
رمضان کیسے گزاریں ؟(10)
مولانا ندیم الواجدی
جن چیزوں سے روزہ فاسد نہیں ہوتا:
(۸) روزے کی حالت میں اپنی شریک حیات سے بوس وکنار کیا جاسکتا ہے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ حالت صوم یہ عمل ثابت ہے (مسلم: ۲/۷۷۶ رقم الحدیث: ۱۱۰۶) مگر یہ اس کے لیے ہے جسے انزال یا ہم بستری کا خوف نہ ہو، اس حکم کا مبنیٰ حضرت ابوہریرہ ؓکی روایت ہے کہ ایک صحابی ؓنے روزے کی حالت میں بیوی سے دل لگی کرنے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے انہیں اجازت دے دی، دوسرے صحابیؓ نے بھی یہی سوال کیا تو آپ نے انہیں منع فرمادیا، جن صحابی ؓکو آپ نے اجازت دی تھی وہ عمر رسیدہ تھے اور جن کو منع کیا تھا وہ جوان العمر تھے، (ابوداؤد: ۱/۷۲۶ رقم الحدیث: ۲۳۸۷) اس سے فقہاء نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر بات بڑھنے کا خوف نہ ہو تو بوس وکنار کیا جاسکتا ہے، عموماً جوان آدمی ایسے موقع پر قابو کھو دیتے ہیں، اس لیے ایسے شخص کے لیے شریک حیات سے دل لگی کرنا مکروہ ہے اور قابو یافتہ شخص کے لیے بلا کراہت جائز ہے (فتاوی عالمگیری: ۱/۲۰۴)
(۹) کان میں خود بہ خود پانی چلا گیا تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹا، لیکن اگر کسی نے جان بوجھ کر کان کے اندر پانی ڈالا تو ایک قول کے مطابق روزہ فاسد ہوجائے گا (فتاوی عالمگیری: ۱/۲۰۴)
(۱۰)کلی کرنے کے بعد منہ کی تری نگلنا، منہ کا تھوک نگلنا، ناک کو اس زور سے سڑک لینا کہ اس کی ریزش حلق کے اندر چلی جائے ان چیزوں سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا (فتاوی عالمگیری: ۱/۲۰۳)
(۱۱) نکسیر پھوٹنے سے یا چوٹ لگنے کے سبب جسم سے خون نکلنے کی وجہ سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، اسی طرح دانت سے خون نکلنے کی بنا پر بھی روزہ نہیں ٹوٹتا بہ شرط یہ کہ خون پیٹ کے اندر نہ جائے۔(فتاوی دار العلوم: ۶/۴۰۶، فتاوی شامی: ۳/۳۲۷)
(۱۲) خود بہ خود قے، ڈکار یا کھانسی کے ساتھ پانی بلغم وغیرہ آجائے، خواہ کتنی ہی مرتبہ آئے اور کتنی ہی مقدار میں آئے، اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ،لیکن اگر اپنے اختیار سے قے کی اور منہ بھر کر قے ہوگئی تو روزہ جاتا رہا، اور اگر اس سے تھوڑی ہو تو خود قے کرنے سے بھی روزہ نہیں گیا ، اسی طرح اگر تھوڑی سی قے آئی اور پھر خود بہ خود حلق میں لوٹ گئی تب بھی روزہ نہیں ٹوٹا لیکن اگرقصدا لوٹا لی تو روزہ ٹوٹ جائے گا (فتاوی عالمگیری : ۱/۲۰۲)
(۱۳) اگر منہ بھر کر قے آئی اور ایک چنے کے برابر یا اس سے زائد جان بوجھ کر واپس لوٹالی تو روزہ ٹوٹ گیا اوراگر جان بوجھ کر قے کی تو اس صورت میں روزہ فاسد ہوجائے گا، اگرچہ واپس نہ لوٹائے، البتہ منہ بھر کر قے نہ ہو تو روزہ نہیں ٹوٹتا (احسن الفتاوی: ۴/۴۳۳)
(۱۴) ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے کلی کرنا، ناک میں پانی دینا، غسل کرنا کپڑا بھگوکر سر یا بدن پر لپیٹنا یا ڈالنا، جسم کے کسی حصے پر برف رکھنا، ان سب چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا، ایک صحابی بیان فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو عرج کے مقام پردیکھا کہ آپ روزے کی حالت میں پیاس کی وجہ سے اپنے سر پر پانی ڈال رہے ہیں (ابوداؤد: ۱/۷۲۱، رقم الحدیث:۲۳۶۵) اسی لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر جسم کے اوپر پانی ڈالا جائے اور اس کااثر جسم کے اندر پہنچے تو اس سے روزے پرکوئی اثر نہیں پڑتا ۔ (فتاوی عالمگیری:۱/۲۰۲)
(۱۵) روزے کی حالت میں انجکشن لگوانے یا گلوکوز چڑھانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، کیوں کہ ان کے ذریعے کوئی بھی چیزبہ راہٖ راست معدے تک نہیں پہنچتی عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ انجکشن یا گلوکوز کے ذریعے دوا یا غذا معدے تک پہنجائی جاتی ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ اسی لیے انجکشن اور گلو کوز کے ذریعے دی جانے والی دوا یا پانی کو کھانا پینا نہیں کہتے، روزہ اصل شئ کے پہنچنے سے ٹوٹتا ہے اس کا اثر پہنچنے سے نہیں ٹوٹتا ضرورت ہو تو روزہ دار مریض کو خون بھی چڑھا یاجاسکتا ہے۔ (احسن الفتاوی: ۴/۴۲۲)
(۱۶) روزے کی حالت میں ایسے علاج پر کوئی پابندی نہیں ہے جس سے دوا منہ کے ذریعہ نہ لینی پڑے، مثال کے طور پر اگر ضرورت ہو تو روزے کی حالت میں دانت نکلوایا جاسکتا ہے، بہ شرط یہ کہ دانت سے نکلنے والا خون پیٹ میں نہ جائے (احسن الفتاوی: ۴/۴۲۶)
اسی طرح روزے کی حالت میں خون بھی ٹیسٹ کرایا جاسکتا ہے، کیوں کہ روایات میں ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کی حالت میں پچھنے لگوائے (بخاری: ۲/۶۸۵، رقم الحدیث: ۱۸۳۶، ابوداؤد: ۱/۷۲۳، رقم الحدیث: ۲۳۷۲) یعنی نشتر لگوا کر جسم کے کسی حصے سے فاسد خون باہر نکلوایا لیکن یہ دیکھ لینا چاہئے کہ خون نکلوانے سے جسم میں کم زوری تو پیدا نہیں ہوگی، کیوں کہ کم زوری سے روزہ توڑنا پڑ سکتا ہے، (فتاوی عالمگیری: ۱/۱۹۹) بعض بیماریوں کا علاج دواسونگھا کر یا چکھا کر کیا جاتا ہے اگر چکھنے والی دوا کا کوئی جز حلق کے اندر نہ جائے تو اس طریق علاج سے بھی روزہ متأثر نہیں ہوتا، البتہ اس طرح کا علاج شدید ضرورت کے وقت ہی کرانا چاہئے، کیوں کہ بہ ہر حال یہ اندیشہ موجود ہے کہ اگر دوا حلق کے اندر چلی گئی تو روزہ فاسد ہوجائے گا، جہاں تک سونگھنے کا تعلق ہے تو اسے عطر پر قیاس کیا جاسکتا ہے روزے کی حالت میں عطر سونگھنا بلا کراہت جائز ہے، یہ محض ہوا ہے جو اندر جاتی ہے جب تک ٹھوس چیز شامل نہ ہو محض ہوا کے اندر جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا (فتاوی شامی: ۳/۳۹۵) آکیسجن کو بھی اسی طرح کی ہوا پر قیاس کیا گیا ہے اس لیے اگر کسی مریض کی منہ کے یا ناک کے ذریعے آکیسجن دی گئی تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا (فتاوی عالمگیری: ۱/۲۰۳) البتہ آج کل دمہ کے مریضوںکو پاؤڈر کی شکل میں ایک دوا دی جاتی ہے اور پچکاری کے ذریعے اسے ناک میں داخل کیا جاتا ہے، اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا، کیوں کہ اگر دھواں جان بوجھ کر ناک کے ذریعے کھینچا جائے تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے (فتاوی شامی: ۳/۳۶۶) روزے کی حالت میں دل کا، پیٹ کا یا جسم کے کسی بھی دوسرے حصے کا آپریشن کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیوں کہ روزہ ایسی چیز سے ٹوٹتا ہے جو روزہ دار کے دماغ یا معدے تک پہنچ جائے، آپریشن وغیرہ میں یہ صورت نہیں ہے، (فتاوی قاضی خاں:۲/۳۶۶) امراض کی شناخت کے لیے آدمی کے مقعد میں پائپ نما دوربین ڈالی جاتی ہے، اسے انڈوس کوپی کہتے ہیں اس طرح کے علاج سے بھی روزے کو کوئی نقصان نہیں ہے، کیوں کہ اس پائپ کے ذریعے کوئی دوا اندر داخل نہیں کی گئی بلکہ صرف معائنہ کیا گیا ہے( البحر الرائق: ۲/۴۸۷) زخموں پر مرہم لگانے یا سیال شئ مَلنیسے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا، البتہ اگر بواسیری مسوں پر مرہم لگایا اور یہ یقین ہے کہ مرہم کا کوئی حصہ جسم میں پہنچ گیا ہے تو روزہ ٹوٹ جائے گا،اور اگر یقین نہیں محض شک ہے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا (بدائع الصنائع: ۲/۹۳) آنکھ میں دوا ڈالنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا اگرچہ اس کا اثر حلق میں محسوس ہو (البحر الرائق: ۲/۴۷۷)