جاگو‘ ڈائرکٹ ٹیکسس کوڈ کے خلاف جاگو

جاگو‘ ڈائرکٹ ٹیکسس کوڈ کے خلاف جاگو
مذکورہ مضمون جناب محمد عبدالرحیم قریشی،اسسٹنٹ سکریٹری جنرل آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈو صد رکل ہند مجلس تعمیرملت،حیدر آباد نے لکھا تھا جسے افادہ عام کے لئے دوباہ شائع کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)
موجودہ انکم ٹیکس ایکٹ منسوخ کیا جائے گااور اس کی جگہ ڈائرکٹ ٹیکسس کو ڈ نافذ کیا جائے گا۔ جس کا بل (مسودہ قانون)بہت پہلے ہی پیش کیا جاچکا ہے جووزارت فائنانس کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں زیر غور ہے جس کے صدر نشین سابقہ این۔ڈی۔اے حکومت کے وزیر مسٹر یشونت سنہا ہیں۔ ڈائر کٹ ٹیکسس کو ڈبل کی کئی دفعات عبادت گاہوں‘ مذہبی اداروں‘ رفاہی ‘فلاحی وخیراتی اداروں کے لئے نقصان رساں ہیں۔ اگر یہ بل جس اند از میں پیش ہوا ہے ویسا ہی منظور ہوجائے تو کیا خطرات لاحق ہوں گے ان کا مختصر تذکرہ یہاں کیا جارہا ہے۔
انکم ٹیکس کا قانون جب سے (۱۹۲۱ء) وجود میں آیا ہے مذہبی ٹرسٹ‘ مذہبی ادارے اور مذہبی عبادت گاہیں ٹیکس سے مستثنیٰ رہی ہیں تمام ہی مذہبی فرقوں کی عبادت گاہوں پر کو ئی انکم ٹیکس عائد نہیں ہوتا۔ اس نئے ٹیکس کوڈ میں یہ سہولت ختم کردی جارہی ہے اور اس کو پارلیمنٹ منظور کرلے اور اس کا نفاذ ہوجائے تو ہر عبادت گاہ کو ہر سال انکم ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ ڈائرکٹ ٹیکسس کوڈ میں کہا گیا ہے کہ پبلک ریلیجس(PUBLIC RELIGIOUS)) عوامی مذہبی ادارے ٹیکس سے مستثنیٰ رہیں گے کہ بشر طیکہ وہ ’عدم نفع تنظیم‘(NON – PROFIT ORGANISATION) ہوں۔ ’عدم نفع تنظیم‘ کی تعریف یہ ہے کہ ایسا ادارہ‘ ایسی انجمن اور ایسی تنظیم جو کسی مذہبی طبقہ یا فرقہ یا مخصوص ذات کی نہ ہو جس سے فائدہ اٹھانے والے کسی ایک ذات یا مذہبی فرقہ کے نہوں اور دوسرے فرقہ کے لوگ بھی اس میںشامل ہوں۔ اس تعریف کے بعد مذہبی اداروں اور عبادت گاہوں کو ٹیکس سے معافی نہیں ملی سکے گی۔ کیونکہ مندر ہے تو اس میں عبادت کرنے والے ہندو ہی ہوں گے‘ مسجد میں عبادت کرنے والے مسلمان ہی ہوں گے یہی بات سکھوں کے گردواروں‘ پارسیوں کی آگیاری (آتش کدہ) اور عیسائیوں کی چرچس کی ہے یہ عبادت گا ہیں ایک مخصوص مذہبی طبقہ یا فرقہ کے لئے ہی ہیں‘ مندر ہندوئوں کے لئے ‘مسجد مسلمانوں کے لئے گردراوہ سکھوں‘ چرچ عیسائیوں کے لئے اتشکدہ پارسیوں کے لئے بنائے گئے ہیں ۔ نئی تعریف کے بعد اسی لئے انھیں انکم ٹکیس سے چھوٹ نہیں ملے گی۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے لیکن دستور سے سیکولرزم کی جو تعمیر ملتی ہے وہ یہ نہیں ہے یہاں سویت روس کی طرح مذہب کی مخالفت کی جائے گی اور مذہب کو مٹانے کی کوشش ہوگی۔ ہندوستان ان معنی میں سیکولر ہے کہ ملک کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے اور حکومت تمام مذاہب کو تسلیم کرتی ہو اور سب سے اس کے سلوک میں یکسانیت ہو اور ہر مذہب سے اس کی قربت یا اس کا قاصلہ مساویانہ ہو۔ ان معنوں کے ساتھ یہ بھی ہے کہ مذہب کی اہمیت اور ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے اسی لئے مذہبی آزادی اور مذہبی اداروں کی خود مختاری کی آزادی کو شہریوںکے ‘ صرف اقلیتوں کے نہیں‘ تمام شہریوں کے بنیادی حقوق قرار دیا گیا ہے دستور کا آرٹیکل(25) ضمیر مذہب کی آزادی کا اعلان کرتا ہے یہ آزادی دارصل تین آزادیوں کی ڈوریوں سے بٹی ہوئی مضبوط رسی کے مشایہ ہے جس میں مذہبی عقیدہ کے رکھنے کی آزادی‘ مذہبی عقیدہ کے مطابق عمل کرنے کی آزادی اور مذہبی عقیدہ کے پرچار اور اشاعت کی آزادی شامل ہیں ۔ آزادی کا یہ تصور یو ۔ایس۔اے (امریکہ) کے تصور مذہبی آزادی سے زیادہ وسیع اور قوی ہے جہاں صرف عبادت کے حق (RIGHT TO WORSHIP) پر زور دیا جاتا ہے آرٹیکل (26) مذہبی فرقوں اورمسالک کو اپنے مذہبی امور کے سلسلہ میں اداروں کے قیام وانتظام کی آزادی عطا کرتا ہے اور خود مختاری کی ضمانت دیتا ہے۔ دستور کے یہ دوآرٹیکلس اس بات کا کھلا اور واضح ثبوت ہیں کہ دستور ساز مذہب کی ضرورت‘ اہمیت اور افادیت کے قائل تھے۔
اس با ت کوا یک اور زاویہ نظر سے دیکھاجاسکتا ہے ‘مذہب ہی ہے جو انسان کو انسان بناتا ہے ایک اخلاقی مخلوق بناتا ہے اس کی اس طرح تربیت کرتا ہے کہ وہ معاشرہ کے لئے مفید اور کارآمد عنصر بن جاتا ہے ۔ مذہب کی اخلاقی تعلیم انسان کو سنوارتی ہے ‘ مذاہب جو نیکی اور بدی ‘ ثواب و گناہ‘ پاپ وپن کے تصورات کو انسان کے دل ودماغ میں پیوست کرتے ہیں ان ہی کی وجہ سے انسان‘ انسان رہتا ہے‘ درندہ صفت حیوان نہیں بنتا۔ سچائی کی اچھائی‘ جھوٹ کی برائی‘ دہوکہ اور فریب کی مذمت‘ دوسروں کا حق چھینے کی برائی‘ رشوت خوری کاممانعت اور اس کا پاپ وگناہ ہونا‘ ایسے ہی اقدار کے ذریعہ انسان میں اپنے ہر عمل کے لئے ذمہ دار اور جوابدہ ہونے کا مزاج بنتا ہے اور فکر پیدا ہوتی ہے۔ قانون انسان کے لئے ضروری ہے لیکن قانون بے فیض‘ بے کار بلکہ نقصان دہ بن جاتا ہے جب تک کہ دل و دماغ میں تبدیلی نہ آئے او ریہ کام قانون نہیں کرسکتا۔ملک کے کئی علاقوں‘ کئی شہروں میں برسوں نشہ بندی رہی اور ان دنوں شراب کی ناجائز کشید‘ منتقلی اور فروخت سب سے زیادہ نفع بخش کاروبار بن گئے۔ نشہ بندی کا قانون ناکام ہوگیا اس لئے اس کو اٹھالینا پڑا ممبئی میں یہی ہوا‘ آندھراپردیش میں یہی ہوا‘کئی امور مقامات پر یہی انجام ہوا۔ آج کل بدعنوانی‘ رشوت اور کالے دھن کے خلاف بہت کچھ کہااور لکھا جارہا ہے ‘سخت قوانین بنانے کا مطالبہ ہورہا ہے۔‘ لوک پال کے ادارے کے قیام کی بات ہورہی ہے۔ جو بھی ادارہ قائم اور سخت سے سخت قانون کے تحت جو بھی مشنری بنے گی اس کے عہدیداروں اور کام کرنے والوں کی چاندی ہوگی‘ رشوت کی شرح (ریٹ) بڑھ جائے گی ۔کالے دھن میں تیزی سے اضافہ ہوگا جب پیسہ ہی معاشرہ میں مرتبہ ومقام کا تعین کرتا ہے ‘ بڑے سے بڑا کام کرواتاہے ۔ الیکشن جیتواتا ہے توکیوں نہ پیسہ بٹورا جائے پیسہ بٹورنے کی فکر دور ہوگی اور آمدنی پیدا کرنے کے صحیح اور جائز طریقہ اختیار کئے جائیں گے جبکہ آدمی یہ سمجھ لے کہ اگر دنیا کے قوانین کی گرفت میں بچ جاوں‘ تب بھی رشوت‘ جھوٹ فریب اور دغا کے لئے مرنے کے بعد کی پکڑ سے میں بچ نہیں سکوں گایہاں شدید ضرورت مذہب کی ہے جوبتانے کہ یہ سب کام گناہ اور پاپ ہیں ان کا انجام بہت برا ہوگا گناہگار اور پاپی برے انجام کو پہنچتا ہے۔ اس لئے معاشرہ کی تطہیر اور اس کو پاک اور صاف کرنے میں مذہبی ادارے اور عبادت گاہیں بڑا اہم رول انجام دے سکتے ہیں اور دیتے ہیں ۔اس زاویۂ نظر سے مذہبی عبادت گاہیں ملک کے بڑے اہم اور مفید ادارے ہیں جن کی ہمت افزائی ہونی چاہیے۔
مشکل یہ ہے کہ ہندوستان میں مذہب کو اس تعمیری مقصد کے لئے استعمال کرنے کی بجائے‘ باہمی نفرتوں کو پیدا کرنے‘ ایک دوسرے کو لڑانے‘ ہم وطن بھائیوں کا خون بہانے‘ فسادات برپا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے بعض ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہواکہ مذہب‘ تعمیری نہیں بلکہ تخریبی ذہن پیدا کرتا اور معاشرہ میں انتشار اور فلنشار کا باعث بنتا ہے اس لئے مذہب کے دائرہ ار کو محدود سے محدود تر کیا جائے اور اس کی ہمت شکنی کی جائے۔ ڈائرکٹ ٹیکسس کوڈ کا مسودہ بنانے والے اس خام اور کچے ذہن کے حامل معلوم ہوتے ہیں۔ اور ان میں مذہب کی مخالفت اور مذہب سے دشمنی کا جذبہ نظر آتا ہے۔
اس لئے ضروری ہے کہ ہندوستان کے مذہب سے تعلق رکھنے والے اور مذہب پر ایمان رکھنے والے عوام ‘ملک کے ہندو‘ مسلمان‘ سکھ‘ پارسی اور عیسائی سب کے سب اس کوڈ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اعلان کریں کہ یہ ہم پر ظلم ہے ہم اس کو برداشت نہیں کریں گے۔ ڈائرکٹ ٹیکسس کو ڈبل میں ترمیم کی جائے اور عبادت گاہوں پر انکم ٹیکس یا ویلتھ ٹیکس نہ لگایا جائے اور اب تک انکم ٹکیس قوانین میں عبادت گاہوں اور مذہبی اداروں کی جو پوزیشن تھی اس کو بحال کیا جائے۔
ڈائر کٹ ٹیکسس کوڈ رفاہ عام کے اداروں‘ تعلیمی وخیراتی کاموں کی انجمنوں اور ٹرسٹوں کے لئے بھی خطرہ کی گھنٹی ہے۔ 1921ء کے انکم ٹیکس قانون کے تحت تمام ایسے اداروں کو ‘حتیٰ کہ کسی ایک فرقہ کے لئے قائم ادارے کو بھی چند ضوابط کی تکمیل کے بعد انکم ٹیکس سے چھوٹ حاصل تھی۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی مذہب طبقوں اور فرقہ کے لوگوں نے اپنے طبقہ وفرقہ کے لوگوں کو مدد دینے اور فائدہ پہنچانے کے لئے ادارے اور ٹرسٹس قائم کئے 1961ء میں انکم ٹیکس کا نیا قانون بنایا گیا جو یکم/ اپریل1962ء سے اب تک نافذالعمل ہے اس قانون کے تحت کسی مذہبی طبقہ یا فرقہ کے لئے یکم / اپریل1962ء سے پہلے جوچیرٹیبل ادارے یا ٹرسٹس قائم کئے گئے ان کے لئے انکم ٹیکس سے چھوٹ کی سہولت برقرار رکھی گئی لیکن اس تاریخ کے بعد قائم ہونے چیرٹیبل اداروں اور ٹرسٹس کے با رے
میں یہ قانون بنایا گیا کہ انکم ٹیکس سے چھوٹ کی سہولت ان کو ہوگی جو کسی فرقہ سے متعلق نہ ہوں
NON – DENOMINATIONAL) ( ہوں۔ اس طرح کسی مذہبی فرقہ کے لئے قائم ٹرسٹس اور اداروں کو انکم ٹیکس کی سہولت سے محروم کردیاگیا۔ لیکن عملاََ یہ ہوتا رہا کہ ادارے اور ٹرسٹس ایسے بنائے جاتے رہے جن کے اغراض ومقاصد اور ضوابط سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی مذہبی فرقہ سے متعلق لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے نہیں بتائے گئے ہیں۔اس کی وجہ سے انھیں انکم ٹیکس میں رجسٹریشن اور انکم ٹیکس کی ادائیگیسے چھوٹ مل جاتی اور یہ فائدہ اپنے ہی فرقہ کے لوگوں کو پہنچاتے اور خدمت اپنے ہی فرقہ کے لوگوں کی کرتے گجرابتوں کے اداروں اور ٹرسٹ سے گجراتیوں‘ مارواڑیوںسے مارواڑیوں کو اس طرح بعض مسلم فرقوں کے اداروں اور ٹرسٹس سے اس فرقہ کی خدمت ہوتی اور انکم ٹیکس سے چھوٹ کی سہولت بھی جاری رہتی۔
اب ڈائرکٹ ٹیکسس کوڈ کے بعد یہ نہیں ہوسکے گا۔ یکم / اپریل 1962ء سے پہلے قائم کے گئے اداروں اور ٹرسٹوں کو جو چھوٹ اب تک حاصل ہے ختم ہوجائے گی۔ ا س لئے یہ ضروری ہے کہ اب تک جس نوعیت کے اداروں کو چھوٹ حاصل رہی ہے اس سہولت کو ان اداروں کے لئے جاری رکھا جائے۔
دوسرے یہ کہ کسی چیرٹیبل ادارے یا ٹرسٹ سے فائدہ اٹھانے والے کو ن ہیں ان کی جانچ کا اختیار زیادتی ہے البتہ یہ شرط لگائی جاسکتی ہے کہ ادارے یا ٹرسٹ کو قائم کرنے والے اپنے ہی لوگوں کو فائدہ پہنچاتے ہوئے کچھ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں۔ استفادہ حاصل کرنے والوں کی بھاری اکثریت ان کی ہو جن کا تعلق ادارہ یا ٹرسٹ بنانے والوں کے طبقہ یا فرقہ سے ہو برداشت کرلیا جائے۔
حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ سارے رفاہی کام وہی کرے گی اورکرسکتی ہے تو ہم یہی کہیں گے کہ حکومت احمقوں کی جنت میں رہتی ہے۔ حکومت ایسے تمام کام نہیں کرسکتی ۔نہ ہر کیلومیٹر پر معیاری اسکول قائم کرسکتی‘ نہ تمام یتیموں کی پرورش اوردیکھ بھال کا انتظام کرسکتی‘ نہ تمام معذروں کی کفالت کاانتظام کرسکتی اور نہ تمام غریبوں کے لئے کم از کم دو وقت پیٹ بھر کھانے کا انتظام کرسکتی ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ ایسی ترغیبات(INCENTIVES)دے جن کی وجہ لوگ اس طرح رفاہی وخیراتی چیرٹیبل ادارے قائم کرسکیں۔ اس طریقہ پر زیادہ سے زیادہ رفاہی وخیراتی کاموں کو فروغ مل سکتا ہے ۔مگر ڈائر کٹ ٹیکیسس کوڈ کا مقصد ایسے کاموں کی ہمت شکنی کرنا معلوم ہوتا ہے۔
اس وقت چیرٹیبل اداروں اور ٹرسٹس کو اجازت ہے کہ اپنی آمدنی کا 15 فیصد بچاکر رکھ سکیں اور جمع کریں اب کوڈ کے تحت اگر تین سال کے اندر یہ بچت صرف نہیں کی گئی تو اس پر ٹیکس لگے گا اب یہ سہولت ہے کہ کوئی ٹرسٹ اپنے کارپس کی رقم کوئی ٹیکس ادا کئے بغیر 5 سال تک محفوظ کرسکتا ہے نئے قانون سے یہ سہولت ختم کی جارہی ہے۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ کسی فرقہ کی جانب سے یا اس کے افراد کے استفادہ کے لئے جو ادارے اور ٹرسٹس ہیں ان پر ٹیکس 30فیصد کی شرح سے لگے گا۔ اس قانون اور اتنی بڑھی شرح کے نتیجہ میں جو لوگ فلاحی اداروں‘ ان ہی کاموں میں اپنے عطیات دیتے ہیں وہ بھی رک جائیں گے۔
ڈائر کٹ ٹیکیس کوڈ بل بنانے والے ملک اور قوم کے خیر خواہ نہیں ہیں‘ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تعلق لٹیروں سے ہے جنھوںنے پیسہ لوٹنے اور پیسہ بٹورنے کے مقصد کے تحت یہ کوڈبل تیار کیا ہے ۔ضرور ت ہے ‘ ہندوستانی شہری جاگیں‘ ہندو مسلم سکھ عیسائی اور پارسی سب جاگیں اور حکومت ہند کو مجبور کریں کہ وہ عبادت گاہوں اور مذہبی ادراوں کو اور چیرٹیبل ٹرسٹس اور اداروں کو ٹیکس سے مستشنیٰ کرنے کے لئے کوڈبل میں ترمیم کرے۔ یہ عبادت گاہیں شہریوں کو اچھا شہری بناتیں اور رفاہی وخیراتی کام کرنے والے ادارے حکومت کے بوجھ کو کم کرتے ہیں اور ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔
٭٭٭