مسلمانوں کے مختلف مسالک و مشارب میں روزہ

دانش ریاض

ramazaan

گذشتہ برس ایرانی قونصلیٹ ممبئی کی طرف سے منعقدہ افطار پارٹی میں ہر برس کی طرح میں بھی شریک تھا لیکن امسال میں ایسے ٹیبل پرجا بیٹھا تھا جہاں تمام ایرانی شیعہ حضرات تشریف فرما تھے ،جب سنیوں کی گھڑی کے مطابق افطار کا وقت ہوا توسوائے ایک کھجور سے روزہ کھول کرمیں دس منٹ تک اس انتظار میں بیٹھا رہا کہ جب ساتھ میں بیٹھے دیگر لوگوں کا وقت ہو جائے تو میں بھی ان کے ساتھ انواع و اقسام کی نعمتیںتناول کروں اور پھر جب انہوں نے اپنا روزہ کھولا تو پھر ہم نے بھی کمر کس لی۔لیکن اس سے دلچسپ واقعہ تو اس سے پہلے برس کا تھا جب ایک شیعہ محترم ہم سنیوں کی ٹیبل پر بیٹھ گئے تھے اور جب ان کے روزہ افطار کا وقت ہوا تو بیچارے کو سوائے دو چار کھجور اور کچھ پھل کے کچھ بھی میسر نہ آیا۔دراصل مسلمانوں کے مابین جتنے فرقے ہیں ان کے یہاں روزہ اور افطار کی داستان نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ ہر ایک کیکلچر اور ان کی تہذیب کو بھی بیان کرتا ہے۔سنی حضرات میں اہلحدیثوں کے یہاںنبی کریم ﷺ کی حدیث کی روشنی میں جہاں سحری دیر تک کی جاتی ہے وہیں افطار میں بھی جلدی کیا جاتا ہے۔ چونکہ روزہ افطارکے لئے آذان کی شرط نہیں اسلئے بھی اہلحدیث حضرات کھجور کے خوشے یا پانی کا گھونٹ بہت جلد منھ میں اتار لیتے ہیں۔البتہ عام طور پر اہل سنت والجماعت کے گھروں میں افطار اس وقت تک شروع نہیں کیا جاتا جب تک کہ ان کے مسلک کی مسجد سے آذان کی آواز نہ آجائے ۔البتہ دیوبندیوں کے یہاں معاملہ بین بین کا ہے جس مجلس میں وہ شریک ہوتے ہیں اس کا وہ بھر پور لحاظ رکھتے ہیں،عموماً میانہ روی کو ان کے یہاں ترجیح حاصل ہے یعنی نہ تو وہ افطار میں بہت جلدی کرتے ہیں اور نہ ہی آذان کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔ سنیوں کی طرح شیعہ حضرات کے یہاں بھی پائے جانے والے مختلف فرقے مختلف انداز میں روزے کااہتمام کرتے ہیں۔اثنا عشری شیعہ سید منظر عباس کہتے ہیں’’شیعوں کے یہاںسحری بہت جلد کر لی جاتی ہے جبکہ دن بھر نماز و تلاوت کااہتمام کیا جاتا ہے ،مغرب کی نماز کے بعد ہی ہم روزہ افطار کرتے ہیں اور عشاء کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں چونکہ ہمارے یہاں تراویح کی نماز نہیں ہے لہذا ہم عموماً عشاء کی نماز کے بعد کھانا کھایا کرتے ہیں‘‘۔شیعہ فرقے میں ہی شمار کیا جانے والا بوہرہ جماعت کے میڈیا انچارج قریش راغب کہتے ہیں’’ہمارے یہاں بھی روزہ اسی طرح رکھا جاتا ہے جس طرح دیگر فرقوں کے یہاںمشروع ہے البتہ ہماراافطار مقامی جماعت خانہ کی طرف سے ہوتا ہے جہاں تمام لوگ جمع ہوکر ایک ساتھ افطار کرتے ہیں ‘‘قریش راغب کے مطابق’’سب سے پہلے ہم مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں اس کے بعد کھجور یا پانی سے روزہ کھول لیتے ہیں فوری بعد ہی عشاء کی نماز ہوتی ہے جس سے فراغت کے بعد ہم کھانے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں ۔ایک تھالی میں کھانے کا سامان لایا جاتا ہے اور ہم آٹھ لوگ مل کر اسے شیئر کرتے ہیں،اس طرح آٹھ آٹھ لوگوں کا غول بنتا ہے جو مل جل کر ماحضر تناول کرتا ہے،جبکہ تمام اخراجات مقامی جماعت خانہ کے لوگ برداشت کرتے ہیں،اس مرتبہ ہمارے رہنما نے اس بات کا خاص فرمان جاری کیا ہے کہ ہم تیل والی چیزوں سے پر ہیز کریں اور اپنی صحت پر بھر پور توجہ دیں لہذا ہمارے یہاں ایسی چیزوں سے پر ہیز کیا جائے گا جو بہت زیادہ تیل اور روغن والی ہو‘‘۔شیعہ کھوجہ جماعت کے ذمہ دار صفدر کرم علی کہتے ہیں’’ہمارے یہاں بھی روزے کااہتمام عام قاعدے کے مطابق ہی کیا جاتا ہے البتہ افطار کے لئے ہم اپنی مسجدوں میں جاتے ہیں،لیکن جہاں ہماری مسجدیں نہیں ہیں وہاں کے لوگ گھروں پر ہی افطار کر لیتے ہیں ،چونکہ ہمارے یہاں بھی تراویح کی نماز نہیں ہے اسلئے عشاء کے بعد ہی ہم کھانا تناول کرتے ہیں۔جبکہ تلاوت اورنماز کا ویسے ہی اہتمام ہوتا ہے جیسے دوسرے شیعہ حضرات کرتے ہیں‘‘۔البتہ یہ تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں کہ آغا خانی حضرات روزے کے معاملے میں آزاد خیال واقع ہوئے ہیں ،چونکہ ان کے یہاں اسلامی رسوم و رواج کا ایک الگ ہی سلسلہ ہے لہذا بیشتر آغا خانی روزہ نہیں رکھتے ۔اطلاعات کے مطابق ان کے فرقے سے وابستہ صرف ایک فیصدی تعداد ہی ایسی ہے جو روزے کا اہتمام کرتی ہے ورنہ ان کے یہاں اجتماعی طور پر کوئی نظم ہی نہیں ہوتا ہے۔
روزہ کھولنے اور افطار کرنے میں جس طرح مختلف مسلک کے یہاں مختلف چیزیں رائج ہیں اسی طرح ہندوستان کے مختلف علاقوں میں افطار کے سامان میں بھی عجیب و غریب چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔اتر پر دیش اور بہار کے علاقوں میں اگر افطار میں مصالحہ دارچنا(جسے عرف عام میںگھوگھنی کہتے ہیں)نہ ہو تو لوگ افطار کا سامان مکمل نہیں سمجھتے جبکہ ممبئی و مہاراشٹر میںمٹرچھولے(جسے عرف عام میں رگڑا کہتے ہیں) نہ ہو تو لوگ اپنا پیٹ بھرا ہوا محسوس نہیں کرتے۔جبکہ بنگال میں ’’جھال موڑھی ‘‘کو بھی افطار کا جز ء سمجھا جاتا ہے۔اتر پردیش کے اعظم گڈھ اور اس کے اطراف میں افطار کے وقت ہی مکمل کھانا تناول کر لیا جاتا ہے اور پھر مغرب کی نماز ادا کی جاتی ہے ،جبکہ کرناٹک میں افطار کے ساتھ گرم سوپ کا اہتمام ضروری خیال کیا جاتا ہے۔البتہ اگر کوئی آندھرا پردیش میں حیدر آبادجائے اور افطار میں اسے حلیم نہ ملے تو پھر یہ سمجھا جانا چاہئے کہ اس نے کسی مفلوک الحال کے یہاں دعوت میں شرکت کی ہے۔ تذکرۃ ًیہ بات بھی ذہن نشین کر لی جائے کہ سیاسی جماعتوں کی افطار پارٹیوں کے علی الرغم دینی جماعتوں کی افطار پارٹیاں زیادہ دلچسپ ہوتی ہیں۔ یہاں تمام فرقوں اور جماعتوںکا کاکٹیل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اگر کوئی بد قسمتی سے چھوٹ گیا تو بڑی جگ ہنسائی ہوگی۔لہذا بڑے اہتمام سے تمام جماعتوں کے ذمہ داران یا عہدیداران کو دعوت دی جاتی ہے لیکن جب افطار کا وقت آتا ہے تو پھر نظارہ بڑا دلچسپ ہوتا ہے دہلی خصوصاً اوکھلا کے علاقے میں جہاں ہندوستان کی بیشتر آل انڈیا جماعتوں کا دفتر ہے جب رمضان میں ان کی جانب سے دعوتوں کاا ہتما ہوتا ہے تو بغیر حسب و مراتب اکثریت شرکت کرتی ہے ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بعض بچے تو اسے نعمت غیر مترقبہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ایک ماہ کے کھانے کا انتظام ہوجاتا ہے، لہذا جب کسی مسلک کے مطابق افطار کا وقت ہوچکا ہوتا ہے اور وہ کھاناشروع کر دیتا ہے تو پھرںنظارہ ’’دیدنی‘‘ ہوتا ہے،اور لوگ یہ کہنا نہیں بھولتے کہ بھائی جب روزہ افطار کے معاملے میں لوگوں کے مابین صبر و برداشت نہیں یا لوگ ایک دوسرے کا لحاظ نہیں رکھتے تو پھر اتحاد ملّت کے بلند بانگ دعوے کیوں کئے جاتے ہیں؟ البتہ افطار کرانے کے معاملے میں ہماری گھروں کی عورتیں زیادہ حساس ہوتی ہیں اور شاید اس باب میں کسی کا اختلاف نہیں کہ جب تک وہ کسی غریب یا مقامی مسجد میں افطارنہ بھیج دیں اس وقت تک انہیں چین نہیں آتا اور شاید یہی وجہ ہے کہ مردوں کے بالمقابل عورتیں رمضان کی فضیلتوں سے زیادہ مستفید ہوتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *