَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ(الانبیاء)
مسلمانوںکوچاہئے کہ وہ روزے کے فضائل واحکام سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد اپنے آپ کو اطاعت وبندگی کے لئے تیار کرے۔ رسول اللہﷺ اپنے اصحاب کرام کو اس مبارک مہینہ سے استفادہ کرنے اوراسے غنیمت جاننے کے لئے تیار کرتے اوراس کا استقبال کرنے پر انہیں ابھارتے اورعبادت کے لئے کمر بستہ ہوجانے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ رمضان کی آمد سے قبل آخری دنوں میں آپﷺفرمایا کرتے تھے:
’’اتاکم رمضان شھرمبارک فرض اللہ عزوجل علیکم صیامہ تفتح فیہ ابواب السماء وتغلق فیہ ابواب الجحیم وتغل فیہ مردۃ الشیاطین للہ فیہ لیلۃ خیر من الف شھر من حرم خیرھا فقد حرم‘‘۔(سنن النسائی)
رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے پاس آگیا ہے اللہ نے تم پر اس کے روزے فرض کئے ہیں۔ اس میں آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے اورجہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیںاورسرکش شیطانوں کو پابہ زنجیر کردیا جاتا ہے۔ اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینہ سے بہتر ہے جواس کے خیرسے محروم رہا وہ محروم ہی رہ گیا۔
ہمیں رمضان میں سلف صالحین کے حالات وواقعات کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے اوردیکھنا چاہئے کہ سلف صالحین رمضان کو کام میں لینے اور اس سے استفادہ کرنے میں کتنے حریص تھے ؟اوراس میں کس طرح عبادت وریاضت میں مشغول رہتے تھے؟ جلیل القدر محدث حضرت سفیان ثوری کے بارے میں مشہور ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آتا تو وہ سارے اعمال کو ترک کردیتے اور قرآن کی تلاوت میں مشغول ہوجاتے تھے۔ ولید بن عبد الملک کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہر تین رات مین قرآن ختم کرتے تھے۔ ربیع بن سلمان سے مروی ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ ہرماہ تیس قرآن ختم کرتے تھے الگ مضان میں ساٹھ ختم کرتے تھے ۔امام محمد بن اسمعیل البخاری کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ رمضان میں ہرروزدن کے اوقات میں ایک ختم کرتے اورتراویح میںہرتین رات میں ایک ختم کرتے تھے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ وہ رات کی عبادت میں ہرروز ایک قرآن ختم کرتے تھے اوردن کا ختم اس کے علاوہ تھا۔
رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ طاعت وبندگی اورقربتوں کا مہینہ ہے ہمیں چاہئے کہ اس ہردلعزیز مہمان کی آمد کا خوش دلی سے استقبال کریں اوراس کی تیاری کریں ۔ہم رمضان کا اس طرح استقبال کریں جس طرح انسان اپنے محبوب اورمعزز ومحترم اورہردلعزیز شخص کا استقبال کرتا ہے ۔یہ اللہ کا کتنا بڑا فضل واحسان ہے کہ اس نے اپنے بندوںکی کوتاہیوں کی تلافی کا موقع رکھا اور ہمیں اس کی توفیق دی ہے اوریہی نہیں کہ اس کی تلافی کے لئے ایام رکھے بلکہ اس میںعمل خیر کے اجر کو بھی بڑھا دیا جاتا ہے کہ اس امت کی عمریں کم ہیں اوروہ زیادہ عرصہ تک اعمال خیر کا ذخیرہ جمع کرنے سے قاصر تھے۔ ہمیں غورکرنا چاہئے کہ گزشتہ رمضان کے بعد ہم سے کتنی غلطیاں اورلغزشیں ہوئیں ہم نے کتنے گناہ کئے اور اللہ کو ناراض کرنے والے کتنے کام کئے ہیں؟ کتنے لوگ جو سابقہ رمضان مین تھے اب نہیں ہیں اورکتنے ہیں جو بستر مرگ پرپڑے موت کا انتظار کررہے ہیں اوررمضان کا روزہ رکھنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں اپنامحاسبہ کرناچاہئے اورماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بازرہناچاہئے۔ کتنے ہیں جنہیں کندھوں پر اٹھاکر شہر خموشاں پہونچا دیاگیا اورمٹی کے اندر دفن کرکے ہمیشہ کے لئے اللہ کے سپرد کردیا گیا وہ اپنے ساتھ نہ سونا چاندی لے کرگئے نہ بینک بیلنس اورمال وز،روہ اپنے ساتھ نیک اعمال ہی کی پونجی لیکر گئے ہیں ان کی پونجی اورتوشہ اگر نیک عمل کاہے تو ان کی کامیابی ہے اوراگر بداعمالی کا توشہ اپنے ساتھ لیکر گئے تو ان کی خرابی وبربادی ہے۔ اس آنے والے مہینہ کے فضائل بے شمار،انعامات بے کراں اورفوائد عظیم وبے حدوحساب ہیں ۔اس کے شب وروز خیرکے جھونکے چلتے رہتے ہیں، رحمتوں کی بارش ہوتی رہتی ہیں، رضاوخوشنودی کا اعلان ہوتا رہتا ہے۔ اللہ تعالی اسی ماہ کو نزول قرآن کا مہینہ اورروزہ رکھنے کا موسم منتخب کیا ہے، ہمیں اس کے خیروبرکات کی تلاش اوراس کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے۔
دعاواستغفار
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیاگیا ہے کہ جب رمضان آتا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا تھا اور نماز میں اضافہ ہوجاتا تھا اور دعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے اور خوف غالب ہوجاتا تھا۔ (فضائل رمضان بحوالہ درمنثور) ویسے بھی دعا کے فضائل قرآن وحدیث میں بے شمار ہیں اللہ تعالی مانگنے والوں سے خوش ہوتے او رنہ مانگنے والوں سے ناراض ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ ادعونی استجب لکم‘‘ تم مجھے پکارو میں تمہاری پکار کو قبول کروں گا۔
لہذا ایسا بابرکت مہینہ جو مہمان کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے اور اس مہینے کی بہت ساری فضیلتیں قرآن واحادیث میں ثابت ہیں تو ہمیں چاہئے کہ خوب گڑگڑا کر عاجزی کے ساتھ اپنے لئے، والدین کیلئے،بالخصوص امت مسلمہ کیلئے کیونکہ امت مسلمہ اس دور میں ہرجگہ ہر ملک میں پریشان ہے۔ خواہ وہ مسلم ممالک ہوں یا غیرمسلم ممالک ۔ لہذا امن عالم کیلئے اور مسلمانوں کی فتح وکامرانی کیلئے اس رمضان المبارک کو غنیمت سمجھیں اور دعاء مقبول میں انہیں یاد رکھیں۔ پتہ نہیں ہمارے کتنے مسلمان بھائی اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں؟ انہیں ہرطرح کے ظلم وستم کا نشانہ بنایا جارہاہے صرف اس وجہ سے کہ وہ مسلمان ہیں اور اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کرتے ہیں۔ لہذا خصوصی طور پر ان اسیران اسلام کیلئے دعاء کریں، اللہ آپ کی دعا کو رائیگاں نہیں جانے دے گا اور ان کی رہائی کے اسباب مہیا کرے گا انشاء اللہ ۔
اللہ تعالی شانہ سے دعا کیلئے اخلاص بہت ضروری ہے، اگر اخلاص نہیں ہوگا تو دعا قبول نہیں ہوگی ۔دعا کی قبولیت میں جلد بازی نہ کریں اور نہ ہی مایوسی کے شکار ہوں مثلایو ں کہنا کہ دعا کرتے ہوئے کافی عرصہ ہوگیا قبول ہی نہیں ہوتی۔ دعا مانگنے سے پہلے اور بعد میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرنا چاہئے۔ دعاء مانگنے کے اول وآخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سلام بھیجنا چاہئے۔ کسی دعا پر اصرار نہ کریں مثلا یوں کہنا کہ اے اللہ تجھے میری اس دعا کو قبول کرنا ہی ہوگی۔ دعا کرتے وقت اپنے گناہوں کا اقرار کیجئے اور معافی مانگئے، توبہ کیجئے یہ عمل اللہ کو بہت پسندیدہ ہے ۔
شب قدر
ماہ مقدس کی راتوں میں سے ایک رات لیلۃ القدر کہلاتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی امت پر رب ذوالجلال کی طرف سے ہونے والی خصوصی عنایات میں سے ایک عظیم عنایت ورحمت ہے،۔ قرآن مجید میں اس رات کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:’’ لیلۃ القدر خیرمن الف شہر ‘‘۔ شب قدر کی اہمیت کیلئے قرآن کریم میں بیان کردہ مذکورہ فضیلت ہی کافی تھی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کی قدرومنزلت بتانے کیلئے متعدد ارشادات فرمائے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جوشخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کیلئے کھڑا ہو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں‘‘۔ (بخاری)
مذکورہ حدیث اور تمام احادیث اور روایات جس میں کسی عمل صالح سے گناہوں کی معافی کا ذکر آتا ہے اس سے مراد گناہ صغیرہ ہوتے ہیں اسلئے کہ قرآن کریم میں کبیرہ گناہو ں کی معافی کو توبہ کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔ علماء کا اجماع ہے کہ کبیرہ گناہ بغیرتوبہ کے معاف نہیں کئے جاتے ۔اسلئے لیلۃ القدر کی عبادت ہو یا اور کوئی نیک عمل، اس کے فضائل پڑھ کر بلا جھجھک گناہ کرتے جانا اور یہ امید رکھنا کہ یہ سبھی گناہ تو اعمال صالحہ سے معاف ہوہی جائیں گے یہ جہالت ہے، کبیرہ گناہوں سے توبہ کا اہتمام لازم ہے، توبہ کے باوجود اس لغزش وخطا کے پتلے سے صغائر کا صدور ہوتا ہی رہتا ہے، شب قدر کی عبادتوں اور دوسرے اعمال صالحہ سے ان صغائر کی معافی بھی بہت بڑا انعام و اکرام ہے۔
نبی کریم ﷺ کے صدقے اللہ تعالی نے ہمیں ایک ایسا بابرکت مہینہ عطا کیا ہے جو سال کے تمام مہینوں میں گلاب کے مانند ہے، اگر ماہ رمضان کو تمام مہینوں کا سردار کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کیونکہ ا س ماہ کے ہر ہر پل او رہر ہرلمحے میں بھلائیاں ہی بھلائیاں ہیں، رحمتوں کی بارش طرح طرح کی پریشانیوں میں بندوں کو نہال کردیتی ہے، بخشش کے بحر بے کنار گناہوں میں لتھڑے ہوئے اجسام کو صاف ستھرا دھو کر نفس امارہ سے نفس مطمئنہ بنادیتے ہیں، رحمت خداوندی اس قدر جوش میں ہوتی ہے کہ سحری وافطاری کے اوقات میں ہزار ہا ہواوسواس کے بندے عبادالرحمان کی صف میں شامل کردئیے جاتے ہیں، ہر ہر عمل کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے نیکیوں اور اجر کے ایسے مہینے میں کون ہوگا جو اپنے رب کی عنایتوں اور لطف وکرم سے بہرورہ نہ ہو؟ کوئی نہیں۔
رمضان کی تین حصوں میں تقسیم
اس مہینے کو تین حصوں میں بانٹا گیا ہے۔’’اولہا رحمۃ ثانیہا مغفرۃ ثالثہا عتق من النار‘‘
کہ پہلا عشرہ رحمت کا ہے اور دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے اور تیسرا وآخری عشرہ اپنی عبادات وریاضت اور اعتکاف سے اللہ تبارک وتعالیٰ کو راضی کرکے جہنم سے خلاصی کا ہے۔ لہذا ہمارے درمیان یہ ماہ بشکل مہمان موجود ہے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے پتہ نہیں آئندہ سال ہمیں یہ ماہ نصیب ہوبھی کہ نہیں۔
روزہ کامقصد
روزے کا مقصد آدمی کو اطاعت کی تربیت دینا ہے۔روزہ انسان کی فرماں برادریوں اور اطاعتوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر ایک مرکزی اقتدار کی جانب پھیر دیتا ہے۔اگر کسی آدمی نے احمقانہ طریقے سے روزہ رکھا جن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے ان سے پرہیز کرتا رہا اور باقی تمام افعال کا ارتقاب کئے چلا جاتا ہے جنہیں اللہ نے حرام کیا ہے تواس کے روزے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک مردہ لاش کہ اس میں اعضا تو سب کے سب موجود ہوتے ہیں، صورت انسانی بنتی ہے مگر جان نہیں ہوتی ،بے روح روزے کو کوئی روزہ نہیں کہہ سکتا۔نبی اکرم ﷺنے فرمایا :’’جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے‘‘۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔کتنے ہی راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں جنہیں اس قیام سے رات جاگنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا‘‘۔قرآن عظیم الشان میں فرمایا گیا:’’تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ‘‘۔یعنی روزے فرض کرنے کا اصل مقصد انسان کے اندر تقویٰ پیدا کرنا ہے۔تقویٰ کے معنی خوف کے ہیں اس سے مراد خدا سے ڈرنا ہے اور اس کی نا فرمانی سے بچنا ہے۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے: حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ امیر المومنین آپ کو کسی ایسے راستے سے گزرنے کا اتفاق ہوا جس کے دونوں اطراف خاردار جھاڑیاں ہوں، راستہ تنگ ہو، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایابارہا۔انہوں نے پوچھا تو ایسے موقع پر آپ کیا کرتے ہیں۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں دامن سمیٹ لیتا ہوں ،بچتا ہوا چلتا ہوں،دامن کانٹوں میں نہ الجھ جائے،حضرت ابی بن کعب نے فرمایا بس اسی کا نام تقویٰ ہے۔
رمضان اور قرآن
ماہ رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے۔قرآن کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے جہاں فضائل آتے ہیںوہاں تنبیہہ بھی آتی ہے۔رمضان المبارک کو تربیت کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔پورے سال کا ریفرشر کورس کیا جاتا ہے۔باجماعت نماز کا معمول ،راتوں کے قیام کا معمول ،صدقہ خیرات کی عادت سب کچھ سیکھنے کے ساتھ ساتھ صبر ،برداشت اور اپنے آپ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔بابرکت مہینہ میں جہاں آسمانوں سے رحمتیں برستی ہیں۔انسانوں کے دل کیوں پتھر ہو جاتے ہیں۔انسان انسان کے ہاتھوں کیوں لٹتا ہے؟ کمر توڑمہنگائی کیوں جنم لیتی ہے؟ حالانکہ شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے۔پھر ایسا کیوں ہوتا ہے ؟اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم رمضان کے حقیقی فلسفے کو سمجھنے سے محروم ہیں ۔رمضان رحمت ،مغفرت اور آگ سے نجات کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کا مہینہ بھی ہے۔تبدیلی کا مہینہ بھی ہے۔حقوق العباد کا مہینہ بھی ہے زکوٰۃ کا مہینہ بھی ہے۔ خیرات، صدقات کا مہینہ بھی ہے۔ صحابہ فرماتے ہیں: رمضان کے مہینہ میں نبی اکرم ﷺ کمر کس لیتے تھے، رات کے قیام کو بڑھا دیتے ،تلاوت قرآن کو بڑھا دیتے، صدقات ،خیرات کو بڑھا دیتے ، سب کچھ اللہ کے نبی ﷺنے اپنی امت کے لئے کیا پھر میں اور آپ اس سے غافل کیوں ہیں۔کمی کہاں رہ گئی؟ یقینا کمی ہمارے اپنے اندر ہے، ہمارے گھروں میں ہے،ہماری اولادوں میں ہے،ہمارے چلنے پھرنے میں ہے، لین دین ،بول چال، کاروبار میں ہے۔کیسے رمضان المبارک کی فیوض برکات کو سمیٹا جا سکتا ہے؟اس کے لئے مجھے اور آپ کو کیا کرنا چاہیے؟اس کے لئے قرآن و سنت میں رہنمائی کر دی گئی ہے ۔باہمی رواداری، برداشت، ایثار کے ساتھ خود احتسابی کے عمل کو اپناتے ہوئے اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔جھوٹ سے توبہ، قرآن سے لگاؤ، قیام اللیل کا معمول، حقوق العباد کا خیال دل وجان سے کرنا ہے۔دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے آپ کو آئینہ کے سامنے رکھ کر سوچنا ہے۔
آج پھر نیکیوں کا موسم بہار پوری رعنائیوں کے ساتھ سایہ فگن ہو رہا ہے۔آئیے مل کر رمضان المبارک کا استقبال کریں اور احکام خداوندی اور فرمان رسول ﷺ پر عمل کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھنے اور پہلے ،دوسرے اور آخری عشرے کے ثمرات کو سمیٹنے کا عزم کریں اور طے کریں کوئی بدلے نہ بدلے میں بدلوں گا، اپنے گھر میں تبدیلی لانے ، اولاد کو بدلنے کے لئے مسجد کو مرکز بناؤں گا۔اللہ مجھے اور آپ سب کو رمضان المبارک کی حقیقی برکات کو سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین۔(یو این این)