چھننی بھی بولے جس میں باون چھید

سید خرم رضا

ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی بوڑھے ہو گئے ہیں اور بوڑھے کھلاڑیوں سے میچ نہیں جیتے جاتے، ٹیم کے کھیلنے کا جو انداز ہے اس سے 2010کے مقابلوں میں کامیابی ضرور مل گئی تھی لیکن اب یہ چلنے والا نہیںتھا ، کپتان کو دیکھئے جو ٹیم کے گول کیپر بھی ہیں ان کا کیا حال رہا تینوں میچوں میں ان کے رفلیکسزاتنے سست تھے کہ کسی بھی ٹیم کے اسٹرائکر کو گول مارنے میں کسی قسم کی دشواری نہیں ہوئی ،ٹیم کی اسٹریٹیجی انتہائی خراب تھی، کوچ نے صحیح ٹیم فیلڈ نہیں کی ، پہلے ہی میچ میں ہالینڈ نے مضبوط تسلیم کی جانے والی اس ٹیم پر پانچ گول مارے اور اس کے بعد چلی کے ہاتھوں شکست، وہ تو غنیمت جانئے کہ آسٹریلیا سے کسی طرح ٹیم جیت گئی۔ ظاہر ہے اس خراب کارکردگی کے بعد پوسٹ مارٹم بھی ہونا تھا اور یہ ہی سب کچھ سننے کو ملنا تھا۔ ناقدین کے ساتھ ساتھ خود جن کے ہاتھوں میں ٹیم کی باگ ڈور تھی انہوں نے بھی پوسٹ مارٹم کرنا شروع کر دیا ہے۔ حقیقت تو یہ کہ کچھ ایسے لوگوں نے بھی اس ٹیم کو ہدف تنقید بنایا جن کے تعلق سے بس یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ چھاج بولے تو بولے چھننی بھی بولے جس میں باون چھید۔کئی مرتبہ لوگ بہت ہلکے میں ا س بات کو کہہ دیتے ہیں کہ جیت میں سارے عیب چھپ جاتے ہیں اور ہار میں ساری اچھائیاں لیکن یہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے ۔ سچائی تو یہ ہے کہ اسپین نے عالمی فٹبال کو بہت کچھ دیا ہے اور ان کے کھیلنے کے انتہائی خوبصورت اندازنے فٹبال کی مقبولیت میں اضافہ ہی کیا ہے لیکن آج شاید ہی کسی کی نظر ان کی اچھائیوں پر جا رہی ہو۔آج وہ عالمی کپ سے باہر ہو گئے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ اب عالمی فٹبال میں ان کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی ۔ آج بھی دنیا کے دو بڑے کھلاڑی جنہوں نے نہ صرف اس عالمی کپ میں زیادہ گول کئے ہیں بلکہ سب سے زیادہ مقبول ہیں ان کا نام نیمار اور میسی ہے اور ان دونوں کھلاڑیوں کا تعلق اسپین کے بارسیلونا کلب سے ہے۔ ٹھیک ہے کبھی کچھ اسٹریٹیجک غلطیاں ہوتی ہیں، کبھی حریف بہت مضبوط ہوتا ہے کبھی حالات انتہائی مخالف ہوتے ہیں اس لئے نتیجے توقعات کے برخلاف آتے ہیںمگر مایوسی کی اس حالت میں اگر آپ اپنی بنیادی طاقت پر ہی سوال اٹھانے لگتے ہیں تواس سے خود احتسابی کم اور شکست خوردہ ذہن کی عکاسی زیادہ ہوتی ہے۔
جن حالات سے آج اسپین کی فٹبال ٹیم گزر رہی ہے ٹھیک اسی طرح کے حالات سے کانگریس پارٹی بھی دو چار ہے۔عام انتخابات میں کانگریس کی جو حزیمت آمیز شکست ہوئی ہے اس کے بعد ذارئع ابلاغ اور خود کانگریس کے سینئر لیڈر اس شکست کا پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں۔ پوسٹ مارٹم ہونایا کرنا بہت اچھی بات ہے کیونکہ اس سے شکست کی وجہ پر پہنچنے میں مدد مل سکتی ہے لیکن جس طرح کانگریس کے سینئر لیڈر اور پارٹی صدر کے معتمد اے کے انٹونی، ششی تھرور اور دگ وجے سنگھ نے کچھ مدعے اٹھائے ہیں کیا ان مدعوں کو اٹھانے کی ضرورت ہے اور کیاان کے اٹھانے سے پارٹی کو مستقبل میں کوئی فائدہ ہوگا۔ ظاہر ہے ان رہنمائوں کو لگتا ہوگا جب ہی انہوںنے یہ مدعے اٹھائے ہیں لیکن کیا انٹونی کویہ کہنے کا حق ہے کہ کانگریس پارٹی کو شکست اس لئے ہوئی کیونکہ یہ پارٹی اقلیتوں کی زیادہ بات کرتی نظر آئی جس کی وجہ سے اکثریتی طبقہ پارٹی سے دور ہو گیا ۔ کیا اس بات کا انکشاف انٹونی پر ہار کے بعد ہوا ہے جب تک اسی پالیسی کے وجہ سے کانگریس اور خود انٹونی اقتدار کے پھل کھاتے رہے جب ان کو یہ سب کچھ دکھائی نہیں دیا اور اس کے پھلوں میں مزہ آتا رہا۔ حکومت میںایک اہم وزیرہونے اور پارٹی کے سینئر لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ کانگریس صدر کے معتمد ہونے کے با وجود انہوں نے اقتدار میں رہتے یہ کیوں نہیں کہا اور پارٹی کی اس پایسی کی مخالفت کیوں نہیں کی ۔ دراصل وہ اس طرح کے بیانات سے اس حقیقت پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اپنے کمیٹڈ ووٹر کے لئے سنجیدگی سے کچھ کیا ہی نہیں اور اس کے بر خلاف ان کے وزیر دفاع رہتے ہوئے پہلی مرتبہ ہماری فوج کے اعلی فوجی سربراہوں کے مابین اختلافات کھل کر نظر آئے۔اور انٹونی ہی کیوں آج دگ وجے سنگھ بھی یہ کہتے ہیں کہ راہل گاندھی ملک کی قیادت نہیں کر سکتے۔ دگ وجے نے یہ بات پارٹی فورم میںکبھی کیوں نہیں اٹھائی اور وہ اس اسٹریٹیجی کا حصہ کیوں بنے رہے جس میں قائدکی قائدانہ صلاحیت ہی ان کی نظر میں مشکوک ہو۔ اچھا ہوتا کہ وہ مدھیہ پردیش سے پارٹی کو کچھ سیٹیں دلوا دیتے جہاں کے وہ وزیر اعلی رہے ہیں اور پھر اس طرح کے تبصرے کرتے ۔اس طرح کے تبصروں سے پہلے دگ وجے سنگھ کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ عین انتخابی مہم کے بیچ ان کی ذاتی زندگی کی خبروں نے پارٹی کو کتنا نقصان پہنچایا۔ ششی تھرور نے تو مودی کی تعریف کے لئے بالکل نیا فارمولہ تیار کر لیا اور وزیر اعظم مودی کو مودی ورژن 2 کہہ کر اس ورژ ن کی تعریف کر ڈالی ۔ بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی وہ بھی رنگ بدلنے لگے ہیں ۔ وہ شاید بھول گئے ہیں کہ پارٹی کو ان کی وجہ سے بھی کافی بدنامی جھیلنی پڑی ہے۔ ان کو وزارت سے بھی ہٹایا گیا تھا اور اس کے بعد ان کی بیوی کی موت پر آج تک سوال اٹھائے جا رہے ہیں اس لئے مودی ورژن 2کی تعریف کر نے سے پہلے ا ن کو ا پنا بھی محاسبہ کر لینا چاہئے۔
آج کانگریس کا اسپین کی ٹیم کی طرح جو پوسٹ مارٹم ہو رہا ہے اس میں تنقید برائے اصلاح کم ہے اور تنقید برائے تنقید زیادہ ہے۔ 1947سے کانگریس کی پہچان دلت، غریب، پچھڑوں اور اقلیتوں کی نمائندہ پارٹی کی رہی ہے اور جب تک یہ پارٹی ان طبقوں سے جڑی رہی اور ان کی لڑائی لڑتی رہی یا رہے گی جب تک ملک کی بڑی آبادی اس پارٹی کو حکومت کے منصب پر بٹھانے میں اپنا کردار ادا کرتی رہے گی لیکن جب بھی وہ اپنی اس بنیادی سوچ کو خیر باد کرے گی ، وہ اقتدار سے محروم ہو جائے گی۔سیاسی حریف کی تعریف، قائد اور بنیادی سوچ کی تنقید دراصل شکست خوردہ ذہن کاعکاس تو ہو سکتا ہے لیکن مستقبل میں کامیابی کے لئے مثبت خود احتسابی نہیں۔سچائی یہ ہے کہ کانگریس نے اس ملک کو بہت کچھ دیا ہے جیسے اسپین نے فٹبال کو بہت کچھ دیا ہے اس لئے ایک شکست سے سارے اچھے کاموں پر پانی نہیں پھیرا جا سکتا۔حقیقت تو یہ ہے کہ ان چھننیوں کو تو بولنے کا بالکل حق نہیں ہے جن میں باون چھید ہوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *