ایران میں جوکچھ دیکھا
(سفرنامہ)
مرزاعبدالقیوم ندوی 9325203227

لایجرمنکم شنآن قوم علی أن لا تعدلوا(کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس کے ساتھ بے انصافی کرنے پر آمادہ نہ کردے )میرا یہ ماننا ہے ایرانی حکومت کی جو با ت قابل تعریف ہے اس کی تعریف کرنی چاہئے اور جو بات قابل تنقید ہے اس پر تنقید کرنی چاہئے ۔ایران کی تعریف ہم اس لیے نہیں کررہے ہیں کہ ہم ایران حکومت کے مہمان رہے ہیں بلکہ یہ حقیقت کا اظہار ہے ۔
ایران دیکھنے کی تمناطالب علمی کے زمانہ ہی سے تھی ،کیونکہ ایران وہ سرزمین ہے جس کو ہم اسلامی علوم وفنون کا گنجینہ و گہوارہ کہہ سکتے ہیں جہاں سے وہ نابغہ روزگارشخصیات ،ماہرین علوم و فنون ،یکتائے زمانہ لوگ پیداہوئے کہ دنیا آج تک اس کی مثال پیدا نہیں کرسکی۔ایرانیوں نے اسلامی علوم وفنون میں وہ کمال پیداکیا کہ ان کی بات کو، حرف آخر کا درجہ دینا پڑا ،نہ صرف فقہ اسلامی بلکہ قرآن و حدیث ،زبان و لغت میں وہ شخصیتیں پیداہوئیں کہ جن کے نام کے آتے ہی ہمارے سر ادب و احترام سے جھک جاتے ہیں۔جب عجم کے لالہ زار اسلامی علوم وفنون کے پھولوں وکلیوں سے مہک اٹھے تو وہاں کی خاک سے بے شمار عالم بے بدل،فقیہ بے مثال ،خطیب لاجواب ،محدث بے نظیر پیدا ہوئے بشار بن برد ،ابونواس جیسے شاعر ایران کے اسی خاک سے اٹھے ہیں۔ایران دیکھنے کی جستجو اس لیے بھی تھی کہ یہاں کا فن تعمیر ،فن مصوری ،سنگتراشی ،فن خطاطی ،قالین کی صنعت کی بہت تعریف سنی تھی اورپڑھی بھی تھی۔یہاں کے مدارس کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔
سب سے بڑی وجہ ایران جانے کی یہ تھی کہ اس عظیم انقلابی رہنما جس نے مدرسہ کی چٹائی پر بیٹھ کر ایران کی شاہی سلطنت کا تختہ پلٹ دیاتھا۔اس انقلاب کے اثرات کو اپنے آنکھوں سے دیکھنابھی مقصود تھا ۔اسلامی انقلاب کے لیے اور بھی لوگوں ،جماعتوں ،تنظیموں نے جدوجہد کیں مگر وہ ناکام رہیں ۔کسی نے قبل ازوقت مدمقابل کی طاقت کااندازہ لگائے بغیر لڑائی کی شروعات کردی،تو کسی نے عوام الناس کو اعتماد میں لیے بغیر ہی انقلاب کا نعرہ دے دیا۔ایران میں آیت اللہ امام خمینی ؒ کا انقلاب حقیقی انقلاب تھا جس میں پوری تیاری اور پلاننگ کے ساتھ شاہ کو ایران چھوڑنے پر مجبور کیا گیاتھا ۔ ہم نے شاہ کے وہ محلات بھی دیکھیں اور بلا مبالغہ اقبال کا یہ شعرگنگنانے کہ
ع سلطانی ء جمہورکا ’’ ا ٓیا‘‘ ہے زمانہ ،
ہم نے اس رپورتاژمیں انہی باتوں کا تذکرہ کیا ہے جوہم نے دیکھی اور جس کا تاثر دل پرقائم ہوا۔یہ رپورتاژ 30مئی 2014ء سے 6؍جون 2014ء کا ہے ۔اس سفرسے واپسی کے بعد عراق میںجنگ شروع ہوگئی ،جس کودانستہ طورپر شیعہ اور سنی جنگ کا نام دیا جارہا ہے،یہ ایک بہت بڑی سازش ہے جسے مسلمانوں کوسمجھنا ہوگا، عالم اسلام پر منڈلاتے ہوئے خطرات،صہیونی طاقتوں کی ناپاک سازشوں کوطشت از بام کرنا ہر فرد کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
راتوں،رات کروڑ پتی بننے کا ہمارا سپنا ایران جاکر پورا ہوا۔آپ چائیں یقین کریں یا نہ کریں ،اس سفرمیں ہم کروڑ پتی ضرور بن گئے تھے( چھ دن کے لیے ہی سہی) ہم نے صرف ٹیکسی والو ں کو لاکھوںریال شہرمیں گھومنے کے لیے دیئے ۔ایک جگہ ہم نے جو س پیا جس کا بل 03لاکھ ہوا ۔ چاکلیٹ کا ڈبہ ۵۰۰ گرام 170000میں خریدا ۔بیگم کے لیے برقعہ خریدنے گئے تو قیمت سن کر ہی ہمارے ہوش ٹھکانے آگئے کہ مولوی صاحب ،اچھا ہے اپنابھارت کہاں لاکھوں ریال دے رہے ہو،بہرحال کچھ تو لانا ہی تھا ،سوچا چلو بیگم بھی کیا یاد کریں گی کہ ایران سے ہمارے لیے پانچ لاکھ کا برقعہ خریدا گیا ۔مشہور ٹی وی سریل ’’کون بنے گا کروڑ پتی ‘‘میں کروڑ پتی بننے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔مگرآپ ایران میں منٹوں میں کروڑ پتی بن جاتے ہیں۔چائے، اگرآپ کو پینا ہے تو 3000ہزار دینا ہوں گے ۔سارا کھیل لاکھوںکا۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایران اور عراق کے کنوؤں میں کون شعلہ بھڑکارہاہے،گیس کے ذخائر پر کون اپنا تسلط قائم کرنا چاہتاہے۔معصوم لوگوں کے ہاتھوں میں ہتھیار کون دے رہا ہے،کھانے کواناج نہیں ،رہنے کو گھر نہیں ،ہاتھ میں کا م نہیں ،ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ ہر ہاتھ میں ہتھیار ضرور ہے،ہتھیار بھی کوئی ایسے ویسے نہیں ہے بلکہ جدید سے جدید تر ،گولہ بارود ،میزائل اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بے شمار ہتھیاروں کی کھیپ کے کھیپ کہاں سے آرہی ہے ،اس کے پس پردہ کون ہے ،یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ آج مسلم دنیا آگ میں جل رہی ہے خون ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔آج بھی ،مصرو فلسطین وشام میںہزاروں مسلمان کھلے آسمان تلے زندگی گزرانے پر مجبور ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ دنیا آج گلوبل وارمننگ سے زیادہ گلو بل وار کی شکار ہوتی جارہی ہے ۔جب ہم ایران میں تھے اس وقت پڑوسی ملک عراق میں امن و امان تھا ،اور ہم لوگ جس کانفرنس میں گئے تھے اس کا موضوع بھی یہی تھا کہ مسلم ممالک کا آپس میں تال میل کیسے قائم ہوسکتا ہے؟مسلمانو ں کا ایک اتحاد ی پریشر گروپ کیوں نہیں بن سکتا ہے؟ایران کے روحانی پیشوا نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’’امریکہ ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا ،اگر ہم شیعہ سنی متحد ہوجائیں تودنیا کی کوئی طاقت ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی ۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے دشمن نے ہمیں متحدہونے اور ترقی کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔‘‘مگرپتہ نہیں آج کی صورتحال کیوں کر پیداہوئی ہے ،مذہبی مقامات پر حملہ اور قبضہ ،دونوں مسلکوں میں آپس میں تصادم اور خون ریزی مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبورکررہی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عالم اسلام آپس ہی میں نہ الجھ جائے اور لڑلڑکر ختم ہوجائے۔دونوں ملکوں کے طرف سے بیانات ا ٓرہے ہیں کہ یہ شیعہ سنی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ اقتدار کی جنگ ہے ،ملک کے مادی وسائل،پیٹرول و گیس اور دیگر معدنیات کی حصولیابی کی جنگ ہے ۔ اس سے بڑھ کر دوبارہ اسلامی ملکوں کو غلام بنانے کے حربے ہیں۔مادہ پرست طاقتیں مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑا کر کمزو ر کرنا چارہی ہیں۔
کوئی سوال کرے کہ دنیامیں آج ایران کا اتنادبدبہ کیوں ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل سے آنکھ سے آنکھ ملا کر باتیں کرتا ہے ؟امریکہ اور اس کے ہمنوا ؤں کی تمام تر پابندویوں کے باوجود آجایران ترقی کی راہ پر گامزن ہے ،برسوں سے اس کی معاشی ناکہ بندی کی گئی ہے۔ آٹھ سال تک عراق سے وہ بر سرپیکار رہا ۔ بادشاہت کے ختم ہوجانے کے بعد سے آج تک ایران کو کئی مشکلات کاسامناکرنا پڑا،ان سب کے باوجود ایران آج بھی اپنے بل بوتے پر کھڑا ہوا ہے۔اس کی ترقی کی رفتار کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے کم نہیں ۔ ایران ہر شعبہ میں خود کفیل نظر ا ٓتا ہے۔دنیاکی جدید سے جدید ٹیکنالوجی اس کے پاس موجود ہے ۔جوہری توانائی بھی اس نے حاصل کرلی ہے ۔کھیل سے لیکر فوج تک، تعلیم سے لے کر روزگار تک،صنعت وحرفت ،زراعت وتجارت ، طب و صحت ،شہری و دیہی علاقوں میں مٹتا ہوا فرق آپ بخوبی محسوس کریں گے۔
ایران اپنی تہذیب وتمدن کے لیے ساری دنیا میں زمانہ قدیم سے جانا جاتاہے ۔ شاندار ماضی ،درخشاں روایتوں ،جوانمردی وبہادری کی حکایتوں،شاہنامہ کی داستانوں ۔شاہنامہ فردوسی کو پڑھنے کے بعد ایران کے بارے اور کچھ بتانے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ایران پر بڑے بڑے بادشاہوں نے حکومتیں کی ہیں ،کوروش،نوشیرواں ،جیسے عادل بادشاہ کوپوری دنیامیں عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ان کے زمانے میں بھی ایران میںسیاست کے واضح قانون موجود تھے۔ان کا اپنا رسم ا لخط تھا ۔وہ اپنے زمانہ کا سپر پاؤر ملک تھا،ہمخامنشی کے دور میں دنیا کے تین براعظموں پر اس کی حکومت تھی۔ظہور اسلام سے پہلے یہاںساسانی خاندان کی حکومت تھی،اس وقت سارا ملک زرتشتی مذہب کا پیرو تھا ،زرتشت کا ظہور بھی ایران ہی میں ہوا تھا۔جب اسلام کی روشنی یہاں پہنچی تو ایرانیوں نے اسلام کو دین وجان سے قبول کیا ،تھوڑے ہی عرصہ میں پوری قوم حلقہ بگوش اسلام ہوئی،آتش کدے بجھ گئے۔عربی رسم الخط آگیا،اس طرح زندگی کے ہرشعبہ میںاسلام کی چھاپ نظر ا ٓنے لگی۔ایران میں جو افراد پیدا ہوئے ہیں آج پوری اسلامی دنیا میںان کی نظیر نہیں ملتی،فنون لطیفہ میں آج بھی ایران یکتا ئے ز مانہ ہے،تعمیرات ونقش ونگار میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ادب ،فلسفہ ،تاریخ ،جغرافیہ دیگر علوم وفنون میں جو افراد یہاں پیدا ہوئے ہیںوہ بہت کم اسلامی ملکوںمیںہوئے ہیں۔ فردوسی،طوسی،حافظ،سعدی،جامی کا سکہ آج بھی رائج الوقت ہے ۔ساسانی خاندان،شاہ پوراول ،دوم،بہرام گور،قباد بن فیروز ،نوشیروان ،ہرمز،خسرو پرویز ،قبادبن پرویز جیسے شاہان ایران کی نظیر پوری دنیامیں نہیں ملتے ۔
دنیا میں سب سے پہلے پیٹرول کا کنواں ایران میں دستیاب ہوا ۔یہی پیٹرول جب یورپ کی گاڑیوں میں جلنے لگا تو یورپ کی ترقی کی رفتارتیز ہوگئی اتنی کہ وہ چاند سے بھی آگے پہنچ گئی ۔
ایران کا یہ سفر ایران کلچر ل ہاؤس ممبئی کے توسط سے پیش آیا ۔ اس سفرکی ابتداء 30مئی 2014کو ممبئی سے ہوکر 06جون 2014بروز جمعہ کو اسی ایئرپورٹ پرختم ہوئی۔ایران ائیر لائن کے جہاز ’’ہما‘‘سے ہمارا سفر شروع ہوا ۔فارسی میں ’’ہواپیمائی ‘‘air lineکو کہا جاتا ہے۔
ایران کی معلوم تاریخ 2500قبل مسیح سے ملتی ہے۔ ایران کا اصل نام فارس تھا۔ ایران کا مطلب ہوتا ہے آریاؤں کی سرزمین ،یہاں کئی بڑ ے بادشاہ گزر ے ہیں ۔آج ایران کا شمار دنیا کے اہم ترین اور ترقی پذیر ملکوں میں ہوتا ہے ۔یہاں کا موسم عام طور پر خوشگوار ہوتاہے ۔یہاںقومی پھل تربوز ہے ۔ ایرانی قالین دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین ایران ہی میں ہیں۔ اس وقت ایران کی آبادی 77352373(سات کروڑ تہتر لاکھ باون ہزار تین سے تہتر ہے )ایران کی 61%آبادی شہروں میں بستی ہیں اور 39%دیہاتوں میں ۔ایران کا کل رقبہ1648000(مربع کلو میٹر) ہے۔ ایران کا سرکاری مسلک شیعہ اثنا عشریہ ہے ۔یہاں کے عام مزارات اور مساجد اوقاف کے ماتحت ہیں۔ جس طرح ہمارے ملک کا سب سے بڑا اعزاز ’’بھارت رتن ‘‘ہے اسی طرح ایران کا سب سے بڑا اعزاز ’’نشان آریامہر ‘‘۔ایران 1501ء سے 1979ء ( اسلامی انقلاب) تک بادشاہت کے زیر حکومت رہا۔ انقلاب ایران میں شاہ کاتختہ الٹ کر شیعہ پیشواؤں کی حکومت قائم کی گئی ۔رقبہ کے اعتبارسے (سعودی عرب )کے بعدمشرق وسطی کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔1979ء کے آئین میںشیعہ مذہبی علما کو حکومت میں اہم سیاسی قیادت دی گئی ہے۔ایران کے آئین کے مطابق آیات اللہ روح اللہ خمینی کو ملک کا سربراہ منتخب کیا گیا جبکہ انہوںنے ملک کی حقیقی حکومت کاری میں حصہ نہیں لیا۔وہاں کے رہنماؤںنے ایسا آئین بنایا جس میں انتظامیہ ،عدلیہ اور مقننہ الگ الگ تھیں ،اگرچہ کہ مذہبی طبقہ حکومت کے ا علی ترین عہدوںپرغالب ہے۔روحانی پیشوا ملک کی سب سے بڑی ہستی ہے اس کے بعد صدر کا نمبر آتاہے۔ان دونوں قیادتوں پرعوام کو زبردست یقین واعتماد ہے،ان کے ہر فیصلہ کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔مذہبی پیشوا سے عقیدت ومحبت کا نظارہ ہم نے 04جولائی کو منائی جانے والی امام خمینی کی برسی کے موقعہ پر دیکھاکہ ایرانی عوام اپنے روحانی پیشوا کے دیدارکے لیے اس قدر بے چین تھی کہ نعروں اور مختلف آوازوں سے اجتماع گاہ منٹوں تک گونجتا رہا۔ایسا منظر میں نے ا ب تک نہیں دیکھا تھا۔
ایران کا یہ نیم سیاسی و نیم سرکاری دورہ تھا،جس کا واحد مقصد ایران کی موجودہ سیاسی،سماجی،اقتصادی ،مادی و روحانی ترقی وتبدیلی کامشاہدہ کرنا تھا۔ہر سال 04جون کو ایرانی اسلامی انقلاب کے بانی امام آیت اللہ خمینی کی برسی منائی جاتی ہے۔اس اجلاس سے ایران کے سب سے بڑی روحانی شخصیت خامنہ ای خطاب کرتے ہیں۔قریباََ دولاکھ سے زائد افراد اس خطاب سے مستفید ہوتے ہیں اور پوری دنیا میںاس کا لائیو(live) دکھایاجاتاہے۔اس اجتماع میں ہم نے جو نظارہ دیکھا ویسا بہت ہی کم دیکھنے میں ملتا ہے ۔ جیسے ہی ایران کی روحانی شخصیت امام آیت اللہ خامنہ ای وہاں تشریف لائے نعرہ تکبیرکی صدائیں بلند ہونے لگیںاور پورا مجمع کھڑے ہوکر دیر تک نعرے لگاتا رہا ۔ یہاں دورد شریف پڑہنے کابہت رواج ہے ۔ہر موقعہ پر کسی بھی کام کے شروع و اختتام پر وہ درود پڑہتے ہیں ۔دورد کچھ اس طرح سے ہے ’’اللہم صلی علی محمد و صلی علی ال محمد بس اتنا ہی پڑھتے ہیں۔
تہران:ایران کا دارالسلطنت ہے،جس کی آبادی تقریباََ ایک کروڑ کے آس پاس ہے ۔ اس کا قدیم نام ’رے‘ ہے اسی شہرمیںہمارا قیام تھا،یہ شہریورپ وافریقہ کے کسی بھی شہر سے صاف صفائی ،بلندبالاعمارتوں، ،گلستانوں ،پھلواریوں ،کیاریوں میںکم نہیں ہے ۔دن میں یہ شہر شیشہ کی طرح چمکتا ہے ،یہاں کی راتیں الف لیلہ کا شہر لگتاہے ،خوبصورت سایہ داردرخت ،بڑے سلیقہ اورنفاست سے سجے ہوئے انواع واقسام کے پھولوں کے گملے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں،یہاں زندگی کی رفتارصبح آٹھ بجے شروع ہوجاتی ہے۔سڑکیں بہت کشادہ ہیں۔ٹرافک کا نظام بہت ہی اچھاہے۔ راستوں کے دونوں کے کناروں پربازار ہیں،دکانیں دلہنوں کی طرح سجی ہوئی ہیں،ان دکانوں میں ایران کی بہترین مصنوعات ،دست کاری کے اعلی نمونے ،دیدہ زیب نقاشی سے مزین انواع و اقسام کے ظروف ،ایک سے ایک عمدہ قالینیں،زیوارت کی بے شمار دکانیں،خوبصورت نقش نگار والے اعلی قسم کے ملبوسات ،شیشہ کی کاریگری کے سامان دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں،ہزار دل کے چاہنے کے باجود جیب اجازت نہیں دیتا ۔دوران قیام ہم نے پانچ سے زائد مرتبہ ہارن کا آواز نہیں سنا۔تہران کے انار بہت عمدہ ہوتے ہیں،انقلاب ایران کا سب سے زیادہ اثر تہران ہی پرپڑا،یہ شہردیگر صوبوں سے کچھ الگ تھلگ تھا ، بڑی تیزی کے ساتھ ایران کی سیاسی ،سماجی،علمی کاوشوں مرکز بن گیا ۔مسجد سپہ سالاریہاں کی تمام عمارتوںمیں سب سے زیادہ پرورونق ہے۔ جدید تہران میں تاریخی مقامات کے علاوہ دیکھنے کی چیزیں بہت ساری ہیں جیسے ،میدان سپاہ عجائب گھر ،مسجد شاہ،خال مرمر ،لائبریری،،تہران یونیورسٹی شامل ہیں،یہاں پر باغ شاہ اورباغ باملی دونوں جگہوں پر عوام کی بھیڑ لگی رہتی ہے ،جس طرح کہ کشمیرکی شالیمار اور نشاط باغ میںہوتی ہے۔شام کے وقت باغوں میں وہ چہل پہل ہوتی ہے کہ بس دیکھتے ہی رہنے کو جی چاہتا ہے۔
تہران میں اعلی تعلیمی ادارے اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ دفاترہیں،دکانیں سجی سجائی ہوئیں ، ان پر دلہنوں کا گمان ہوتا ہے سڑکوں پر بھیڑ نہ کے برابر ،گندگی کا دور دور تک کوئی آتا پتہ نہیں ۔عام طورسے بڑے شہروں میں بھکاریوں کی بہتات ہوتی ہیں ،ہمارے پورے گروپ نے کل ملاکر ڈھائی فقیر دیکھیں،یعنی دو بڑے وہ بھی معذور اور ایک لڑکی جو آئس کریم فروخت کررہی تھی اور نہ خریدنے پرپیسے مانگ رہی تھی۔ ہاں خاص بات ہم نے وہاںپان اور گٹکے کی دکانیں نہیں دیکھیں یہی وجہ ہے کہ وہاں عام طہارت خانے ،بیت الخلاء،عوامی مقامات بسوں، دفاتر کی لفٹوںمیں پان اور گٹکے کے اثرات نظر نہیں آتے،غالب کو یہ کہنے کا موقعہ ہی نہیں دیا کہ ؎
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا !
مشہد:ایران کا دوسرا بڑا شہر جہاں ہمیںہوائی جہازسے لیجایا گیا،اس کی آبادی ۲۲لاکھ کے قریب ہے،اس شہر کی آب و ہوا بڑی خوشگوار ہے،یہ شہرشمال مشرقی صوبہ خراسان کا صدر مقام ہے ،یہ ایک سیاحتی مقام کی حیثیت رکھتا ہے،سردیوں میں یہ کشمیر کا نظارہ پیش کرتا ہے۔اس شہر کی خاص ایک خاص بات جو دنیامیںکہیں پر بھی دیکھنے میںنہیں آتی کہ یہاں کی زمین کسی کی ملکیت نہیںہے،تمام زمین حضرت امام علی رضا کے نام وقف ہے،(امام علی رضا کون تھے ؟ان کے والد کا نام موسی کاظم تھااور والد کا نام جعفر محمدباقر اور باقر محمد حضرت زین العابدین کے صاحبزادے تھے ،کثرت عبادت کی وجہ سے آپ کا نام زین العابدین کثرت عبادت کی وجہ آپ کا لقب ہوگیا۔امام علی رضا شعیہ حضرات ان کو اپنا اٹھواں امام مانتے ہیں ۔یہاں کے ہوٹلوں اور کرایہ داروں ،مسافرخانوں کی آمدنی امام رضا کے نام جمع کرادی جاتی ہیں۔یہ شہر دنیا بھرکے شعیہ حضرات کے لیے حرم کا درجہ رکھتا ہے اس کو وہ حرم ہی کہتے ہیں،امام رضا کا مزار دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔بہت ہی خوبصورت عالیشان عمارتیں ،بلندبالا دروازے،دیواروں ،کمانوں ،گنبدوں پر بہترین نقش ونگار ،گل بوٹے اترے ہوئے ہیں۔امام رضا کے مقبرے پر تو اتنا ازدھام ہوتا ہے کہ کاندھے سے کاندھا چھلتا ہے ،وہاں خود سے چلنے کی ضرورت نہیں لوگ خود آپ کو چلائیں گے۔ ہمارے میزبانوں نے ہمارے لیے علیحدہ انتطام کیا تھا جس سے ہمیں بہت آسانی ہوئی۔مشہور شاعر شاہنامہ اسلام کا خالق فردوسی کا مزار اسی شہرمیں ہے،وقت کی کمی کے سبب وہاں جانہیںپایا۔نیشاپور مشہد سے دس کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے و ہاں مشہور شاعر قیام کی قبر ہے وہاں وقت مانع ہوا۔
ایرانی بڑے مہمان نواز واقع ہوئے ہیں،خندہ پیشانی سے ملتے ہیں ،سلام کا عام رواج ہے،لیکن صرف ’’سلام‘‘پراکتفاکرتے ہیں۔ لباس میںسائستگی ہے،مرد حضرات کوٹ پتلون پہنتے ہیں،عورتیں ،سروں پر اسکارف اور چادریں اوڑھتی ہیں،چادر کے نیچے فل کوٹ جنس پینٹ ہوتی ہے،لباس چست ہوتا ہے۔ اکثر عورتیں صرف آنکھ ،ناک اور منھ کھلارکھتی ہیں،باقی عورتیںاسکارف پہنتی ہیں ،بالوں کورنگاتی ہیں۔ نوجوانوں کی تعداد کافی ہے،لڑکیوں کی شرح پیدائش غالباََ وہاںکم ہے !۔
ڈاڑھی اور ٹوپی والے ڈھونڈنے سے بھی نہیںملتے ہیں ،ڈاڑھی اور عمامہ یہ صرف مذہبی لوگوں کے لیے ہی خاص ہے ۔ میں جب بازار میں کرتہ پائجامہ اور صدری اور ٹوپی پہن کر گیا تو یقین جانئیے بچے ہنس ہنس کر آپس میں باتیں کررہے تھے اور مجھے بڑے تعجب و معنی خیز نگاہوں سے دیکھ رہے تھے ۔ہزاروں کی بھیڑ میں میں اکیلا ہی اس لباس میں تھا باقی سبھی لوگ کوٹ پتلون میں تھے۔ کسی پروگرام میں سیروانی پہن کر چلا جاتا تو تمام لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا ،خاص کر پریس اور فوٹو گرافر تو ضرور میری تصویریں لیتے ۔ شیروانی کے طفیل ہی میں تقریباََ اجلاسوں میں پہلی صف میں جگہ آسانی سے حاصل کرلیتا تھا۔
ایرانی کھانے :میزبانوں نے ہماری مہمان نواز ی میں کوئی کثر باقی نہیں رکھی ،انواع و اقسام کے اعلی ترین کھانے ،ہمہ قسم کی مٹھائیاں،مشروبات ،کھانے کے میز پر چن دی جاتیں ،ہم تو صرف دیکھ دیکھ کر ہی پیٹ بھرلیتے،کیونکہ کھانااپنی تمام خوبیوں کے باوجود بھارت کی خصوصیت سے عاری تھا،لال وہری مرچ تو شاید ہی ایرانیوں نے دیکھی ہو ،کھانے میںبالکل نہیںتھی۔کھانے میں مچھلی،چکن،چاول ،بریڈ،پاؤ ،دہی،ٹماٹر ،ککڑی ،تربوز ،جیلی ،پٹنگ ،کباب،گوشت ،سوپ وغیرہ چیزیں عام تھیں۔ بھارت و پاک ،بنگلادیش ،سری لنکا والوں کے علاوہ باقی دیگر ممالک کے لوگ خوب دل لگاکر اور جم کرکھاتے اور ہم ………………
بازاربزرگ :تہران کا مشہور بازار جس کا نام ’’بازار بزرگ ‘‘جہاںسب سے زیادہ ہماری دماغ کا تورا بورا ہوا،اشیاء کی قیمتیں دیکھ دیکھ ہمارے ہوش اڑ جاتے بہت سے چیزیں چاہتے ہوئے بھی نہیں خرید پائے۔ڈرگن ہر جگہ موجودہے ،چین نے آج پوری دنیا کی مارکیٹ پر قبضہ کرلیا ہے۔کوئی ایسا ملک نہیں جہاں made in china کا لکھا ہوا نہ ملے۔ بازار بزرگ ہمارے ممبئی کے بازاروں جیسا ہی ہے ہاں صاف صفائی ،سلیقہ مندی،نفاست پسندی ،عاجزی جو ایرانیوں کا خاص وصف ہے ۔بڑے بڑے mallبھی ہیں،جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں،مسئلہ زبان کا ہے ،انگریزی میں کچھ کام چلتا ہے،اکثر کام لین دین کا Calculatorکے ذریعہ یا پھرایرانی نوٹوں کو دیکھاکر ہی کیاجاتاہے ،ہم تولاکھوں کے نو ٹ ان کو دے دیتے اور کہتے ہیں بھائی جو لینا ہو اسی میں سے لے لواور جو کچھ باقی رہا وہ دے دو،ایماندار ی کی انتہابھی ہم نے وہاں دیکھی،کبھی ایسا نہیں ہواکہ کچھ زیادہ پیسہ لے لیاہو۔بازار میںبھاؤ تاؤ کرنا پڑتا ہے۔ عورتیں بازاروں کی زینت ہوتی ہی ہیں وہاں بھی بازاروںمیںان کی کثرت تھیں مگرایک چیزجو ہم نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ عورتوں کا شور وغوغا بہت کم تھا ۔ایک بھی عورت ایسی نظر نہیں آئی کہ جو بے پردہ ہو یا اس کے سر پر اسکارف نہ ہو ۔ایران کا برقعہ صحیح معنوں میں اسلامی برقعہ کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ قرآن و حدیث میں عورتوں کو چادراوڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اور ایرانی عورتیں چادر وں کا ہی برقعہ بناتی ہے۔
ایران کی عورتیں :ڈاکٹرمحسن عثمانی ندوی نے اپنے سفر نامہ ایران میں وہاں کی عورتوں کا بہت خوب نقشہ کھنچا ہے ،(پروفیسر محسن عثمانی ندوی ،ایک صاحب طرز انشاء پرداز عالم دین ہیں،کئی کتابوں کے مصنف ،مؤلف ومترجم بھی،فکر اسلامی ،دعوت اسلامی کے علمبرداربھی ہیں )ملاحظہ فرمائیے
’’…..حجاب کی پاپندی سب کے لیے ہے،بازاروں میں اور شاہ راہوں پر تمام عورتیں اسکارف باندھے ہوے ،ساتر لباس میںنظر آتی ہیں،چہرہ کھلارہتاہے ،لیکن تہذیب اس قدر ہے کہ کوئی بھی کہیں سے بھی حسن کو گھور کر کے نہیںدیکھتاہے، یہاں حسن زن کے ساتھ حسن ظن رکھاجاتاہے ،قامت گلفام کونگاہ احترام سے دیکھا جاتاہے ،سامنے کوئی کیسا ہی مجسم مہر نیم روز اور سراپا جمال و دل فروز ہو،کوئی آنکھیں نہیںسینکتا،نظارہ کرتا ہے ،فقرہ بازی نہیں کی جاتی ہے،چوں کہ خواتین اسلامی لباس کی پابندہوتی ہیں اور کہیں زلف تابکمر بل کھاتی ہوئی نظرآتی ہے ،اس لیے یہ چیز ان کوایک وقار او رتمکنت بخشتی ہے‘‘۔دنیا کو خوب دیکھاص195۔ ہم نے حسن بے محابا کی عشوہ طرازیاں بھی دیکھیں،سراپانازکی فتنہ سامانیوںکا بھی مشاہدہ کیا،حوا کی بیٹی کومقابلہ حسن کے بازار میں نیلام ہوتا ہوا بھی دیکھا ۔ قربان جائیے اس اسلامی انقلاب پر کہ جس نے سارا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔شاہ کے زمانے میںایران کی عورتوں کاحال قرۃ العین حیدر نے اپنے سفر نامہ ’’کوہ دماوند ‘‘خوب لکھا ہے۔اس کو ضرور پڑھئیے گا۔
تعلیم:1943میں لازمی پرائمری تعلیم نافذ کی گئی تھی۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلی تعلیم کا نصا ب تقریباََ فارسی میں ہی ہے۔ ہم نے وہاں کی کتابوں کی دکانوں کا معائنہ کیاتو محسوس ہوا کہ میڈیکل ،انجینئرنگ ،آئی ٹی و ہ دیگر جدید سے جدید تعلیم کی کتابیں فارسی ہی میں موجود ہیں ،ہمیںیہاںکی کتابوں اور نصاب کو دیکھ کر ہمارے سرکارنظام حیدرآباد کی یاد آئی کہ انہوںنے بھی حیدرآبادمیں ،دارالترجمہ قائم کیاتھا اور دنیا کی اہم اہم کتابوں کے تراجم اردو میںکرائے تھے ۔جامعہ عثمانیہ کا نصاب تقریباََ اردو ہی میں تھا۔
بھارتی ہیرو:ایران میں بھارتی ہیرو بہت مشہورہیں ،نوجوانوںمیںشاہ رخ خان،سلمان خان،ریتک روشن،اداکارہ میںایشوریارائے کا نام بہت سے نوجوانو ںسے سنا ۔ بوڑھوں میںامتابھ بچپن اب بھی مقبول ہے ۔ ایرانی نوجوانوں کو جب یہ معلوم ہوتا کہ ہم بھارت سے آئے ہیں تو وہ فوراََ ان اداکاروںکے بارے میں دریافت کرتے ۔ہفتہ میں ایک دن کسی ٹی وی چینل پر بھارتی فلمیں بھی دکھائی جاتی ہیں ،شاید اسی کاکما ل ہے کہ ہمارے یہ اداکار وہاں اتنے مقبول ہیں۔
30؍مئی :ہمارا سفر اصل شروع ہوا ۳۰ ؍مئی کو سانتا کروزائیر پورٹ سے، فلائٹ نمبر air iran huma 810 کے ذریعہ۔ ،عرفان خان سوداگرمحمد نجم الحسن قادری ،مجتبی منیب اور راقم الحروف مرزاعبدالقیوم ندوی اورنگ ا ٓبادسے تھے۔ممبئی ایئر پورٹ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ہماراجہاز ایک بجے دن میں تھا ،ڈیڑھ گھنٹہ دیری سے پہنچنے کی وجہ سے ڈھائی بجے ہماراسفر شروع ہوااورشام ۷بجے ہم نے تہران کے امام خمینی انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر ایرانی قالینوں سے گزرتے ہوئیں باہرآئیں ،قالینوں کے بارے میںتو صرف سنا ہی تھا کہ ایران کے قالین بہت عمدہ ہوتے ہیں ،لیکن اس روز قالین پرچلتے ہوئے فخر محسوس ہوا۔میزبانو ںکی ایک پوری ٹیم ہمارے استقبال کے لیے ائیرپورٹ کے باہرپر تیار تھی۔ضروری کاروائی کے بعد ہمیں بسوں میں بٹھاکر ہماری قیام گاہ کی طرف لے جایا گیا۔ ائیرپورٹ سے تہران شہر تقریباََ 11گیارہ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔راستہ میں خوبصورت مناظردیکھ کر دل باغ با غ ہوگیا۔شہر کی خـوبصورتی جس کاہم اوپر ذکر کر چکے ہیں قابل دید تھی۔گیارہ کلومیٹر کا فاصلہ کب ختم ہوا پتہ ہی نہیں چلا۔ہمارا قیام ہوٹل کوثر (میدان ولی عصر )تہران میں تھا ۔یہاں پر ہمارا زبردست استقبال کیا گیا۔آتے ہی چائے ناشتہ پیش کیاگیا۔(غبا ر خاطر میں مولانا ابوالکلام آزاد نے جس چائے کا ذکر کیا ہے یہ وہی چائے تھی )ہوٹل کی کاروائی کے بعد ہم نے نماز مغرب ادا کی ،مغرب کی نماز وہاں پر رات آٹھ بجے ہوتی ہے۔وہاں کی ہر ہوٹل میں نماز خانہ لازمی ہوتاہے،کمروںمیں قبلہ کی سمت کا نشان ہوتاہے،ساتھ ہی ساتھ قرآن ،جائے نمازبھی ہوتی ہے۔وہاں کی مسجدوںمیں ہمیں جانے کا موقعہ نہیں مل سکا ،ہاں البتہ نما ز باجماعت ہم نے ٹی وی پر دیکھی،اذان کی آواز بھی ٹی وی پر ہی سنائی دی ۔موذن او راورامام کا نام بھی ٹی وی کی اسکرین پردے دیاجاتا۔ ہر آفس ،سرکاری دفاتر ،مال اوردیگرعوامی مقامات پر نمازخانہ لازمی ہوتاہے۔میں نے بھارت کے تقریباََبڑے شہروں کو دیکھا ہے ،ان شہروںمیں اکثرkeep green&cleenکے بورڈآویزاں نظر آتے ہیں،جگہ جگہ پر پھولوں اور درختوں کو توڑنے سے منع کرنے والے بورڈ نظر آتے ہیں ،مگر ہمیں تہران اور مشہد میں اس طرح کے بورڈ کہیں بھی نظر نہیں آئے۔رات کا کھانا خوب بے تکلف ہوکر کھایا ،پہلے دن تو بہت اچھا لگا ،مگر اس کے بعدطبعیت پرگراں گزرنے لگا،بہرحال کھانا ہم نے نہیں چھوڑا ،نہ کھاتے تو کیاکرتے۔رات بستر پرایران کی تاریخ ،تہذیب ،ثقافت ،اسلامی انقلاب،بادشاہت کادور اور موجودہ حالات پر غور کرنے میں گزرگئی۔ ا یران پر ہمارا مطالعہ کچھ زیادہ وسیع نہ تھا ،دو چار کتابیں پڑھی تھی ،جس میں مولنا منظور نعمانی ؒ کی مشہور کتاب’’امام خمینی اور ایرانی انقلاب‘‘سرفہرست تھی ،سب سے زیادہ پسند آنے والی مشہورادیب مختار مسعو د کی شہر ہ آفاق کتاب ’’لوح ایام‘‘پڑھی تھی ،(یہ کتاب مرزاورلڈ بک ہاؤس ،قیصر کالونی اورنگ آباد مہاراشٹر )جس میں ایرانی انقلاب کا آنکھوں دیکھا حال لکھاتھا۔اس کتاب کے صفحات آنکھوں کے سامنے کھلتے جارہے تھے۔
حسن روحانی سے ملاقات:صدرایران حسن روحانی کے تصویر توہم نے کئی باراخبارات میںدیکھی ہے۔حسن روحانی کی شخصیت پرکشش ہی نہیں ،اثر دار بھی ہے،صدر ا یران سے ہماری ملاقات3جون 2014کوصبح ہوئی،اس کے لیے ہم ایک دن قبل ہی بہت ساری ہدایتیں دے دی گئی تھیںکہ آپ جیب میں قلم بھی نہیں رکھ سکتے ہیں،موبائل فون وغیرہ کوئی بھی چیز ہال میں لے جانے نہیں دی جائے گی۔(شاید یہ سب اس لیے ہوتا ہوگا کہ کوئی چیز پھینک کر ماری نہ جائے ،کیونکہ گزشتہ سال کئی حکمرانوں پر جوتو ں کی بارش ہوئیں تھی۔)بہرحا ل ہم کو حسب معمول صدر کے ہیڈکوارٹر لے جایا گیا۔ سیکوریٹی کے انتظام بہت تھے،صدر کے مکان کے اردگرد فوج متعین تھی وہ ہرآنے جانے والوں کی تلاشی لیتے جیسا کہ عام رواج ہے۔ میں حسب یہاںپر بھی صف اول میں جگہ پانے میںکامیاب رہا ۔ایران میں صدر اور تمام بڑے عہدیداران پہلے حال میں لگی کرسیوں پربیٹھتے ہیں ،نام پکارے جانے پر اسٹیج پرجاتے ہیں اور تقریرختم ہونے کے بعد وہیںسے باہر نکل جاتے ہیں۔میری نشست بالکل صدر ایران حسن روحانی کے پیچھے تھی،صدر کو تقریر کے لیے بلایا گیا ،تقریر بڑی دلچسپ تھی ۔اسی جلاس میںصدر سے میری ملاقات ہوئی۔
آیت اللہ خمینی:1900-1989پورا نام سید روح اللہ الموسوی الخمینی ۔ایران کے ایک انقلابی رہنما جنہوںنے پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے ہوئے ایک عوامی انقلاب کی قیادت کی اور پھر 1979میں رضا پہلوی کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ خمینی کے والد ایک مذہبی دانشور تھے جن کا نام سید مصطفی تھا،ان کا انتقال خمینی کے ولادت سے چھ ماہ قبل ہی ہوگیا تھا۔بھائی کی تربیت میں پروریش پائی ،قرآن حفظ کیا اور شیعہ مسلک کے بنیادی عقائدپردسترس حاصل کی۔ اعلی تعلیم انہوںنے قم میں حاصل کی اور یہیںانہوں نے ’’آیت اللہ‘‘اللہ کی نشانی کا مرتبہ پایا۔ ایران میں یہ اصطلاح شیعہ عالم دین کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ خمینی نے اپنا ایک نیا انداز اپنایا جس کی زبردست پذیرائی ہوئی ،جس سے ان کے شاگردو ںکی تعدادہزاروں میں پہنچ گئی۔ خمینی غیرملکی طاقتوں کے ایران میں مداخلت سے بہت خفاتھے ۔انہوںنے ان کے خلاف زبردست محاذ کھڑا کیا جس کی وجہ سے انہیں جیل بھی جانا پڑااور سخت تکلیفیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔ 1921 میں رضاشاہ پہلوی نے ایران کی پہلی آئینی حکومت کاخاتمہ کیا۔خمینی نے اس وقت حکومت کوخط لکھا کہ’’استبدادی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے تمام احکامات فسخ ہیں۔‘‘1941ء میں شاہ کا بیٹا محمدرضا شاہ پہلوی تخت پر بیٹھا۔اس کے بارہ برس بعد امریکی سی آئی اے نے شاہ کے حلیفو ں کو حریف وزیراعظم محمدمصدق کا تختہ الٹنے میں مدد دی ۔یہاںسے امام خمینی کی شخصیت نمایاں ہونے لگی ،امام نے جم کرشاہ کے خلاف تقریریں کیںاو ر اس پر تنقید کی۔ 1960ء میں جب شاہ نے ’’سفید انقلاب‘‘کا اعلان کیاجس میںمتعدد مغربی افکار و خیالات،مغربی تہذیب کوبڑھاوادینے کی بات کی گئی جیسے عورتوںکو مساوی حقوق اورسیکولر تعلیم ،غیر اسلامی قوانین ،شراب،سینما ہال،جوااورکلب کوعام کیاجانے لگاتو امام خمینی نے قم میںاپنی خانقاہ سے شاہ پر زبردست تنقیدیں شروع کردیںجس کی پاداش میںا نہیںگرفتار کیاگیااورایران سے باہر نکال دیا گیا۔
امام خمینی نے عراق میںپناہ لی او رشمالی عراق کے مقدس شیعہ شہر النجف میں قیام فرمایا اور پھر وہاں سے ’’ولایت فقیہ ‘‘کا نقطہ نظر وضع کیا ۔انہوںنے اپنے 12000ہزار طلبا کے ذریعہ اپنے افکار و نظریات کی اشاعت و ترویج کا کام لیا ۔انہوں نے شروع شروع میںنجف ہی سے شاہ کے خلاف تحریک چلائی اور پھر پیرس سے بھی وہ ایرانیوں کو شاہ او رامریکہ کے خلاف ابھارتے رہے ۔بالآخر انہوں نے 1979میں شاہ کا تخت پلٹ دیا اور شاہ کو بھاگنے پر مجبور کردیا ۔اسی موقعہ کے لیے غالباََ اقبال نے یہ شعر کہا تھاکہ؎ سلطانی جمہورکا آتاہے زمانہ
امام خمینی ایران کے اعلی منصب پرفائز ہوئے اور ایران کو اسلامی جمہوری ملک کا نام دیا۔ دنیا میں انقلاب کی تاریخ بڑی خونیں ہوتی ہے ،انقلاب یونہی نہیںآتے ،جان ومال ،آل و اولا د کی قربانیا ں دینی پڑتی ہے۔ ہمارے سفر کی پہلی منزل آیت اللہ خمینی کا مکان تھا ،یہ وہی دوکمروں والا مکان جہاں اسلامی انقلابِ ایران کی بنیادیں رکھی گئیں ،یہ وہی دوکمرے ہیں جہاں دنیا کے سپرپاؤر ملکوں کے سفیروںنے حاضری دی ہے۔یہ وہی دوکمرے ہیں جہاں روس کے صدر نے امام سے گھنٹوں باتیں کیں، یہ وہی دوکمرے ہیں جہاں امام نے ایک اسلامی ریاست کیسی ہوتی ہے اس کا نقشہ پیش کیا ۔ان دوکمروں کے سامنے ایک مسجد ہے جہاں سے امام قوم کو خطاب کرتے اور انہیں اسلامی شعار ،اسلامی تہذیب و تمدن پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتے ،قوم کو عمل اور جہاد پر ابھارتے ۔ان دوکمروں میں جو سادگی ہم نے دیکھی وہ موجودہ سیاسی ،مذہی قائدین اور رہنماؤںمیں دور دور تک دیکھنے کو نہیں ملتی ۔انقلاب دنیا میں یونہی نہیں آتے،مکہ معظمہ کے انقلاب سے لے کر ایران کے اسلامی انقلاب تک کی پوری تاریخ دیکھ لیجئے ۔
جس میں نہ ہو انقلاب مو ت ہے وہ زندگی روح امم کی حیات کشمکش ِ انقلاب
آج دنیا میں اسلامی ملکوں کی صورتحال ہے کسی سے مخفی نہیں ۔مسلم ممالک میں اسلام اور مغربیت کی جوکشمکش دیکھنے کو مل رہی ہے ،ہزاروں نہیںبلکہ لاکھوں مسلمان اپنے ہی ہم وطن ،ہم مذہب والوں کے ہاتھوںمارے جارہے ہیں ،ان میں کچھ شہید کہلائے جارہے ہیں،کوئی باغی او ر کوئی غدار وطن،یہ سب کیوں ہورہا ہے ،ان کے پیچھے کس کا دماغ کام کرہا ہے یہ بھی تقریباََ دنیا کو معلوم ہے۔ آج ایران دنیا کی طاقتوں سے اپنی طاقت منوارہاہے۔ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔جدید ہتھیار اس کے پاس ہیں،جدید ٹیکنالوجی اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔تمام تر معاشی تحدیدات کے باوجود وہ اپنا لوہا دنیا سے منوارہا ہے۔ ایران کے مقابلے میں اور بھی کئی اسلامی ملک ہیں جن کی دولت ایران کی دولت سے کئی گنازیادہ ہے ۔یہ سب لوگ کیوں نہیں ایران کی جیسی ترقی کر پارہے ہیں۔ہرچیز کے لیے انہیں غیر اسلامی ملکوں کی طرف دیکھنا پڑرہا ہے۔ زندگی کا ایسا کونسا شعبہ ہے جہاں ایران نے اپنی حیثیت منوائی نہ ہو،تعلیم کو ہی لیجئے۔ہم سمجھتے جو تعلیم کا معیار ایران کی دانشگاہوں میں ،وہ کسی بھی اسلامی ملک کے پاس نہیں ہے۔کسی نے ٹھیک ہی کہاہے کہ’’جو سیاسی اور معاشرتی اصلاحات وقت پر نہ ہوں وہ بے اثر ہوتی ہیںاور ان کی حیثیت سیاسی شعبدہ بازی اور سودا بازی سے زیادہ کیچھ نہیں ہوتی ۔‘‘
ایران میں ا سلامی انقلاب صرف کاغذپرنہیں آیا ،لوگوں کے دلوں میںانقلاب برپاکیاگیا،وہاں کی عورتوں میں ،وہاں کی نوجوان نسل میں،وہاں کی مذہبی قیادت میں ،وہاں کے سیاسی رہنماؤں میں ،وہاں کی مسجدوں میں ،وہاں کے مدرسوں میں،وہاں کی خانقاہوں میں،ہوٹلوں میں،شراب خانوں، قحبہ خانوں، سینما ہالوں ،فحاشی اور بدکاری کے اڈوںپر ،یہاں تک کہ ایران کے گاؤں گاؤں ،قریہ قریہ،شہر شہر ،ہرطرف ایک ہی آواز بلند ہونے لگی تھی ،انقلاب زندہ باد ،انقلاب زندہ باد ،اسلامی انقلاب زندہ باد،امام خمینی زندہ باد……….
ایران اور کھیل :ایران نے ہر میدان میںاپنی موجودگی درج کرائی ہے۔اس وقت دنیا میںfifa world cupکی دھوم ہے۔اس میںبھارت،پاکستان،بنگلہ دیش ،سری لنکا اوردیگر کئی ملکوں کی فٹ بال ٹیموں کو جگہہ نہیں ملی ،یا ان کی ٹیمیں فیفاورلڈکپ کے معیار پرنہیں اتریں،مگر ایران کی ٹیم گزشتہ کئی سالوں سے اچھے کھیل کا مظاہرہ کررہی ہے۔ایران کی عورتیں بھی کئی کھیلوں میںشرکت ہوتی ہیں اپنے پورے اسلامی تشخص اور شریعت کے دا ئرے میںرہتے ہوئے اچھے کھیل کامظاہر ہ کرتی ہیں۔
ایران کیوں دیکھنا چائے؟عجم کے لالہ زاروں میں جو گوہر نایاب ،دفن ہیں ،جنہوں نے اپنے خون پسینہ سے اسلام کے چمن کو سینچا ،اس پروان چڑھایااور ایک گہرا سایہ دار درخت تاقیامت انسانی دنیا پر احسان عظیم کیا۔ان نایاب ،پاک طینت ،نابغہ روزگار ہستیوں کا مسکن و مدفن یہی ایران کی سرزمین ہے ،جسے دیکھنے کی تمناہر صاحب ذوق،اسلامی شخصیات سے عقیدت و محبت رکھنے والا شخص کرسکتا ہے۔
فن حدیث میں امام بخاری،اما م مسلم، امام ابو داؤد ، امام حدیث ترمذی ،نسائی اور ابن ماجہ سب غیر عرب اور اہل عجم تھے،تاریخ میں ابن جریر طبری،فلسفہ و طب میں ابن سینا،فارابی،عقلیت و علم الکلام میں امام غزالی ،مفسر زمخشری ،ماہر علم نحو سیبویہ جیسے ماہر لسانیات ،اسی طرح عبدالحمید کاتب،ابوالفرج اصفہانی ،ابن مقفع ،عبدالقادرجرجانی،ابن ابی قتیبہ ،بدیع الزمان ہمدانی عربی کے اعلی نثر نگار یہیں کے خاک سے اٹھیں ہیں۔جیسی نابغہ روزگار شخصیتیں عجم کے علاقوںمیںپیدا ہوئیں۔