فیفاعالمی کپ نے کپڑے کی تباہ حال صنعت کوبہتر بنا دیا

بنگلہ دیش کو فیفاعالمی کپ سے فائدہ پہنچ رہا ہے اور وہ ایک کئی بلین ڈالر کی تقریب میں سے اپنا حصہ وصول کر رہا ہے۔

ڈھاکہ سے شہریار شریف کی رپورٹ

Fifa WC

بنگلہ دیش نے برازیل میں ہونے والے 2014 کےعالمی کپ میں شرکت کرنے کا کبھی خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ مگر وہ کھیلوں کی اس تقریب سے فائدہ حاصل کرنے والوں میں سے ایک بن گیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس نے عالمی کپ کی دو نمبر کی جرسیوں اور دوسری یادگاری اشیا کو فروخت کرنے سے تقریبا ایک بلین ڈالر کمائے ہیں۔عالمی کپ کا جوش و جذبہ ایک ایسی صنعت کی کامیابی کا باعث بنا ہے جسے گزشتہ دو سال میں بہت سی تباہیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور جس سے ملک کے سب سے زیادہ برآمدی کمائی کرنے والی صنعت اور ملک کی پوری معیشت کے لیے ہی خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔
بنگلہ دیش نٹ ویئر مینوفیکچررز اینڈ ایکسپوٹرز ایسوسی ایشن (بی کےایم ای اے) کے سابقہ صدر فضل الحق کےمطابق “پہلے اسے تزرین فیشنز میں 2012 میں لگنے والی آگ سے نقصان پہنچا اور پھر اس کے ایک سال کے بعد رانا پلازہ کے گرنےسے۔ ان دونوں حادثات نے ہماری صنعت کو تقریبا تباہ کر کے رکھ دیا اور بدشگونی کے ایک ماحول نے ہمیں گھیر لیا”۔”مگر عالمی کپ ہمارے لیے ایک کامیابی ثابت ہوا اور ہمیں عالمی خریداروں سے بڑی تعداد میں آرڈر ملے سے ہماری پوری صنعت کی ہی قسمت بدل گئی”۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی کپ سے متعلقہ تجارت نے ریڈی میڈ گارمنٹس کی پوری صنعت کو ہی ترقی دی ہے جو کہ بائیس بلین ڈالر سے زیادہ جو کہ بنگلہ دیش کی مکمل برآمدی کمائی کا اسی فیصد حصہ ہے، کماتی ہے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی میں اقتصادیات کے پروفیسر اے کے منور الدین احمد نے کہا کہ “اس سے ہماری پوری معیشت کو مجوعی طور پر ترقی ملی ہے اور اس کی اہم وجہ عالمی کپ سے متعلقہ آمدنی ہے”۔صنعت کے راہنماؤں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ وہ اصلی جرسیاں جنہیں بڑے ستاروں جیسے کہ لیونل میسی، کرسٹیانو رونالڈو یا نیمار نے میچوں کے دوران پہنا ہے وہ بہت مہنگی ہوتی ہیں مگر بنگلہ دیش میں بنی ان کی نقلیں بہت سستی اور اعلی معیار کی ہوتی ہیں۔
بی کے ایم ای اے کے قائم مقام صدر محمد حاتم نے بتایا کہ “ہو سکتا ہے کہ شائقین کو یہ پتہ نہ ہو کہ انہوں نے جو جرسیاں پہن رکھی ہیں وہ کس ملک نے بنائی ہیں مگر فروخت کنندہ کوڈ نمبر کو دیکھ کر ان کے بننے کی جگہ کا آسانی سے پتہ لگا سکتے ہیں اور اس طرح انہیں پتہ چلے گا کہ وہ بنگلہ دیش میں بنی ہیں”۔انہوں نے کہا کہ اس سال ان کی برآمدات میں سولہ فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی بڑی وجہ عالمی کپ کے ملبوسات کی مانگ میں اضافہ ہے۔انہوں نے کہا کہ “ہمیں ابھی تک آخری رپورٹ نہیں ملی ہے مگر عالمی کپ کے لیے مختلف کمپنیوں کو ملنے والے آرڈروں کی تعداد کا جائزہ لینے کے بعد ہم نے جو محتاط اندازے لگائے ہیں ان کے مطابق یہ تجارت ایک بلین ڈالر سے بڑھ جائے گی”۔انہوں نے مزید کہا کہ وقت کی کمی اور فیکٹریوں کے کام کرنے کی صلاحیت کے باعث اس تجارت میں مزید اضافہ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔فیکٹریوں کے کارکن عالمی کپ کے جوش و خروش کا حصہ بن کر بہت پرجوش ہیں۔
ناراینگجانی میں فیکٹری کے ایک کارکن شیخ محمد جناح کے مطابق “ہماری خواہش ہے کہ ہم زیادہ کام کر سکتے۔ مگر ہمیں اس بات پر خوشی ہے کہ تزرین اور رانا پلازہ کے واقعات کے باعث ہماری فیکٹریوں کو پہنچنے والے برے اثراث سے نقصان اٹھانے کے بعد، عالمی کپ ہمارے کارخانوں میں کافی زیادہ کاروبار لے کر آیا ہے”۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *